عارف خٹک کی تحاریر
عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

دہشتگرد۔۔عارف خٹک

“کبھی آپ کے سامنے آپ کی اولاد کی کٹی پھٹی لاش سامنے پڑی دیکھی ہے؟” ایک غراتی ہوئی نسوانی آواز نے میرے پیر جکڑ لئے۔ مجھے اپنے دفتر سے نکل کر گھر جانا تھا۔ آج میرے چار سالہ اکلوتے بیٹے←  مزید پڑھیے

شرک۔۔عارف خٹک

دونوں میں بہت پیار تھا۔ دونوں چالیس کے پیٹے میں تھے۔ ان کی شادی کو پندرہ سال گزر گئے تھے۔کوئی اولاد نہ  ہونے کے باوجود آج بھی ان کے بیچ ایسی محبت تھی،کہ دیکھنے والے رشک اور حسد سے جل←  مزید پڑھیے

سیدکی۔۔عارف خٹک

چھوٹے سے قد کا وہ جوان جو ہر وقت سر پر قراقلی ٹوپی رکھے ایک دوست کی طرح میرے ساتھ گاوں کے کھیتوں اور پہاڑوں میں سارا دن گھومتا تھا۔ رشتے میں ہم دونوں سگے چچا بھتیجے تھے مگر ایک←  مزید پڑھیے

سفرنامہ پنجاب(قسط2)۔۔عارف خٹک

ہم نے ڈاکٹر کو غور سے دیکھا تو اس نے جلدی سے “نیکسٹ” کی ہانک لگائی اور ہم پرچی تھامے کبھی ڈاکٹر کو اور کبھی اس کی کمپاؤنڈرنی کو حیرت سے دیکھنے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ ڈاکٹر←  مزید پڑھیے

سفرنامہ پنجاب(قسط1)۔۔عارف خٹک

جب پورے پاکستان میں مکمل لاک ڈاؤن تھا۔ سڑکیں سنسان، بازاروں میں ہُو کا عالم تھا۔ حتی ٰ کراچی کی سنسان سڑکوں پر صبح کے وقت جاگنگ کرنے کے  جرم میں  گلشن اقبال پولیس نے پکڑ کر دفعہ 124 کے←  مزید پڑھیے

منظور ہے؟۔۔عارف خٹک

میری ناسٹلجیا جو میری جنم بھومی ہے۔جہاں کے اُونچے نیچے پہاڑی راستوں پر گرتے پڑتے میں نے پہلا قدم رکھنا سیکھا۔ جہاں پہلا قدم لیتے ہی دادی ماں نے میرے پیروں کے پاس جلیبیاں رکھیں،تاکہ ساری عمر مٹھائی جیسی شیریں←  مزید پڑھیے

ایڈمن کے چونچلے اور ہم۔۔عارف خٹک

لوگ تین ہزار ممبران کے  گروپس کے ایڈمن ہوکر زمین پر پیر نہیں رکھتے۔ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی آکر وال پر لکھ دیتا ہے۔ “للہ ایڈمن صاحب ہماری  پوسٹ پر نہیں آتے ،شاید ناراض ہیں”۔ کوئی خاتون ترنگ←  مزید پڑھیے

خیال جناں۔۔عارف خٹک

وہ بے چینی سے اپنی انگلیاں چٹخانے لگیں۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ اندرونی طور پر شدید بے چینی کی شکار ہے۔ پارک میں کچھ بچے فٹ بال کیساتھ کھیل رہے تھے۔ یہ روز کا معمول←  مزید پڑھیے

چرسی۔۔عارف خٹک

وہ سوٹڈ بوٹڈ خوبصورت نوجوان انتہائی مہارت اور خوبصورتی سے پچاس ساٹھ بندوں کے سامنے پروجیکشن اسکرین کے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا۔ “نشہ ہمشہ کمزور انسانوں کو فتح کرتا ہے،۔ مضبوط انسان نشہ آور جوئے سے ہمشہ دور بھاگتا←  مزید پڑھیے

لعنت ہو ایسی تبدیلی پر۔۔عارف خٹک

کسی فنکار کی تخلیق اس کی اولاد کی طرح ہوتی ہے۔ جب کسی فنکار سے اس کی  تخلیق چھینی  جاتی  ہے تو اندازہ لگائیں کہ ایک ماں پر کیا گزرتی ہوگی۔ جب جیتے جی اس کی اولاد اس سے چِھن←  مزید پڑھیے

“مرد” ناول سے ماخوذ۔۔عارف خٹک

زریاب بہت پریشان تھا۔ دو راتوں سے وہ بغیر نیند کے مسلسل جاگ رہا تھا۔ بدقسمتی سے وہ ماں سے بھی بات نہیں کر پارہا تھا کیونکہ اماں نے کھل کر اس کو خبردار کیا تھا “زریاب تم اتنے بڑے←  مزید پڑھیے

میرا باپ جو میرا یار تھا۔۔عارف خٹک

میری ہر غلطی پر پردہ ڈالنے والا ایک شخص مجھے یوں اکیلا اور تنہا بھی چھوڑ کر جاسکتا ہے۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ جب جب غلطی کی تو کہتا “کھوتے اب تو بڑا ہوگیا ہے۔ بالوں میں سفیدی آگئی←  مزید پڑھیے

میں تاں ہونڈا ای لیساں۔۔عارف خٹک

دنیا بھر میں بنک اپنے کسٹمرز کو کیا کیا سہولیات اور سروسز دیتا  ہے، مگر ہمارے ہاں سہولیات اور سروسز کو تو چھوڑو، کسی بنک کا کیشئر بھی سیدھے منہ بات نہیں کرتا۔ جب آپ بنک کی  برانچ میں جاتے←  مزید پڑھیے

ہمارے فنکار۔۔عارف خٹک

پکاسو کہتے ہیں “ہر بچہ فنکار ہوتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک بار جب ہم بڑے ہوجاتے ہیں تو اپنے اندر اس معصوم فنکار کو کیسے زندہ رکھا جائے”۔ ڈاکٹر چہ کیمہ دو سکنہ میری غنڈی خانخیل کہتے ہیں←  مزید پڑھیے

کیا وزیرستان میں دوبارہ فوجی آپریشن ہونے جارہا ہے؟(قسط 3)۔۔عارف خٹک

فقیر ایپی نے جب انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھا کر مزاحمت کا آغاز کردیا تو اس وقت “سور یا سرخ کافر” کی اصطلاح مقبول ہوئی۔ سرخ کافر وزیرستان کے لوگ انگریز کو کہا کرتے تھے۔ نفرت کی انتہاء اتنی تھی←  مزید پڑھیے

کیا وزیرستان میں فوجی آپریشن ہونے جارہا ہے؟(قسط2)۔۔عارف خٹک

میرعلی سے نکل کر ہرمز ہائیر  سکینڈری  سکول کو ڈھونڈنے لگا، جہاں پر گزرے   بچپن کی حسین یادیں  آج بھی  مجھے بے چین کیے رکھتی ہیں۔ میرعالم اسٹیشنری دوکان کو کافی ڈھونڈا، مگر 1996 میں جو میں چھوڑ کر←  مزید پڑھیے

کیا وزیرستان میں ایک اور فوجی آپریشن ہونے جارہا ہے؟(قسط 1)۔۔عارف خٹک

شمالی وزیرستان میں جہاں امن کے دعوے کئے جارہے ہیں وہاں گاہے بگاہے  آج بھی فوجی قافلوں پر حملے، سڑک کنارے دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی خبریں نکل آتی ہیں۔ آخری اطلاعات تک رزمک میں ایک فوجی قافلے پر ریموٹ←  مزید پڑھیے

قہقہے ۔۔۔ عارف

مغل بادشاہ اورنگزیب نے خوشحال خان خٹک کو گرفتار کرنے سرخ پوش سپاہیوں کا دستہ دہلی سے اکوڑی بھیجا۔ یاد رہے کہ مغل دربار کے یہ سپاہی موت کے ہرکارے تصور کئے جاتے تھے۔ یہ دستہ جن کو گرفتار کرتا تو سمجھو وہ بندہ موت کا حقدار بن جاتا۔←  مزید پڑھیے

“کجھیر” ایک المیہ گیت ۔۔۔ عارف خٹک

پھر 1996 میں افغانستان میں طالبان کا بول بالا ہوا۔ اسلام قبائلی علاقوں سے نکل کر ہمارے جیسے سیکولر معاشرے میں بھی پُہنچ گیا۔ ہر گلی ہر محلہ مردانہ اور زنانہ مدرسوں سے بھر گیا۔ وہ لونڈے جو ہمارے ساتھ جون جولائی کی تپتی دوپہروں میں کھوتیاں بھگاتے تھے، اب وہ عالم بن گئے۔ بھتیجی سفید شٹل کاک پہن کر سگے چچا سے پردہ کرنے لگی۔ شادیوں میں اتنڑ کے بجائے نعتیں سُنائی جانے لگیں۔ سوچتا ہوں، شکر ہے بڑے چچا اب زندہ نہیں ورنہ کب کے سنگسار ہوجاتے۔←  مزید پڑھیے

گاؤں،دادی اور صبر۔۔عارف خٹک

بکرے کی ثابت کھال کو آگ کی تپش پر گرم کر کے،سارے بال جلانے کے بعد نمک لگاکر مہینوں دُھوپ میں خشک کرنے کے بعد لسی کی روایتی مدھانی تیار کی جاتی تھی۔ جس کو خٹکزینہ زبان میں “غڑکہ” کہتے←  مزید پڑھیے