دیہاتی ماحول سے جُڑی ماضی کی ایک کہانی۔ شیر دل ہمسایہ، ہم جماعت اور دوست تھا۔اس کی پیدائش کے دوران اسکی ماں فوت ہو گئ تھی۔میٹرک تک اسے پھوپھی نے پالا جو ہمارے محلے میں ہی رہتی تھیں۔اُس کے دادا← مزید پڑھیے
اس کہانی کا لاہور کے موجودہ سیاسی خانوادوں سے تعلق نہیں، مماثلت اتفاقیہ ہو گی! جنرل ایوب خان کے دور میں ہیرا منڈی میں جسم فروشی پر پابندی لگی تھی،اور ناچ گانے کے اوقات بھی نصف شب تک محدود ہو← مزید پڑھیے
غربت ایک ایسا ناسور ہے کہ بندہ ایک دفعہ غریب ہو جائے پھر غریبی سے جان چھڑا بھی لے، تو بھی غربت کا ٹیکا اس کے ماتھے سے چمٹا رہتا ہے، تقسیم سے پہلے خلیل خان جالندھر اور امرتسر کے← مزید پڑھیے
اس سے پہلے کہ ہم یہ مقالہ شروع کریں ایک ذاتی وضاحت ضروری ہے کہ ہم خود ان بڈھوں میں شامل ہو سکتے ہیں جو زمام اقتدار چھوڑنے پہ تیار نہیں ! سن 2010 ، جب ہم ساٹھ سال کی← مزید پڑھیے
فارم ایریا میں دن طلوع آفتاب سے بھی پہلے شروع ہو جاتا ہے،شہر میں جب لوگ ناشتہ کرتے ہیں تو یہاں دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا ہے،گرمیوں میں تو دس گیارہ بجے تک لوگ اور مویشی کسی درخت کے← مزید پڑھیے
مغرب کے بعد اگر آپ ان کی گلی سے گزرتے اور آپ کو جھاڑُو دینے کی آواز سنائی دیتی تو یقیناً یہ اس کے گھر سے ہی آتی، وہ عجیب مزاج کی لڑکی تھی۔۔۔میٹرک کے امتحان آئے تو سکول چھوڑ← مزید پڑھیے
سماج میں ازدواجی مسائل پہ لکھی ہماری تمثیل،اسے غور سےسمجھنے کی کوشش کیجیئے،آج کل تو کوئی ساس بہو کو یہ بنیادی مشورہ دے ہی نہیں سکتی کہ بہو سننے کو بھی راضی نہیں ہوتی۔ ۔۔۔۔۔ “ثریا تم جتنی خوبصورت ہو← مزید پڑھیے
اگر آج زندہ ہوتی تو سُپر ماڈل ہوتی، اسکا اصل نام ،مُلک بانو تھا جو اسم صغیر کی تصغیر سے مُکھاں رہ گیا، رشتہ دار اور پڑوسن تھی، طویل قد، اور بہت ہی دبلا بدن، کھلتا گندمی رنگ، متوازن زنانہ← مزید پڑھیے
چکوال میں چھپڑ بازار کی صفائی ستھرائی ،سجاوٹ کی ویڈیوز دیکھتے ماضی کا ایک ورق ۔۔۔یاداشت سے سامنے آ گیا، شہر کے شمالی محلہ میں درجنوں کھُوہ ۔ رہٹ سے پانی نکالنے کے کنوئیں تھے۔جن پر سبزیاں کاشت کی جاتی← مزید پڑھیے
اس کی شہرت اس قدر تھی کہ محلے میں جب بھی کوئی نوخیز لڑکی اپنے بال بناتی، بنتی سنورتی تو کوئی خالہ یا پھُوپھی اس سے کہہ اٹھتی، ” بس کر نی، زیادہ اللہ رکھی بننے کی کو شش نہ← مزید پڑھیے
تم ایک کال گرل کے لئے مجھے اس طرح ذلیل نہیں کر سکتے” زینی کے یہ الفاظ اس وادی نما مقام پر واقع ریسٹ ہاؤس کے لان میں گونج کی وجہ سے دہرائے جا رہے تھے۔۔۔ اور سر وقار آرام← مزید پڑھیے
آج کل اس مہم کا تصور بھی محال ہے جو کچھ عشرے قبل،ربط باہم کے لئے اسیران محبت اٹھاتے تھے۔۔۔ایسی ہی ایک روداد پیش ہے۔پچاس سال قبل ، محبت کے اسلوب کی جھلک ،تقریباً سچی کہانی۔۔۔ مین بازار تو مغرب← مزید پڑھیے
یہ واقعہ 1960 میں اسلامیہ پرائمری سکول چکوال ، محلہ غربی، نزد بھون روڈ کا ہے، ” معلم پدر بُود” خادم حسین ہونہار بچہ تھا، سیدھا دوسری جماعت میں داخل ہوا، چوتھی جماعت پاس کی تو پانچویں میں اسے وظیفہ← مزید پڑھیے
گُزرے ہیں عشق میں،ایسے بھی امتحاں ہار کے تو ہارے، جیت کر بھی ہارے یہ تقریباً حقیقت میں ہوا واقعہ لگتا ہے ! ناگفتنی۔۔۔ صوبیدار انکل نے اپنی بیٹھک میں میرے سامنے والے صوفے پے بیٹھتے ہوۓ کہا، بیٹا آپ← مزید پڑھیے
نوٹ ۔ یہ تحریر مزاح اور تفنن کے مزاج میں لکھی جا رہی ہے عزیزان ، ہمیں آپ سے محبت ہے، آپ کے ہر دُکھ میں چونی اٹھنی کے شریک ہیں،پنامہ نامی کیس کا کھوتا کھُوہ میں گر گیا ہے← مزید پڑھیے
بچے ، خواتین اور کمزور دل احباب اسے مت پڑھیں! ابا میں ہوں تیری بیٹی مقدس، دیکھ گور کن چاچا تیری قبر بھول گیا پر میں نہیں ، کوئی بات نہیں رات ہے اندھیرا ہے، اچھا ابا میں جا رہی← مزید پڑھیے
یہ کہانی، لفظ بہ لفظ دھیرے دھیرے پڑھنے سے سمجھ آئے گی! “پھُلاں بی بی” عجیب زمانہ تھا، نر پسندی، کا یہ حال کہ کسی کے بیٹی پیدا ہونے پر باقاعدہ تعزیت کی جاتی،اور کسی کی گاۓ وچھی دے،گھوڑی وچھیری← مزید پڑھیے
فضل کریم جسے چاچا پھجا کہتے تھے اور اس کی بیوی چاچی صفتاں، خاندانی نائی ہونے کے ناطے گاؤں کے جزو لا ینفک تھے، بچوں کی پیدائش، لڑکوں کے ختنے اور شادی بیاہ، موت وفات تک کوئی تقریب ان دونوں← مزید پڑھیے
نمبردار قادر بخش کا دادا خدا بخش گاؤں کا بڑا زمیندار تھا، سو بیگھے مزروعہ ملکیت کے علاوہ شاملات ملا کے وہ تین سو بیگھے زمین کا مالک تھا۔انگریزوں کے وقت فوج میں بھرتی ہوا، اور پاکستان بننے کے ایک← مزید پڑھیے
یہ رپورتاژ ہم نے چکوال کے پچاس سال پرانے ماحول اور سماجی روایات کو نئی نسل تک پہچانے اور محفوظ رکھنے کے لئے تحریر کی تھی،جس کو سمجھ آئے اور پسند ہو وہ اسے کاپی کر کے سنبھال لے، کل← مزید پڑھیے