اکیسویں صدی جو کہ علم و ہنر کے لحاظ سے ایک بالغ صدی ہے اور آج علم کا حصول ایک کلک بٹن کے فاصلے پر ہے۔چند سیکنڈ میں ہم دنیا بھر کی معلومات اپنے کمپیوٹر سکرین یا اپنے موبائل فون← مزید پڑھیے
ہم ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں کہ جہاں پر یہ بات سنہری اصول کا در جہ اختیار کر چکی ہے کہ کتابوں میں لکھا ہوا حرف بہ حرف ٹھیک ہوتا ہے اور اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں← مزید پڑھیے
آٹھواں باب بعنوان ”روحانی تجربات۔۔۔سائنس اور نفسیات کے آئینوں میں“اس باب میں ڈاکٹر سہیل روحانی تجربات کے حوالوں سے بطور ماہر نفسیات اور سائنس کا طالب علم ہونے کے ناطے سے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہیں۔پہلے وقتوں میں یہ← مزید پڑھیے
بیکن نے کیا خوبصورت بات کہی تھی ”کچھ کتابیں چکھنے کے لیے ہوتی ہیں،کچھ نگلنے کے لیے اور ان میں کچھ کتابیں چبا کر ہضم کرلینے کے قابل ہوتی ہیں“آج جس کتاب کا تعارف کرواؤں گاوہ چبا کر ہضم کر← مزید پڑھیے
کچھ حالات و واقعات اس قسم کے ہوتے ہیں جو اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ جاتے ہیں۔یہ سوالات ایک نقطے کی طرح ہوتے ہیں کہ جن کے نقطوں کو اگر ایک ترتیب کے ساتھ جوڑا جائے تو وہ ایک← مزید پڑھیے
اگر انسان کی معلوم شدہ ابتدائی تاریخ کا مطالعہ کریں اور اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید انسان ایک بے بس اور مجبورِ محض مخلوق ہے۔غاروں میں رہنے والا انسان اپنی← مزید پڑھیے
ہمارے مشرقی معاشرے میں باپ کو جنت کا دروازہ کہا جاتا ہے اور ماں کے پاؤں تلے جنت ہوتی ہے۔اسی بنیادی مقدس اصول کے تحت ہماری مشرقی نسل پروان چڑھتی ہے۔اس مقدس اصول کی پاسداری کرتے ہوئے ایک مشرقی باپ← مزید پڑھیے
ڈاکٹر بلند اقبال جو کہ حمایت علی شاعر کے فرزند ارجمند ہیں۔آج کل کینیڈا میں رہتے ہیں۔ وہ کسی وقت میں کینیڈا کے رائل ٹی وی پر(پاس ورڈ) کے نام سے ایک پروگرام کیا کرتے تھے جبکہ آج کل کینیڈا← مزید پڑھیے
ڈاکٹر خالد سہیل (عورتوں سے رشتے)والے باب میں ایک معصوم تعلق جوکہ زمانے کی تما م کدورتوں،قباحتوں اور برائے نام سماجی اصول و ضوابط سے بے نیاز ہوتاہے۔بچپن کی ابتدائی عمر والے تعلقات اور رشتے جو بچے اپنے ہم جولیوں← مزید پڑھیے
ہر سماج اور سو سائٹی کے کچھ کر دار ہوتے ہیں جنھیں خود اس معاشرے کے لوگ اور ان کے رویے بناتے ہیں۔یہ کردار آسمان سے یا ماں کی کوکھ سے اپنی زندگی گزارنے کے پیمانے لکھوا کر اس دنیا← مزید پڑھیے
زندگی ہر شخص کے لیے قدرت کا ایک حسین تحفہ ہوتی ہے۔کچھ لوگ اس تحفہ کو پہلے سے تہہ شدہ روایتوں،اصولوں اور طریقوں کے مطابق گزار کر دنیا سے چلے جاتے ہیں اور نسلِ انسانی کے اثاثہ میں کوئی خاطر← مزید پڑھیے