ڈوڈو کے گاؤں اور میری بستی کے بیچ میں جنگل ہے۔ ڈوڈو جب آتا ہے، ہاتھ میں سونٹا ہوتا ہے۔ کوئی کتا، گیدڑ یا سور قریب آئے تو گھما کے مارتا ہے۔ کل ڈوڈو اپنے بچوں کے ساتھ آیا، ہاتھ← مزید پڑھیے
میرا سچے دل سے ایمان ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا مطلب میں یہ سمجھا ہوں کہ فطرت کے خلاف جو شے ہے، وہ اسلام نہیں۔ چنانچہ میں فطرت کے خلاف عقائد اور مقدس ہستیوں کو سوپرمین قرار← مزید پڑھیے
خدا ایک ویران سڑک پر درخت کے نیچے بینچ پر اداس بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں خلا میں جمی ہوئی تھیں۔ پیشانی پر شکنیں تھیں۔ ہونٹ بھینچے ہوئے تھے۔ جھٹپٹے کا وقت تھا۔ اندھیرا دھیرے دھیرے چاروں طرف پھیل رہا← مزید پڑھیے
امریکہ میں لکھی گئی ایک کہانی، جو ناقابل اشاعت قرار پائی: “کراچی میں پندرہ سال کے دوران باون ڈاکٹر قتل کیے گئے۔ مجھ پر بھی قاتلانہ حملہ ہوا لیکن بچ گیا۔ مجبوراً ترک وطن کرنا پڑا۔” ڈاکٹر صاحب نے بتایا۔← مزید پڑھیے
کوٹھا (کم نہ زیادہ، پورے سو لفظوں کی ناقابل اشاعت کہانی) ۔ ڈوڈو مجھے اپنے ساتھ اُس بازار میں لے گیا۔ ہم سیڑھیاں چڑھ کر کوٹھے پر پہنچے۔ ایک ہال میں کوئی رقاصہ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھی۔← مزید پڑھیے
“آپ کو لوگ پہچان لیتے ہیں۔” میری بیوی اکثر یہ کہتی ہے۔ سچ کہ راستہ چلتے لوگ مجھے روک لیتے ہیں۔ کبھی میری کہانی کی تعریف کرتے ہیں۔ کبھی کسی فیس بک پوسٹ کو سراہتے ہیں۔ کبھی سیلفی کی فرمائش← مزید پڑھیے
“مجھے معاف کر دیں بھٹو صاحب! مجھ سے بڑی غلطی ہوئی۔ میں شرمندہ ہوں۔” جنرل ضیا الحق گڑگڑائے۔ “نہیں، تمھیں معاف نہیں کیا جا سکتا”۔ ذوالفقار علی بھٹو کا لہجہ سخت تھا۔ ایسا نہ کہیں بھٹو صاحب! آپ دل کے← مزید پڑھیے
“مکالمہ” اک دن میں نے فرشتوں سے، جو مرے کندھوں پر بیٹھے رہتے ہیں، کہا کہ میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔ وہ اک دوسرے سے مشورہ کر کے نیچے اتر آئے۔ “میں بھی آپ دونوں کی طرح رائیٹر ہوں”۔← مزید پڑھیے