ملک صاحب نے بڑے پیٹ والا لفافہ فائل پر رکھا ۔ چند گرام کے نوٹوں سے فائل کا وزن منوں ٹنوں میں کر دیا ۔ کلرک نے احتیاط سے لفافہ جیب میں رکھا ۔ ملک صاحب بولے ۔ قبلہ گن← مزید پڑھیے
اپنے کام میں اس قدر مگن تھا کہ مجھے پتہ نہیں چلا کب وہ میرے قریب آ کرکھڑی ہو گئی ۔ اچانک نظری پڑی تو میں چونک گیا ۔ ارے تم کب آئیں ۔ ؟ میں نے حیرت سے پوچھا← مزید پڑھیے
شادی کو بارہ سال ہو گئے ۔ لیکن اولاد نہیں ہوئی ۔ میری خواہش ہے خدا اولاد دے تو بیٹی ہو ۔ بیٹاں رحمت ہوتی ہیں ۔ سنا ہے سب کی سانجھی ہوتی ہیں ۔ میں تصور میں اسے دیکھتا← مزید پڑھیے
بہت بے چینی ہے ملک میں جناب ۔ دیکھ لیں آج کا اخبار بھرا پڑا ہے ۔ کوئی سیاست دان ایسا نہیں جس پر دوسرا سیاست دان غبن کا الزام نہیں لگاتا ۔ کوئی منصوبہ ایسا نہیں جو صاف شفاف← مزید پڑھیے
میرا دوست “جوجو” ، حلوائی ہے۔ پچھلے دنوں کاروبار مندا تھا۔ جگہ بدل کر دیکھا لیکن سب بے سود۔ کبھی ریلوے اسٹیشن پر, کبھی بس اسٹاپ پر، کبھی مین بازار میں، لیکن مٹھائی خریدنے والے دن بہ دن کم ہوتے← مزید پڑھیے
پوری رات بجلی نہیں گئی۔ یخ بستہ سردی میں گیس بھی فل پریشر کے ساتھ آ رہی تھی۔ ناشتہ بنانے میں دیر نہیں لگی۔ ناشتہ کرتے ٹی وی لگایا۔ خبروں میں چہار سو خوشحالی کے چرچے تھے۔ حکومتی اور اپوزیشن← مزید پڑھیے
میرے پاس ہر طرح کا ملازم تھا ، لیکن ملازم مہنگے پڑتے تھے ۔ پھر میں نے کھانا پکانے کے لیے روبوٹ رکھ لیا ۔ پھر کپڑے دھونے اور استری کرنے والے ملازم کو بھی فارغ کیا اور روبوٹ رکھ← مزید پڑھیے
میں ڈاکٹر ہوں میری ڈیوٹی ایمرجنسی میں ہے ۔ مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ لیٹ ہاسپٹل پہنچا ۔ جیب میں ہاتھ ڈالا خیال آیا بجلی کا بل جمع کروانا ہے ۔ بینک پہنچا لیکن متعلقہ افسر سیٹ پر نہیں تھا← مزید پڑھیے
میں بچپن میں ہر موسم انجوائے کرتا تھا ، بچے ایسا ہی کرتے ہیں۔۔ فکر معاش سے بیگانہ ، آزد منش ، ہر حال میں تفریح طبع کر لیتے ہیں۔ میں نے لاہوری بچے سے پوچھا ، تمھیں کون سا← مزید پڑھیے
Overtoun Bridge Scotchland اس پل کو Dog Suicide Bridge بھی کہا جاتاہے ۔ یہ ایک عام سا پل ہے جو 1895ء میں تعمیر ہو ا ۔ پچاس فٹ اونچے اس پل کو آج سے پچاس سال پہلے تک کوئی خصوصیت← مزید پڑھیے
تمھارے پاس دس روپے ہوں تو تم ایک درجن کیلے خرید سکتے ہو ، اگر پندرہ روپے ہوں تو کتنے کیلے آئیں گے ؟ لیکن سر میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں ۔ اس کے جواب سے مایوسی جھلک رہی← مزید پڑھیے
وہ ایک خوبصورت طوطاتھا جس کےسامنے والے پیڑ پر مینا کا بسیرا تھا ۔ کرنا خدا کا ،طوطا جنگل میں شکاریوں کےجال میں پھنس گیا،جنہوں نے اسے شہر لےجاکر بیچ دیا۔ شومئی قسمت ایک دن موقع پاکر فرارہوا ۔جنگل کی← مزید پڑھیے
گرد سےاٹاچہرہ ۔ تیکھے دلکش نقوش۔ بڑی بڑی ویران آنکھیں، پتلے ہونٹ۔ ستواں ناک دھنسے ہوئے عارض ۔اس کے وجود پر فاقوں نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔۔ سگنل پر رک کر میں نے مختلف زاویوں سے اس کی کئی تصاویر← مزید پڑھیے
وہ گھر میں اپنے مخصوص کمرےمیں آئی۔ ہرچیز جوں کی توں تھی جیسے ابھی بھی یہیں رہ رہی ہو۔ اس نے اپنی الماری کامقفل دراز کھولا۔وہ محبت نامے جن میں آج بھی خوشبو رچی ہوئی تھی،یونہی پڑے تھے۔ رومانوی← مزید پڑھیے
ایک کبوتر دیکھا جو اسٹیج پر کھڑا کائیں کائیں کر رہا تھا ۔۔۔میں حیران ہوا۔ پھر ایک گائے دیکھی جو بھونک رہی تھی۔۔ ایک شیر دیکھا جو بکریوں کے مجمع سے حقوق نسواں کے موضوع پر خطاب کر رہا تھا۔← مزید پڑھیے
بھائی کریلے کیسے دیئے۔؟ اسی روپے کلو۔۔۔ سبزی والے نے جواب دیا۔۔۔ افف سبزی کو تو پر لگے ہوئے ہیں۔۔۔ میرےمنہ سے نکلا۔۔۔ بھیا دودھ کیسے دیا۔۔؟ میں نے پوچھا۔۔۔ نوے روپے کلو۔۔۔ گوالے نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے← مزید پڑھیے
یہ کون سی کتاب ہے ؟ جوجو نے میرے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔ اوپر لکھا ہوا ہے۔ میں نے بے اعتنائی سے جواب دیا۔ تمھیں کیسی کتابیں پسند ہیں۔؟ جوجو نے ایک اور سوال داغا۔۔۔ مجھے ہر قسم← مزید پڑھیے
پھل خریدتے ہوئے سوچنے لگا آج خلاف معمول قصہ خوانی بازار میں چہل پہل ہے۔ وہ بہت زیادہ خوش تھا اور چہک رہاتھا۔ آج گیارہ سال بعد اس کے آنگن میں پھول کھلا تھا۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ اچانک← مزید پڑھیے
کیا بات ہے تم آجکل مرجھائے ہوئے نظر آتے ہو ؟ میں نے راشد کا لٹکا ہو امنہ دیکھ کر پوچھا ۔۔۔ کچھ نہیں یا ر،وہ اپنے شیخ صاحب ہیں ناں پہلے پہل انہیں معلوم ہوا کہ میں ایم اے← مزید پڑھیے
یہ پاک ٹی ہاؤس ہے ۔میں نے اسے بتایا ۔ یہاں بڑے بڑے ادیبوں کی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ جن میں فیض احمد فیض ، سعادت حسن منٹو ، میرا جی ، منیر نیازی ، کمال رضوی ، ناصر کاظمی← مزید پڑھیے