محمد جاوید خان کی تحاریر
محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

حنّان ۔۔۔۔جاویدخان

اَندازاً کوئی اٹھارہ برس ہوئے، اُدھر کی بات ہے۔میں نے ریڈفاونڈیشن سکول سون ٹوپہ  تدریسی فرائض سنبھالے۔  آس پاس  کے بچے شا م ڈھلے تک میرے گھر کے صحن میں براجمان ہوتے۔تدریس میں نئے نئے دن تھے۔سکول ریڈ کے زیر←  مزید پڑھیے

عُرس اور تصوف۔۔۔۔۔محمد جاویدخان

ضلع پونچھ کشمیر کاایک بڑا ضلع ہے۔1947 ء کے بعد کشمیرکی طرح پونچھ بھی دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔بڑا حصہ مقبوضہ کشمیر میں اور کچھ حصہ آزادکشمیر میں آگیا۔سون ٹوپہ آزاد کشمیر والے پونچھ کا گاؤں ہے۔ ٹو پہ←  مزید پڑھیے

اصلاح مشکل ہو تی ہے۔۔۔۔ جاوید خان

کہتے ہیں کسی زمانے میں،کسی ملک پر ایک عادل بادشاہ حکومت کرتا تھا۔اس کے کئی بیٹے تھے۔یہ سب کے سب لائق او ر کسی نا کسی فن میں یکتا تھے۔بادشاہ کو اپنے چھوٹے بیٹے سے زیادہ پیار تھا۔اس میں بے←  مزید پڑھیے

خُو ش گمانیوں پرنہیں ،حقیقت پر۔۔۔۔۔ جاویدخان

ہم ایک عظیم الشا ن نظام شمسی کے بیچ،چھوٹے سے کُرّے پر رہ رہے ہیں۔جسے سیارہ زمین کہتے ہیں۔ہمارا نظام شمسی ایک بڑی گلیکسی کا حصہ ہے۔اس گلیکسی میں اَن گنت سیارے،نظام اور ان کی دھول ہے۔آسمان صرف ہمارے سر←  مزید پڑھیے

اِک مہم جو کی نفسیات ۔۔۔۔۔جاوید خان

مہم جوئی انسانی فطرت کاخاصا ہے۔کسی میں یہ کم ہوتی ہے کسی میں زیادہ۔تجسس اور پھرمثبت تجسس نے انسان کے لیے خلاؤں کے دروازے کھول دئیے ہیں۔نیل آرمسٹرانگ عظیم شخص تھا جس نے چاندپر پہلا قدم رکھا۔اُس نے تمام عالم←  مزید پڑھیے

اسلام آباد میں دو دن ۔۔۔۔جاویدخان

اسلام آباد،آب پارہ کے سامنے ذرا سا دائیں جانب،”یاسمین اینڈ روز“گارڈن ہے۔یہ ایک وسیع اَور خوب صورت پارک ہے۔یہاں اَپریل سے یاسمین اَور گلاب کے پھول کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔اِسی پارک سے لگ کر دائیں جانب ”پاک چائنہ سنٹر“کی←  مزید پڑھیے

میرے اَندازے،شاخ شاخ پھول ہے۔۔۔۔۔ جاوید خان

اپریل گزر گیا ہے۔کشمیر ہمالیہ کے دامن میں خوب صورت وادی ہے۔برفوں کی سفید چادر تقریباً 90 فیصد رقبے سے ہٹ چکی ہے۔جہاں جہاں سے برف  پگھلتی گئی  ہے ۔وہاں وہاں زمین کی بیداری کا عمل ہوتا گیا۔پیرپنجال،دیوسائی،نانگا پربت اَور←  مزید پڑھیے

کامریڈ! تُم خوش قسمت ہو۔۔۔ جاویدخان

سیدی (سید ابواعلیٰ مودودی)،سید ابوالخیر مودودی (سیدمودودی کے بڑے بھائی) اور جو ش ملیح آبادی،نیاز فتح پوری کے اخبار سے منسلک تھے۔ماحول علمی تھا،ادبی تھااور بہت ہی دوستانہ بھی۔یہاں تک کہ جب نظریاتی اختلافات بڑھ کر سمندر کے دو الگ←  مزید پڑھیے

ایمان۔۔۔۔ جاویدخان

معصوم چہرے اور تیکھے نقوش والی ایمان ،ہمارے دوست ملک خضرصاحب کی بھانجی تھی۔پیدائش کے فوراً بعد والدہ کے ساتھ ننھیال آگئی۔ننھیال بھر کی اکیلی لاڈلی تھی۔تعلیم کے پہلے سال میں بیمار ہوئی تو عمر کے ساتھ ساتھ بیماری بھی←  مزید پڑھیے

سکیم۔۔۔۔ جاوید خان

اُردو میں اسے ”مَنصوبہ بندی“کہتے ہیں۔صحیح طرح معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ مونث ہے یامذکر۔اگرچہ تذکیر و تانیث کی کتابوں میں اس پر بحث ضروری نہیں سمجھی گئی۔ بس اُردو کادو حرفی ”منصوبہ بندی“ انگریزی میں مختصر ہو کر←  مزید پڑھیے

مکالمہ کا کتھارسس ۔۔۔۔۔۔جاویدخان

کہتے ہیں زمانوں پہلے یونان کی دانش گاہوں میں ایک سر پھرے دانش وَر نے یہ نسخہ دِیا کہ  اِنسانی جذبات جو اَندر ہی اَندر گھُٹ کر ہمارا ستیاناس کرتے رہتے ہیں۔اَگر اُنھیں زبان و بیان کاموقع دِیا جائے تو←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔۔۔ محمد جاوید خان/قسط 30

مِنی مَرگ کاسُریلا پانی :۔ مِنی مَرگ کے اِس نالے میں اُجلا پانی بہتا ہے۔شفاف پانیوں کا ترَ نُّم بھی شفاف ہو تا ہے۔ پار جنگل میں دَرختوں کی ٹہنیاں مَچل مَچل کر لہراتی ہُو ئی ہَو ا ؤں کا←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔۔۔ محمد جاوید خان/قسط 29

اُجلی وادیوں میں آلُودہ لوگ! ایک بات حیران کرنے والی ہے کہ گلگت بَلتستان و کشمیر کے ہر سیاحتی مقام پر ناقص دُودھ کی چائے بِکتی ہے۔قراقرم،ہندوکُش اَور ہمالیہ کی اِن وادیوں میں،جہاں محنت ہی سب کا دین ہے،ہر گھر←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔۔۔ محمد جاوید خان/قسط 28

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط27 مِنی کاگھر،مِنی مَرگ :۔ مِنی مَر گ بریگیڈ ہیڈ کوارٹر ہے،جووادی کشمیر کے گُل مَرگ کاہی ٹُکڑا لگتا ہے،جِسے چاروں طرف سے ڈھلوانی پہاڑوں نے گھیر رَکھا ہے۔مِنی مَرگ ایک چھوٹاسا قصبہ ہے،جِس میں ایک←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط27

مائی کی باتیں: سڑک کے دائیں طرف گھاس کے چھوٹے سے میدان کنارے خیمے لگے تھے۔سڑک پہ ایک بُزرگ عورت اَور دو لڑکے کھڑے تھے۔اُنھوں نے ہماری گاڑیوں کو ہاتھ سے رُکنے کا اِشارہ کیا۔وقاص نے گاڑی تو نہ روکی←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط26

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط25 بُرزَل ایک قاتل درہ: درّہ بُرزَل تقریباً 13500ُٖفُٹ بلند ہے۔سلسلہ ِ ہمالیہ کے اَہم دروں میں شمار ہوتاہے۔سال کے اَندازاً سات ماہ بھاری بَرف باری کی وجہ سے بند رہتا ہے۔1947سے قبل یہ سِری نگر،سکردو،گلگِت←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط25

اَستور ناشتہ: اَستوربازار پہنچ کر جس ہوٹل میں کھانا کھایا تھا اُسی میں ناشتہ کرنے کے لیے بیٹھے۔ہوٹل کا کُچھ عملہ اَبھی بیدار ہوا تھا۔دوستوں نے تگڑے ناشتے کاحکم نامہ جاری کیا۔انڈے بَہت سے پراٹھے اور چائے۔میری گرانی ابھی ختم←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی ۔۔۔جاوید خان/قسط24

رامہ نگر کی صُبح خیز دُنیا اَورہم: اُجالا پھیلنے پر  ہم جاگے۔جلدی جلدی وضو کیا نماز ادا کی۔فجر کی سپیدی آکر جاچکی تھی۔خیمہ بستیاں چیدچیدہ جاگ رہی تھیں۔جنگل پرندوں کی بولیوں سے گونج رہا تھا۔ہر پرندہ اِس بن میں اپنی←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیوسائی۔۔۔جاوید خان/قسط23

آشیانے کی تلاش: پہلا مسئلہ رِہائش کاتھا۔دو تین جگہوں پر بات کی،عاصم میر سفر کو کوئی بارعایت آشیانہ چاہیے تھا۔جہاں کھانا اَچھا مِلے اَور رات بھی آرام سے بَسر ہوسکے۔آخر میدان کے نُکڑ پر جہاں نانگا کا بِچھڑا پانی شور←  مزید پڑھیے

چلے تھے دیو سائی۔۔جاوید خان/قسط22

رَامہ جھیل کی طرف: رامہ میدان کے پیچھے مشرقی سَمت،نانگا پربت کے پہلو میں رامہ جھیل ہے۔ایک کمزور سی سڑک،جس پر ایک وقت میں صرف ایک ہی گاڑی گُزر سکتی ہے،رامہ جھیل تک لے جانے کا اَحسان کرتی ہے۔رامہ میدان←  مزید پڑھیے