مریم مجید کی تحاریر
مریم مجید
احساس کے موتیوں میں تحریر کا دھاگہ پرو کر مالا بناتی ہوئی ایک معصوم لڑکی

اپنا اپنا جہنم۔۔۔مریم مجید ڈار

وہ سیانوں سے سنتی چلی آئی تھی کہ بیٹا جنمے تو لوگ بدھائیاں دینے آئیں نہ آئیں،  در و دیوار سے پھوٹتی خوشی اور دروازوں پہ ٹنگی شرینہہ کی ٹہنیاں ہی اعلان کرتی پھرتی ہیں کہ نعمت خداوندی کا ،اولاد←  مزید پڑھیے

حرامی ۔۔مریم مجید ڈار

شہر میں جگہ جگہ سسکیوں والے ریستوران کھل چکے تھے ۔ وہاں کوئی خاص خوراک تو نہیں بنتی تھی مگر پھر بھی سب سے زیادہ ہجوم وہیں پایا جاتا تھا۔ نوجوان جوشیلے لڑکے اور امنگوں سے لبریز نمکین دھندلے مرغولوں←  مزید پڑھیے

سوہانجنا ،ایک کرشماتی پودا۔۔۔۔مریم مجید ڈار

کائنات میں موجود ہر جاندار و بے جان شے کی پیدائش کا مقصد صرف اور صرف بنی نوع انسان کی خدمت بجا لانا ہے۔ دیوہیکل معدنیات اگلتے پہاڑ ہوں یا نظر نہ آنے والے جرثومے، چرند پرند حیوانات و نباتات←  مزید پڑھیے

سرخ مسیحا۔۔۔مریم مجید ڈار

گاؤں والوں نے آج پھر ایک اور باسی کی لاش جنگل کو جانے والے راستے سے اٹھائی تھی اور رات کی سیاہ خاموشی میں اب وہ اسے دفنانے آئے تھے۔ ہاتھوں میں مشعلیں تھامے وہ اس لکڑی کے تختے کے←  مزید پڑھیے

ہائیڈروپونکس۔ زراعت کے سفر میں ایک اہم سنگ میل۔۔۔۔مریم مجید ڈار

زراعت کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے اہم ترین سیکٹر ہے چاہے وہ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر خطے، زراعت ملکی ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک کے لئے،←  مزید پڑھیے

چھپر کھٹ کا ناگ۔۔۔مریم مجید ڈار/افسانہ

سہاگ کی سیج پر بیٹھی شمع کا دل ہر گزرتی گھڑی کے ساتھ آنے والے لمحات کی رنگینی و سنگینی کے تصورات کے بھاری پتھر سے بندھا ایک عجیب سی کیفیت کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا۔ اس کا←  مزید پڑھیے

فاحشہ۔۔۔مریم مجید ڈار

(ایڈز کی مریضہ طوائف ) گاہک کی مٹھیوں میں اس کے بال کسے ہوئے تھے۔۔ اور مسہری کی سلوٹوں میں اس کا صدیوں پرانا بدن درزوں اور ریخوں کے بیچ سے جھانکتا تھا۔ ۔۔۔۔ گاہک نے جو نوٹ نائیکہ کو←  مزید پڑھیے

چڑے، بٹیرے اور نور فاطمہ۔۔۔مریم مجید ڈار

دسمبر 2014 کی ایک سرد اور دھند آلود شام تھی جب مجھے اپنی کچھ روم میٹس کے ساتھ چند ضروری اشیا کی خریداری کے لیے جانا پڑا ۔ ایگریکلچر یونیورسٹی فیصل آباد کی لمبی سڑک پر جو یونیورسٹی سے سیدھا←  مزید پڑھیے

گمشدہ خدا۔۔۔مریم مجید ڈار/افسانہ

پرانے وقتوں کی بات ہے۔۔کتنی پرانی؟؟ اب یہ کیا معلوم مگر اتنا جان لو کہ تب خدا کو مظاہر میں تلاش کیا جاتا تھا۔ کبھی سورج تو کبھی چاند ،کبھی آگ تو کبھی پانی! کیا کہا؟؟خدا کو تلاش ہی کیوں←  مزید پڑھیے

ابن الوطن۔۔مریم مجید ڈار

رات کا دم انہونی کے خوف سے گھٹا ہوا تھا۔۔گرم اور تاریک جنگل میں مہاجرین کو لے جانے والی ریل کسی بھوت کی مانند چل رہی تھی۔۔زندہ اور مردہ انسانوں کے تن سے اٹھتی بساند ایسی بھیانک تھی کہ پل←  مزید پڑھیے

لفافے کی موت۔۔مریم مجید ڈار

رات دبے پاؤں بنا کوئی چاپ پیدا کیے گزرتی جا رہی ہے۔ اور صبح ہونے میں چند ہی گھنٹے باقی رہ گئے ہیں۔۔صبح جو مجھے نجات دلانے کو چلی آتی ہے۔ مجرم چھوٹنے والا ہے ۔۔ وقت کا ٹھیک علم←  مزید پڑھیے

عورت کا ارتقائی سفر،گھر سے پوسٹر تک۔۔مریم مجید ڈار

“میرا جسم،میری مرضی” “چادر،چار دیواری گلی سڑی لاش کو مبارک” میں اس سب پہ کچھ کہنا نہیں چاہتی تھی کہ معاشرے میں ، کوڑھی کے گلے سڑے جسم جیسے سماج میں مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں مگر کیا←  مزید پڑھیے

دروغ گوئی کے دنوں میں لکھا گیا سچ۔۔مریم مجید ڈار

 “سنو اے آدم! میں کہ حوا! تمہارے جیسی! تمہارا پرتو،تمہارا سانچہ! مکیں عدن کے،زمیں کے ساتھی! اے میرے ہمدم،اے میرے آدم! سنو کہ تم سے مفر نہیں ہے ! سنو کہ تنہا گزر نہیں ہے !! سنو! کہ مجھ سے←  مزید پڑھیے

جنگلی گلاب اور کنوارے گنجے۔۔مریم مجید

دو چار روز قبل مکالمہ پر مدیر اعلی جناب انعام رانا صاحب  کا ایک مضمون شائع ہوا جو “لڑکیاں املی کیوں کھاتی ہیں ” کے عنوان سے تھا ۔ یہ وہ ایام تھے جن میں وہ  سوشل میڈیا  سے بوجوہ←  مزید پڑھیے

بہار مبارک۔۔مریم مجید

موسم اک بار پھر سے جون بدل رہا ہے ۔ رخصت ہوتے ہوئے جاڑے کے زرد گالوں پر گلابی غازہ  ملنے والی مشاطہ ،بہار جو ابھی آئی تو نہیں مگر اپنے ہونے کی نشانیاں بھیج رہی ہے ۔۔ فطرت کے←  مزید پڑھیے

آوارہ عورت۔۔مریم مجید/آخری حصہ

اس کے ان الفاظ میں جانے کیا اثر تھا کہ میرا دل شانت پڑنے لگا۔ غالباً پسِ شعور کسی اور آوارہ عورت سے مل کر دل کو تسلی سی ہوئی تھی کہ میرے علاوہ کوئی اور بھی اس نام سے←  مزید پڑھیے

آوارہ عورت۔۔مریم مجید/،قسط1

گیلی ریت پہ چلتے چلتے ہم جانے کتنی دور نکل آئے تھے کہ لوگوں کا شور، ہنگامہ کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔ سمندر کے اس کنارے پہ اکا دکا لوگ ہی تھے یا پھر لہروں کے ساتھ ساتھ اڑتے سمندری←  مزید پڑھیے

احوال ذلالت بطرز جدید چال چلن ۔۔مریم مجید/ آخری قسط

اگلی سویر جب میں دوکان کھول کر جھاڑ پونچھ کر رہا تھا تو محلے کی مسجد کمیٹی کے رکن حاجی دلبر نازل ہو گئے۔ حاجی صاحب کا سراپا نعمتوں کے کثرت استعمال سے ایسا ہو چکا تھا کہ جناب سر←  مزید پڑھیے

احوال ذلالت بطرز جدید چال چلن۔۔مریم مجید/قسط1

صاحبان دنیا میں خدا اور جنس کے بعد جو شے قدامت میں بازی لیے  جاتی ہے وہ ہے ذلالت ۔ آپ کو یاد ہو تو میں وہی ہوں جو نے کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل←  مزید پڑھیے

چھوٹا گوشت۔۔مریم مجید ڈار

شہر میں چھوٹے اور نازک ماس کی مانگ اتنی بڑھ گئی تھی کہ لوگ اپنے تھان کے جنور ہی چابنے لگے تھے۔ بڈھا سخت ریشوں والا گوشت دانتوں کے درمیان موجود خلا میں پھنستا تھا ۔ مزہ بھی خراب ہو←  مزید پڑھیے