گھوڑے اور احمق والے کھیل میں جب بھی پھونک مارنے کا وقت آیا میں نے گھوڑا بننے کو ترجیح دی ۔پہلی پھونک ہمیشہ میری ہی ہوتی تھی ۔۔ بس ایک بار ہار گیا، کیونکہ اس بار پائپ کے دوسری طرف← مزید پڑھیے
آپ پوچھیں گے کہ میری عینک کہاں گئی ؟ اور فرض کرتے ہیں کہ آپ نہیں بھی پوچھتے۔۔ تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں آپ کو نہیں بتاؤں گا ۔ اس عینک کی کہانی بہت غریب← مزید پڑھیے
وہ میرے نزدیک بہترین شرابی ہے ،لیکن اس کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ جب وہ پی لیتا تو سارا ماحول اس کے خلاف ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اس دن موسم صاف تھا مگر جیسے ہی وہ پی کے نکلا تو← مزید پڑھیے
“ڈاکٹر وحید سے ملاقات ہوسکتی ہے “؟ مومنہ کہنے لگی “انہی سے پوچھیں ” کیسے بتاتا ،ان سے پوچھنے کی جرأت ہوتی تو آپ کو فون کرتا ۔؟ میں نے نہیں پوچھا، مجھے پتہ تھا کہ ملک میں حکومت کس← مزید پڑھیے
جب آنکھیں جلنے لگیں تب ڈھونڈنا شروع کیا ۔آخر وہ پٹھان نظر آ ہی گیا جو لکڑی کے فریم پہ دھوپ کے چشمے سکھا رہا تھا ۔ ایک شیشے جیسی چمکتی عینک کا پوچھا “کتنے کی ہے “؟ “دوسو کی← مزید پڑھیے
صبح میں وہاڑی کیلئے تیار ہورہا تھا تو بیگم کہنے لگی ۔ “آپ تو شاعر نہیں ،آپ کا مشاعرے میں کیا کام “؟ کیا بتاتا کہ ،میں وہ غبارہ ہوں جو محبوبہ کی سالگرہ پہ اس کے گھر جاتے ہوئے← مزید پڑھیے
“انھے ہی ہوگئے ہیں ” ایک شریف آدمی نے فادرزڈے کے حوالے سے اپنے باریش سفید بالوں والے والد بزرگوار کی تصویر لگائی ۔ادھر حالت یہ ہے، کہ ہر بندے کو جلدی سکرول کرنے کی عادت ہے ۔کسی جلدباز نے← مزید پڑھیے
وڈے چوہدری صاحب کی طبیعت رات بھر خراب رہی،تو نیند کیسے آتی ۔ منہ اندھیرے اٹھے اور اپنے ملازم لمبڑ کو آواز دی ۔ لمبڑ تو نہیں آیا اس کا پندرہ سالہ بیٹا مجید آگیا ۔ “ابا، راتیں ڈیرے پہ← مزید پڑھیے
پیمپرز نئے نئے شروع ہوئے تھے۔بابر سپاری بیٹے کو بال کٹوانے نائی کی دکان پہ لے گیا ۔ بچے کا رات بھر کا پیمپر اتنا ہی بھرا ہوا تھا جتنا اس وقت ملک مہنگائی سے نکو نک ہے ۔۔۔ بچے← مزید پڑھیے
منصور کہنے لگا۔۔ “کزن میرج لاہور کی مقامی صنعت ہے ۔چاچے ،مامے،خالہ پھپھی کے ہاں رشتے اتنی تیزی سے بنتے ہیں جتنی تیزی سے قاضی فائز عیسی پہ کیس بنتے ہیں ۔” “لڑکے ایسے رشتوں پہ مزاحمت نہیں کرتے “؟← مزید پڑھیے
عمر اتنی تیز رفتار تھی کہ بچپن اور گنج پن کے بیچ لڑکپن کب آیا پتہ ہی نہیں چلا ۔ لڑکے کو زمانے کی ہوا نہ لگ جائے اس لئے ہمارےخاندانی نائی نے ہمارے سر کے ساتھ ہر وہ کام← مزید پڑھیے
“تاریک سڑک بیحد سنسان تھی ” آغاصاحب نے کہانی شروع کی تو مجھے کہانی سننے کے بعد یاد آیا کہ رات کے کسی پہر بھی ملتان روڈ نہ تو سنسان ہوتا ہے نہ ہی تاریک، جتنا آغاصاحب نے اپنی اس← مزید پڑھیے
بڑا خاندان تھا ۔میرے حصّے جو کمرہ آیا اس نے تنہائی کے پندرہ سال بھگتے ۔ جوانی زیادہ تر ملک سے باہر اور اگر شہر میں تھا تو گھر سے باہر گزری ۔ اس کمرے میں سب سے طویل عرصہ← مزید پڑھیے
گاڑی رکتے ہی تیزی سے اُتری اور فٹ پاتھ پہ چلنے لگی ۔اس سے پہلے کہ میں کچھ سمجھ پاتا وہ آدھ فرلانگ آگے جاچکی تھی ۔ اس کی ٹھہری کمر اور کولہے کی لچک کو دل نے آنکھوں تک← مزید پڑھیے
اپنی تحریروں سے لگتا ہے کہ میں ہی وہ طالب علم ہوں جسے صرف مائی بیسٹ فرینڈ والا مضمون یاد ہے ۔کچھ بھی لکھنے بیٹھوں میری تحریر میں کسی نہ کسی دوست کا ذکر ضرور آجا تا ہے ۔ابھی کل← مزید پڑھیے
جانے کیا بات تھی ۔جو پیٹ میں نہیں پچ رہی تھی ۔ ہلکا پھلکا درد شروع ہوا تو لگتا تھا جیسے تنی شارٹ ہوگٰئی ہو ۔ ناشتے میں تیز مرچ مصالحوں سے مزین مولیوں والا پراٹھا کھایا تھا ۔ پیٹ← مزید پڑھیے
لگ بھگ دوسو دن پرانے زمانے کی بات ہے۔ایک مزاح نگار کے ساتھ سفر کرنے کا اتفاق ہوا ۔وہ مجھے لفٹ دینے پہ مجبور تھے اور میں لفٹ لینے پہ مسرور، مجبور نے مسرور سے تعلیمی قابلیت کا پوچھا تو← مزید پڑھیے
پیٹ پہ تنقید کرنے والے موٹے پیٹ کی خصوصیات پہ یقین نہ کریں تو پیٹ کو کیا فرق پڑے گا ۔؟ محبت اور پیٹ کو زمانے کی پرواہ کب ہے ۔؟ اور ویسے بھی فن اور پیٹ کا رشتہ صدیوں← مزید پڑھیے
ویگن پنڈی سے نکلتے ہی لہرانے لگی تو فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے حاجی ثنا ءاللہ نے شور مچانا، شروع کر دیا کہ ڈرائیور نشے میں ہے۔ گاڑی رکوا کر جائزہ لیا تو ڈرائیور نے گریس میں چرس اور ڈیزل میں← مزید پڑھیے
واپڈا والوں نے بل دروازے کے نیچے سے پھینکا ، اور گھنٹی بجا کر بھاگ گئے ۔ باہر نکل کر دیکھا تو کوئی نہ تھا ۔پھر میری بل پہ نظر پڑی، میرے تو رونگھٹے ہی بیٹھ گئے ۔ دھیرے دھیرے← مزید پڑھیے