شور ش ِ باطن کے ہیں احباب منکر، ورنہ یاں دل ِ محیط ِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے ۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند اہل ِ فارس کی طرح، اے بندہ پرور، آپ بھی کچھ عجب اغلاط کے وہم و← مزید پڑھیے
بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں، کہ ہم اُلٹے پھر آئے، در کعبہ اگر وا نہ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستیہ پال آنند آپ اگر کہتے , بصد نخوت و طرہ بازی الٹے پھر آئے، در میکدہ گر وا← مزید پڑھیے
راستہ کہتا ہے ، مجھ سے بچ نہیں سکتے تمہارے پاؤں اور میں لازم و ملزوم ہیں زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں۔ اور میں کہتا ہوں میرے پاؤں چلتے ہیں کہ آگے منزل ِ مقصود میری منتظر ہے! راستہ ہنس← مزید پڑھیے
ستیہ پال آنندکا ایک مکتوب۔ایک غزل گو شاعر دوست کے نام، جس ک ترنم کی وجہ سے اس کی شہرت کا ڈنکا بر صغیر اور باہر کے ملکوں میں بھی بجتا ہے۔ مکتوب الیہ کا نام صیغہ راز میں رکھا← مزید پڑھیے
بحر خفیف میں ’’رن آن لائنز‘‘ میں اردو میں پہلا تجربہ مالا دی دامور (Paris 1984) آپ کے شہر میں سُنا تھا، بہت پھول ہوتے ہیں، پھولوں کی مانند تازہ مسکان، ادھ کھِلے غنچوں کا تبسم ہے ۔۔۔ چاند راتوں← مزید پڑھیے
دہلی کے یہ پھبتی باز، بیکار، آوارہ اردو شاعر اور افسانہ نگار جو سارا دن کناٹ پلیس میں ایک یا دو میزوں کو قابو کیے بیٹھے رہتے تھے، میرے قیام کے دوران خبروں اور افواہوں کا بہترین ذریعہ تھے۔← مزید پڑھیے
ایک خاص موضوع جس پر میں نے عرق ریزی کی حد تک کام کیا ، وہ اردو میں صنف غزل کے منفی اثرات کی وجہ سے آزاد نظم (یعنی بلینک ورس۔۔فری ورس نہیں ، جسے آج کل نثری نظم کہا جاتا ہے ) میں رن ، آن سطروں سے لا تعلقی کا رویّہ تھا← مزید پڑھیے
بُھولا بِسرا دیس انگلستان جیسے اک کباڑی کی دکاں ہو
بوڑھے، دیرینہ، دریدہ
چیتھڑوں سے مرد و زن بکھرے ہوئے
کٹھ پتلیوں سے
بانس کی ٹانگوں پہ چلتے
مسخرے سرکس کے جیسے منہ بسورے
ہنس رہے ہوں← مزید پڑھیے
An Extract from my book Katha Char JanmoN Ki-in Urdu. انگریزی لفظ tension یونانی لفظ tensio او ر اس کی اسمِ جامد شکل tensus سے آیا ہے۔ ارسطو’ نے اپنی بوطیقا میں اس ہیجان کی سی کیفیت کے لیے جس← مزید پڑھیے
آج کا دن اور کل جو گزر گیا۔۔یہ دونوں میرے شانوں پر بیٹھے ہیں کل کا دن بائیں کندھے پر جم کر بیٹھا میرے بائیں کان کی نازک لو کو پکڑے چیخ چیخ کر یہ اعلان کیے جاتا ہے ’’میں← مزید پڑھیے
ستیہ پال آنند:
تو کیا ہے؟ مسلماں ہے یا کافر ِ زنـاری؟
کچھ بھی ہے، سمجھ خود کو اک معتقد و مومن
مخدوم و مکرم ہو، ماجد ہو، مقدس ہو
ممت اذ و منور ہو، برتر ہو زمانے سے
ہاں، دولت ِ لافنی ہے، رتبہ ء شہ بالا← مزید پڑھیے
1-حیوان ِ ناطق اچھا، طوطے ، یہ کہو یہ لوگ اکثر جھوٹ ہی کیوں بولتے ہیں؟ جھوٹ تو بولیں گے ۔۔۔ مولا نے زباں جو دی ہے ان کو دیکھ، مَینا جانور سچےہیں کیونکہ بے زباں ہیں! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2-نسل کش← مزید پڑھیے
آئینہ در آئینہ سے یہ اقتباس، صرف ان دوستوں کے لیے ہے، جو فن ِ شعر کو صحیح معنوں میں سمجھنے کے خواہاں ہیں ۔ سوال :(علامہ ضیائی) شاعری زندگی اور موت کی بند عمارت میں دروازے کی درزوں میں← مزید پڑھیے
کہرے کی اک میلی چادر تنی ہوئی ہے اپنے گھر میں بیٹھا میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا ہوں باہر سارے پیڑ دریدہ، پیلے، یرقانی پتّوں کے مَٹ مَیلے ملبوس میں لپٹے، نصف برہنہ باد ِ خزاں سے الجھ رہے← مزید پڑھیے
عرض ِ حال ٹی ایس ایلیٹ نے اپنی طویل نظم The Dry Salvages میں کہا ہے: There is no end, but additions: the trailing Consequences of further days and hours While emotion takes to itself the emotionless Years of living← مزید پڑھیے
مری چشم بینا سے پٹّی تو کھولو مجھے دیکھنے دو یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہاں جنگ کی آگ میں جلتے ملکوں سے بھاگے ہوئے مرد و زن، صد ہزاروں سمندر کی بے رحم لہروں میں غرق ِ اجل ہو← مزید پڑھیے
مدھم مدھم دھیرے دھیرے صحرا میں سورج کی آڑی ترچھی کرنیں نالاں ، شاکی اپنے ترچھے سایوں کی پسپائی پر اب سبک سبک کر اُلٹے پاؤں چلتے چلتے دور افق میں ڈوب گئی ہیں ایک نئی ہلکی ’ ’ سُر← مزید پڑھیے
شاہینہ جمال صاحبہ نے “آئینہ در آئینہ” میں مشمولہ تصوف کے حوالے سے فلسفے کی اس جہت کے بارے میں دریافت کیا ہے، جس سےتخلیق کا چشمہ پھوٹ نکلتا ہے۔ ان کا استفسار پنجابی صوفی ادب کے سباق میں ہے۔← مزید پڑھیے
“ریڈکتیو ایڈ ابسرڈم ٭کی تکنیک میں غالب کے دس فارسی اشعار کو میں نے نظموں کا جامہ پہنایا تھا (کہ برہنہ بدن یہ اشعار فارسی میں بدصورت دکھائی دیتے تھے) ان میں سے ایک شعر پر استوار نظم یہ ہے۔← مزید پڑھیے
گھر بنانے میں اسے برسوں لگے تھے سب سے پہلے گھر کی بنیادوں کے پتھر پانچ دریاؤں کے چٹیل ساحلوں سے چُن کے لایا ان پہ اپنا نام کندہ کر کے بنیادیں بنائیں چار دیواری کھڑی کی طاق ، دروازے،← مزید پڑھیے