ستیہ پال آنند کی تحاریر
ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

ہولی (1956)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ہر موڑ پہ اک شور سا ہے صبح سویرے رنگوں میں نہائے ہوئے بالوں کو بکھیرے یہ گلیوں میں پھرتے ہوئے رنگین سپیرے اس طرح سے بھی دیکھے ہیں ہولی کے نظارے گلیوں کی منڈیروں پہ یہ بچوں کی قطاریں←  مزید پڑھیے

یمین و یسار۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

صد پہلو تو کوئی نہیں ہوتا دنیا میں دو ہی تو پہلو ہیں تیرے،ستیہ پال یا دایاں ہے یا ہے بایاں ایک توازن، خوش وضعی میں نستعلیق دُوجا عدم توازن،کج مج ، ٹیڑھا میڑھا سر مایہ، اور محنت، مالک َ←  مزید پڑھیے

مجھ سے پھر مانگ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

فیض احمد فیض کی نیک روح سے معذرت کے ساتھ مجھ سے پھر مانگ وہ پہلے سی محبت ، مری جاں انقلاب آنے میں تاخیر تو تھی قاف تا قاف اور ہم نے اسے بس ایک درہ سمجھا تھا فیضؔ←  مزید پڑھیے

مکڑی جال کا جُلاہا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

باغ میں لیمپ پوسٹ کے نیچے ایک جھاڑی کے پتوں میں پیوست ایک جالہ ہے، سیمگوں، زر باف کسی مکڑے کی زیرکی کا فسوں اہلیت، اختراع، استادی اور مہارت کا پُر کشِش چکمہ! رات کو لیمپ پوسٹ کے نیچے اک←  مزید پڑھیے

یوکرین سے ایک خبر(پھر ملبے میں بدل گئی اک آبادی)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

پا مردی سے کھڑی ہوئی سرکش آبادی اک شطرنج کے مہرے سی پھر ڈٹی ر ہی باغی فوجوں کے رستے میں دیوار اٹھا کر پھر دو طرفہ پسپا ئی میں یہ آبادی (سخت جاں، سرکش آبادی) اس مڈ بھیڑ میں←  مزید پڑھیے

کلکتہ کا سفر، چند حقائق۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

فکر فی نفسہ (۷)غالب : Short Notes jotted down in India House Library, London, in 1972-73 ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۰ کلکتے کا سفر اگست 26 کو شروع ہوا۔ فروری 28 کو وہاں پہنچ گئے۔ نومبر 29 کو واپس دِلّی پہنچے۔ (ڈاکٹر←  مزید پڑھیے

عشق۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

آ تجھ سے کروں بات کہ کیا ہے فنا فی العشق اس نے کہا، سمجھایا تو رومیؔ نے بھی تھا، پر رومیؔ کی کوئی بات سمجھ آتی بھی کیسے رومی ـ کے ہاں تو “عشق” ہے بس ایک جھمیلا ہاں،←  مزید پڑھیے

​ایک نظم کی خود نوشت سوانح۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بانجھ کہاوت کی اس بنجر کوکھ کوجب میں چیر کے باہر نکلی تو میں نےکیا دیکھا؟ میں تو اپنے جیسے کئی ہزاروں، آدھےمُردہ، آدھے ِزندہ بچوں کی زنجیر میں خود بھی پڑی ہوئی تھی یہ بچے جو اپنی پیدائش کی←  مزید پڑھیے

عورت تیرے دکھ لاکھوں ہیں سیریز/​ ہسٹیریا کی ہسٹری۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

وہ نیک لڑ کی تھی صلح کل، پاکباز، بے داغ، بھولی بھالی وہ اپنی معصوم نیک چلنی میں لپٹی، لپٹائی باکرہ اک غریب گھر کی کنواری کنیا ذرا سے اونچے، امیر گھر میں بیاہی آئی تو اپنے شوہر کے لڑ←  مزید پڑھیے

​تو موت خود ہی مر گئی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

سترہ جنوری کی رات حرکت قلب کچھ دیر کے لیے بند ہو گئی۔ میں بستر پر نیم بے ہوش ساکت پڑا رہا ، لیکن پھر ایک جھٹکےسےدل کی دھڑکن استوار ہو گئی۔ اس دوران میں ذہن ماؤف تھا یہ موت←  مزید پڑھیے

کابل سے آئی اک لڑکی​۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

A clip from BBC Urdu 19 جنوری کو تمنا زریابی پریانی کو حقوق نسواں کے احتجاج میں حصہ لینے کے بعد کابل کے پروان-2 محلے میں ان کے اپارٹمنٹ سے ‘گرفتار‘ کر لیا گیا تھا۔ذرائع نے بتایا کہ   ان کی←  مزید پڑھیے

بیوٹی اِز ٹُرتھ(ایک ہندی نما نظم)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کہاں ہے سوندریہ کی شوبھا کہاں یوون کی چھوی ہے، مترو؟ (چھوی : chhavi تصویر) نہیں ہے ایسی کوئی سندرتا اُن بچوں میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے جو کوڑے کے ڈھیروں میں کومل ہاتھوں سے کاغذ، کانچ ، پرانے کپڑے،←  مزید پڑھیے

​ ایک خوفناک منظر نامہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

خوفناک تھا چلتی پھرتی سڑک کا یہ منظر نامہ کل اکڑوں ہو کر لوگ ، خدا جانے، کس سمت چلے جاتے تھے دیکھے بھالے،جانے پہچانےسب اپنے چلتے پھرتےزندہ پُتلے جُڑے ہوئے ٹکڑوں کے سانچے ہیرو غلیفی گُڑیاوں، گُڈـوں کے ایک←  مزید پڑھیے

ہمیشہ زندہ رہ اے حسن ِکاشی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یہ نظم 1972 میں لکھی گئی، یعنی لگ بھگ نصف صدی پیشتر۔  کنوارے جسم پر اک گیلی ساڑھی بیاہے ہاتھ میں پوجا کی تھالی کھنکتی پائلوں میں لاکھ نغمے شوالے کو چلی جاتی تھی ناری میں کچّا تھا، بہت نادان←  مزید پڑھیے

منظر نامہ: میری موت کے بعد کا۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

(ایک) صحن میں رینگتی، مسکین سی، مَیلی سی دھوپ اور منڈیر پر اِک کوّے کی کائیں کائیں عود، اگر بتّی جلاتا ہوا بوڑھا پنڈت زیرِ لب باتوں میں مصروف کچھ گاؤں کے لوگ سر کو نیوڑھائے ہوئی عورتیں دالان کے←  مزید پڑھیے

آخری چٹان تک۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ریت کے ٹیلے تھے، سوکھی کائی تھی پانی اُترتا جا رہا تھا ہر طرف اک مضمحل ، بیمار سی بوُ تھی ہوا میں آنے والی شام کی گہری اداسی اور گہری ہو رہی تھی برق پا ہِرنوں سے کالے، گیلے←  مزید پڑھیے

دیکھنا تقریر کی لذت۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مجھے وقت کی پابندی کرنے کے لیے نہ کہا جاتا تو میں توفی البدیہہ تقریر کرنے اور شعر گھڑنے کا ماہر ہوں، لیکن ڈاکٹر ظفر اقبال ایک کائیاں شخص ہیں۔ اس لیے انہوں نے کہا کہ آنند صاحب آپ سے ایک شکا یت ہے، آپ جب زبانی بولتے ہیں، تو اگر آپ کو کوئی نہ ٹوکے تو آپ مسلسل بولتے چلے جاتے ہیں۔←  مزید پڑھیے

اثر گرمیٔ رفتار۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

خارہااز اثر گرمی رفتار می سوخت منّتے ہرقدم راہ روانست مرا (غالب) شعر کا آزاد ترجمہ کچھ یوں ہے: میری تیز روی کی حدت نے راہ میں بکھرے ہوئے کانٹوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ اس لئے اب←  مزید پڑھیے

برص زدہ، بدصورت چہرہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ہم فاسق، فاجر ہیں، مولا ہم عاصی، بدکار ہیں، لیکن ہم تیرے بندے ہیں، مالک ناقص، اسفل، خطا کار ہیں نا بکار، آثم، بے تائب لیکن تیرے روپ کے داعی ہم تیرے ہی جنم جات ہیں ولی، سنت ، صوفی←  مزید پڑھیے

اومیکرون کی بیٹیاں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

پچھل پیریاں ہیں، چڑیلیں ہیں ، کیچڑ میں دھنستی ہوئی اپنی ماہواریوں تک ! انہیں کیمائی گِل و آب میں آج دھنسنے نہ دو ، اے عزیزو کہ یہ کِشت و خوں کی مشینیں ہیں قدرت کی بھیجی ہوئی اس←  مزید پڑھیے