ستیہ پال آنند کی تحاریر
ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

نظم کہانی/اسپین کی بارش میں ایک چینی حادثہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

جہاں تہاں قلعہ بند پھاٹک مجسّمے شیروں کے نگہباں رعونتوں سے اٹھے ہوئے بُرج، زنگ خوردہ پرانی توپیں ڈھکی ہوئی ، گل بدوش بیلوں کے چھپّروں سے (جو غار جیسے دکھائی دیتے تھے ہر طرف سے) یہ ایک قلعہ تھاجس←  مزید پڑھیے

علامہ ضیاء حسین ضیائی کا تحریر کردہ دیباچہ/عبقریت نژاد۔۔ ڈاکٹرستیہ پال آنند

علم وعرفان کے سیال لب ولہجوں نے فنونِ لطیفہ کی پیدائش میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ۔۔ فنون ِ لطیفہ کے ذیل میں جذبات ، تخیلات اور معقولات نے جب زبان و بیان کی پوشاک پہنی تو تسطیری کائنات←  مزید پڑھیے

روبرو مرزا غالب اور ستیہ پال آنند

نے گل ِ نغمہ ہوں نہ پردہ  ء ساز میں ہوں اپنی شکست کی آواز ستیہ پال آنند کیا عجب ہے یہ مصرعِ ثانی بے لچک، مستقیم، فیصلہ کن پہلے وارد ہوا تھا کیا یہ ، حضور؟ ِ مرزا غالب←  مزید پڑھیے

​وہ لائے میرے لیے اک لگام ہیروں جڑی۔۔ستیہ پال آنند

لگام کیا تھی، جھمکڑا تھا، جگمگاہٹ تھی کہ جیسے کوئی بھبھک، پھلجھڑی ہو، کوندا ہو مرا تو جی بہت للچایا دیکھ کر اس کو خیال آیا، اک مدّت سے میں مقید ہوں یہ اصطبل ہی مرا بندی گھر ہے، زنداں←  مزید پڑھیے

مداوا۔۔ستیہ پال آنند

لڑکی تھی چھ  سات برس کی دُبلی ، پتلی، اَدھ مریل سی پھٹا پرانا کُرتا پہنے اک میلی سی چادر اوڑھے سوکھے بالوں، پچکے گالوں بہتی ناک سے سوں سوں کرتی سڑک کے موڑ پہ دو کھمبوں کے بیچ میں←  مزید پڑھیے

انڈو انگلین ناولسٹ۔۔ چمن نہال/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

لندن میں یا اس کے قریب ہی اپنی یونیورسٹی (برٹش اوپن یونیورسٹی، ملٹن کینز) میں رہتے ہوئے تب تک ایک برس بیت چکا تھا۔ چچا ملک (ڈاکٹر ملک راج آنند) سے اس دوران میں دو بار ملاقات ہوئی۔چونکہ ان کے←  مزید پڑھیے

ڈاکٹر وزیر آغا (مرحوم)کے میرے نام منتخب خطوط(3)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اکادمی ادبیات کی چھپی ہوئی ضخیم کتاب ’’مزاحمتی ادب ۔اردو‘‘، شاید جناب ماجدؔ سرحدی کے توسط سے مجھ تک 1996 میں پہنچی تھی۔ اس کتاب کے مختصر پیش لفظ میں فخر زماں صاحب نے تحریر کیا تھا۔ ’’1977ء  کا مارشل←  مزید پڑھیے

ڈاکٹر وزیر آغا (مرحوم)کے میرے نام منتخب خطوط(2)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یعنی کہ وہی بات ہوئی جس کا مجھے خدشہ تھا۔ پہلے تو آپ اقبال کے اس مقولے پر مضبوطی سے قائم تھے کہ ’’دل‘‘ اور ’’دماغ‘‘ میں کدورت کے امکان کے بارے میں سوچنا ہی غلط ہے۔ دل تو ایک←  مزید پڑھیے

پھکّڑ تماشا(A Farce) ۔۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اردو شاعری کی مروجہ اصناف میں ، ڈرامہ کے تحت ، جہاں طربیہ تمثیل کا ذکر آتا ہے، وہاں”پھکڑ تماشا” کا ذکر مفتود ہے۔ یہاں تک کہ ’ریختی‘ کے دور ِ انحطاط میں، یا ’زٹلیؔکے تتبع میں تحریر کردہ شاعری←  مزید پڑھیے

ڈاکٹر وزیر آغا (مرحوم)کے میرے نام منتخب خطوط(1)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

​اپنے سینئر دوست مرحوم و مغفور وزیر آغا سے تیس برسوں میں موصول ہوئے ایک سو کے لگ بھگ ​خطوط کی لڑی۔ (ایک) آپ نے تحریر کیا ہے کہ آپ الفاظ کو’’ سوچتے‘‘ نہیں ، ’’دیکھتے‘‘ ہیں۔’’دیکھنا‘‘، شاعر کے لیے←  مزید پڑھیے

اعراف میں آوارہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

“In the Limbo”کے زیر عنوان یہ نظم پہلے انگریزی میں لکھی گئی کوئی دروازہ نہیں تھا قفل جس کا کھولتا سر نکالے کوئی سمت الراس بھی ایسی نہیں تھی جس سے رستہ پوچھتا ایک قوس ِآسماں حدِّنظر تک لا تعلق←  مزید پڑھیے

پارچہ۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

غالب کے پرستاروں سے (میں خود بھی جن میں شامل ہوں) معذرت کے ساتھ ۔ پارچہ ۔ رنگین، بو قلمون، روشن پارچہ الوان، ست رنگا، چمکتا بھیگتے رنگوں کی ململ دھوپ اور برسات کا جیسے ملن ہو کھٹا میٹھا، آسمانی،←  مزید پڑھیے

دو قطبی شخصیت۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ہمارا روز کا معمول تھا، سونے سے پہلے باتیں کرنے اور جھگڑنے کا گلے شکوے کہ جن میں اگلی پچھلی ساری باتیں یاد کر کے روتے دھوتے تھے کبھی ہنستے بھی تھے تو صرف کچھ لمحے ذرا سی دیر میں←  مزید پڑھیے

قصہ گو ستیہ پال آنند روبرو غالب

یہ شغل ِ انتظار ِ مہ وشاں در خلوت ِ شبہا سر ِ ِ تار ِ نظر شد رشتہ ٔ تسبیح کوکب ہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضروری نوٹ مرزا غالب کی شان میں ڈومنیـ کے حوالے سے گستاخی شعوری طور پر ممکن←  مزید پڑھیے

​تتھاگت نظمیں سیریز/یسوع۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

اپنی ایک انگریزی نظم کا آزاد ترجمہ جو   1995 میں لکھی گئی۔ یہ نظم شری لنکا کےبودھی شاعر شکرارتھؔ کی اس تھیوری پر مبنی تھی کہ گوتم بدھ کے تناسخ کی لڑی میں ایک اور جنم ابھی باقی تھا←  مزید پڑھیے

آلِ قابیل۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کوئی سبطِ آدم بھی ہے اور مجھ سے سوا اس جہاں میں کہ میں اک اکیلا ہی حقدار و مختار ہوں جدِ امجد کی اس حق رسی کا؟ جو اندر سے میرے یہ آواز ابھری تو میں نے یہ چلّا←  مزید پڑھیے

​جڑیں جب کٹ گئی ہوں۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

میں جنگل میں کبھی آباد تھا پیڑوں کی آبادی میں ان کے سنگ اگُتا تھا جڑیں میری سلامت تھیں مگر لاکھوں برس پہلے جڑیں ٹانگوں میں بدلیں، تو نباتاتی حکومت نے مجھے’ جنگل نکالا‘ دے کے یہ تلقین کی ۔۔۔۔جاؤ←  مزید پڑھیے

مہا ماری ” دیوی کی بھینٹ”۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

بحر خفیف میں رن۔آن۔ لائنز کے التزام سے تحریر کردہ ایک نظم ——————– میں تو لمبے سفر پہ نکلا ہوا اک مسافر تھا، ایک شب کا مکیں سوچتا تھا کہ رات بھر کے لیے اب جو ٹھہرا ہوں، کیوں نہ←  مزید پڑھیے

​دریا در کوزہ سیر یز(1)۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

مر زا غالب کے مصارع پر مبنی مختصر نظمیں جو تفسیر و تاویل عقدہ کشائی اور معنی و مفتاح کی کلیدہیں۔ پردہ ء ساز لے، سُر ، الاپ تھے، مگر “منہ بند” ہم بھی تھے اخفا میں تھا سکوت بباطن←  مزید پڑھیے

اپنی موت کی پیش گوئی۔۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کل نَفسِ ذَائَقہ اُلمَوت (سورۃ ، ال عمران آ ئۃ 581، حصہ اولیٰ) —————— میں چلا جاؤں گا ، میں جانتا ہوں میں چلا جاؤں گا، اس سے بہت پہلے کہ ہوا برف کی الکحل جلباب ا تارے سر سے←  مزید پڑھیے