“شاید کہیں کوئی جنگ چل رہی ہے “۔۔ ایسے میں ترقیاتی کام کیسے ہوں؟ مہنگائی کی وجہ سے گندے نالے کا پل ٹوٹ کر نالے میں ہی گرگیا ۔ہم زیریں علاقے کے رہنے والے اس پل سے بالائی شہر جاکر← مزید پڑھیے
جب سامنے رکھی چیزیں نظر آنا بند ہوجائیں تو قصور دل کا نہیں ہوتا ۔چیزوں کا ہوتا ہے ، میری تو ویسے بھی نزدیک کی نظر کمزور ہے، قریب کی چیزیں بھی چھوئے بنا سمجھ نہیں آتیں ۔گندے برتنوں کے← مزید پڑھیے
ویسے تو شوق کی کوئی قیمت نہیں مگر آٹھویں جماعت کے بچے کیلئے پینٹنگ بہت مہنگا شوق تھا ۔ جیب خرچ کے نام پہ صرف چونی ملتی تھی۔ ابا جی زیادہ مذہبی تو نہیں تھے مگر تصویریں بنانے کو سراسر← مزید پڑھیے
جن دنوں کا یہ قصہ ہے ان دنوں محبت واقعی اندھی اور اندھا دھند ہوتی تھی ۔آج کل تو سترہ افئیرز اور اٹھرہ جگہ سے خوار ہوکے لڑکوں کو پتہ چلتا ہے کہ “اوہو، نو نمبر کے منہ والی عندلیب← مزید پڑھیے
رات کے آٹھ بجے شاہدرہ چوک سے میں رکشے میں سوار ہوا ، درمیان والی نشست پہ ایک خاتون پہلے سے موجود تھی ۔تین والی سیٹ پہ مجھے بیٹھتے دیکھ کر وہ سمٹی نہیں ۔میں ہی نکرے ہوکر بیٹھ گیا۔← مزید پڑھیے
وہ نورانی چہرے والا دکاندار ہم دونوں کا واقف نہیں تھا ۔اسی لئے سیدھے سبھاؤ ہی مُکر گیا۔گوجرانوالہ کی سٹیل مارکیٹ میں اچھے بھلے گودام کا مالک اپنا گودام چھوڑ کر کھوتی ریڑھی پہ رکھے آموں کے کریٹ میں سے← مزید پڑھیے
میری یاداشت اتنی شاندار ہے کہ میں نہ صرف لوگوں کے نام ہی بھول جاتا ہوں بلکہ،چہرے بھی یاد نہیں رہتے ۔جس مفکر نے کہا تھا کہ ” انسان ہونے کیلئے نسیان کا ہونا اشد ضروری ہے “میں اس کانام← مزید پڑھیے
1964میں بننے والی انڈین فلم “دوستی “ایک اندھے اور لنگڑے کی کہانی تھی ۔ عوام کی بدقسمتی سے دونوں ملتے ہیں اور پھر بہترین المیہ ڈرامہ تخلیق ہوتا ہے ۔شاندار گانے ،جو آج بھی ایسے ہیں کہ نئے لگتے ہیں← مزید پڑھیے
اس پہ رولا ڈالنے کی کیا تک ہے ؟ سیدھی سادی بات ہے ۔ پاکستان میں کام کرنے کیلئے لائسنس کے حصول کیلئے ہر کمپنی کے پاس اکیس دن کے سٹوریج کی صلاحیت ہونا ضروری ہے ۔ فرض کرتے ہیں← مزید پڑھیے
کسی تاریخی کتاب میں پڑھا تھا کہ گھوڑوں اور جوانوں کا کوئی وطن نہیں ہوتا ۔ ہم بھی خود کو دو گھوڑا مارکہ جوان سمجھتے تھے ۔چار ملک خجل ہونے کے بعد پتہ چلا کہ لوگ پاکستابیوں کو گدھے سے← مزید پڑھیے
جسے کچھ اور نہیں سوجھتا سیدھاحکومت پہ تنقید کرنے لگتا ہے ۔غریب کی جورو جیسی حکومت کو سبھی “ٹچکریں” کرتے ہیں ۔ اب ضروری تو نہیں کہ سارے کام آپ ہی کی مرضی کے ہوں ۔ٹھیک ہے مہنگائی ہوگئی ۔اب← مزید پڑھیے
مجھے مسجد بمعہ مولوی اٹھوا لیں۔ میں فیس بک پہ رائٹر بننے نہیں آیا تھا، مجھےتو ثاقب حسین عرف ساقی پہاڑئیے نے بتایا تھا کہ ایک نئی اپلیکیشن آئی ہے۔ جس پہ جیوندی جاگدی خواتین کوئی ٹرالیاں بھر بھر پھینک← مزید پڑھیے
فاخرہ نورین کی وہ کتاب ہے جو سلیم غزنوی کو سترہ بار مانگنے کے بعد ملی ۔دودن تو ٹی سی ایس والے کتاب لے کر مجھے ڈھونڈتے رہے اور میں ان کے ڈیلیوری بوائے کو ۔ آپ کو تو پتہ← مزید پڑھیے
جدہ شہر , اور میں تھا۔۔ سائن بورڈ کا کام کرنے کیلئے ایک دکان کرایہ پر لے لی۔ایگریمنٹ کے حساب سے دکان میں ٹیلی فون تھا ۔قبضہ لیا تو ٹیلی فون غائب ۔ مالک دکان دو بہنیں ،ایک بھائی ،بندر← مزید پڑھیے
سنتھیا رچی اور زرداری کے گارڈز والے معاملے پہ مجھے بھی ایک واقعہ یاد آگیا،یہ ان دنوں کی بات ہے جب ضیاءالحق کو امریکہ کی “چارلی ولسن سٹوری “کی تکمیل کے بعد محض تین چار مزائلوں کا حساب نہ دینے← مزید پڑھیے
خطرہ کس کام میں نہیں ہوتا ؟ دوسال پہلے اچھا بھلا کام پہ جارہا تھا۔ ۔حادثہ ہوا ، بازو ٹوٹ گیا ۔ ڈاکٹر نے ایسا واہیات جوڑا ہے کہ میرے دل جیسا ہوگیا ہے۔ جو کام کہتا ہوں وہ کرتا← مزید پڑھیے
اب گھر میں مشکل یہ ھے کہ جب سے خاتون خانہ نے لکھنا شروع کیا ھے،
وہ سمجھنے لگی ہے کہ مجھے لکھنا نہیں آتا اور یار لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بیگم کی تحریریں میں لکھتاہوں ۔بیگم کا خیال ہے کہ چند شہر گھوم گھام کر کچھ شرپسند اکٹھے کئے ہیں ۔جو میری ھر پوسٹ پہ واہ واہ کرتے ہیں اور میں ان کی ۔ویسے بھی سچی بات تو یہ ھے کہ میں بھی کمنٹس اور لائکس کیلئے ہی تو لکھتا ہوں ۔فیس بک کے اسٹیج پہ پرفارم کرنے پہ صرف داد ہی تو ملتی ھے۔← مزید پڑھیے
اسٹیبلشمنٹ کی طرح بیویاں خود کو بڑی توپ شے سمجھتی ہیں ،حالانکہ جثے کے حساب سے وہ ٹینک جیسی ہوتی ہیں ،کچھ گنجے شریف آدمی سچ مچ توپ کو بیوی سمجھ لیتے ہیں ۔نتیجہ دونوں صورتوں میں موجودہ حکومت سا نکلتا ہے ۔سمجھ نہیں آتی کون کس طرف جا رہا ھے ۔اور بچے کس پہ گئے ہیں ۔← مزید پڑھیے
چھوٹے شہروں میں اگر کسی دکان کی برفی مشہور ہے تو کوئی موچی جوتے کو نئے جیسا بنانے میں شہرت رکھتا ہے ۔کسی قصائی کی گوشت کی دکان بہت چلتی ہے تو کہیں نان چنوں کیلئے لوگ لائنوں میں لگے← مزید پڑھیے