ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں
جب فیری یعنی پری اڑ جاتی تھی تو میں اور ندیم جنوں کی طرح شہر میں پیدل گھوما کرتے تھے اور دنیا جہان کی باتیں کیا کرتے تھے۔ ندیم میری ذہانت سے متاثر تھا، اور میں اس کی فطانت کو← مزید پڑھیے
کل جمعہ کی نماز پڑھ کر مسجد کے فرسٹ فلور سے جسے روس میں دوسری منزل کہا جاتا ہے، سیڑھیاں اتر رہا تھا جہاں ایک پاکستانی صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ باقاعدہ نمازی ہیں اور ریڈی میڈ کپڑوں کے تاجر بھی،← مزید پڑھیے
معلوم ہوا کہ لبرل افراد کو “دیسی لبرل ” یا ” لنڈے کے لبرل ” صرف رجعت پسند ہی نہیں بلکہ وہ جنہیں پروگریسیو ہونے کا زعم ہے وہ بھی کہتے ہونگے یا شاید کہتے ہی ہوں۔ بتایا گیا کہ← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے سالہا سال بیت جانے کے بعد ایک رات مجھے مایا بہت یاد آئی تھی۔ اس کا حال جاننے کی شدید خواہش نے مجھے بے چین کر دیا تھا۔ میں نے مختلف ٹیلیفون نمبر دھونڈنے کی خاطر پرانی← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے ان ہی دنوں ایک نیوز چینل پر خبریں سنتے ہوئے میری آنکھیں، حیرت اور ایک انجان قسم کی خوشی کے احساس کے ساتھ پھیل گئی تھیں۔ یمن کی بندرگاہ میں لنگر انداز امریکی بحریہ کے ایک جنگی← مزید پڑھیے
ادھیڑ عمر کا ایک مرد اپنی ہمکار جوان لڑکی سے بلاوجہ اظہار محبت کرتا ہے۔ لڑکی کے چہرے پر بل پڑتا ہے، وہ کہتی ہے کہ بکواس بات ہے۔ مرد پوچھتا ہے کونسی بات بکواس ہے؟ لڑکی کہتی یہی محبت← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’ سے ریاستہائے متحدہ امریکہ جو میرے لیے نیویارک شہر اور اس کے مضافات، ملحقہ ریاستوں نیو جرسی اور میساچیوسٹس کے قرب و جوار تک محدود تھی، نہ تو دلفریب تھی نہ ہی دلکش۔ البتہ یہ ضرور تھا← مزید پڑھیے
دنیا کبھی جوہری جنگ کے اس قدر قریب نہیں ہوئی تھی جتنی کہ 1962 کے موسم ِخزاں میں۔ امریکہ کے ساحل سے کلومیٹروں کی دوری پر واقع کیوبا میں غیر متوقع طور پرسوویت میزائل اور ایٹم بم گرانے والے جنگی← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’ میں گھر میں بند نہیں رہ سکتا تھا مگر مجبوری تھی کیونکہ امریکہ کی زندگی ” آدھی کار میں آدھی ادھار میں ” کے مصداق ہوتی ہے۔ میرے پاس نہ کار تھی اور نہ میں ادھار لینے← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے نذہت کی سہیل کے ساتھ اور سہیل کی نذہت کے ساتھ بالکل نہیں بنتی تھی۔ نذہت دیور کو بدتمیز خیال کرتی اور دیور بھابی کو عقل باختہ۔ ممکن ہے ایک وجہ یہ رہی ہو کہ سہیل جب← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے ایک روز سعد کام سے واپس آتے ہوئے کہیں سے نیویارک شہر میں شائع ہونے والا کوئی اردو اخبار اٹھا لایا تھا جس میں میں نے پڑھا تھا کہ معروف پاکستانی سیاسی کارکن اور دانشور شخصیت جوہر← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے مہمان نوازی کی اس نوع کی روش سے میرا چھوٹا بھانجا سہیل تو خجل تھا ہی ،میں بذات خود زیادہ مضطرب ہوا تھا۔ چھوٹے بھانجے کی جانب سے اس نوع کی مہمان نوازی کی سعی سے نہیں← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے کئی ماہ بیت گئے تھے، میں نے بس سیاہ فام نٹیشا کے گال پر اچٹتا ہوا بوسہ ہی لیا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے امریکہ میں دوسری جنس عنقا ہو۔ امریکہ کے ہالی ووڈ میں بنی← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے میں نے سعید کو آتے ہی بتا دیا تھا کہ میں اگلے روز نکل جاوں گا، اسی لیے میں نے سعید کے ہمراہ پورچ کی جانب بڑھتے ہوئے مسز سعید کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ باتیں← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے دھندلکا پھیلنے لگا تھا۔ ڈاکٹر سعید باجوہ کا “آفس ٹائم” بھی تمام ہو چکا تھا۔ جب گھر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھے تو میں نے ہٹ دھرمی کے ساتھ کہا کہ مجھے تو بس بیئر پینی← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے امریکہ کے ہر شہر میں ایک سے زیادہ اخبار چھپتے ہیں، ان میں سے ایک مقامی اخبار ڈاکٹر منیر سلیمی کے ہاں بھی آتا تھا۔ میں صبح کی چائے کے بعد اس کی سرخیوں پر نظر دوڑا← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے ڈاکٹر منیر سلیمہ ایک اچھے مسلمان تھے۔ ان میں عادات قبیہہ تھیں ہی نہیں جبکہ میں تھا زندیق۔ منیر جانتے تھے کہ میں پینے سے شغف رکھتا تھا۔ وہ مجھ سے کہنے لگے “یار میں تیرے شغل← مزید پڑھیے
منیر سلیمی کے گھر کے وسیع صحن کی گھاس میں، جس کی تراش خراش نہیں کی گئی تھی کبھی ہرن چرنے پہنچ جاتے تھے تو کبھی مرغابیاں اور قاز اتر کر اپنی ہنسا دینے والی چال چلتے دکھائی دیتے تھے۔← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے سب راستے نیویارک سے نکلتے تھے۔ برکت عباس جعفری نے فون پر مجھے اس ٹاؤن کا نام بتا دیا تھا جہاں وہ مقیم تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہاں پہنچنے کے لیے مرکزی سٹیشن← مزید پڑھیے
مثل برگ آوارہ’سے نذیر چوہدری نے مجھے اصرار کرکے بلایا تھا اور رشتے کے ایک بھائی نے جب میرے تقاضے پر دعوت نامہ اور اپنے ٹیکس کے کاغذات کی نقول ارسال کی تھیں تو لکھا تھا “تم ایک بار آ← مزید پڑھیے