محمد جاوید خان کی تحاریر
محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

کراچی آرٹس کونسل میں دو دن(دوسرا،آخری حصّہ) ۔۔جاویدخان

اس رعایت میں رضوان صاحب کاپوراپورا کردار تھا۔میں ایک تنہا ئی پسند شخص ہوں۔ورنہ سردار جنت صاحب جو برسوں سے کراچی کے ہوکررہ گئے ہیں۔کراچی ٹریڈ یونین کے کوآرڈی نیٹر ہیں۔میرے لیے رہائش کابندوبست کرچکے تھے۔علاوہ آزادکشمیر ضلع سدھنوتی کے←  مزید پڑھیے

کراچی آرٹس کونسل میں دو دن ۔۔جاویدخان

فروری2020 کی کسی تاریخ کو انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان سندھ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر خادم منگی صاحب نے انجمن کے واٹس ایپ گروپ میں اُن چنیدہ لوگوں کی فہرست لگائی جوانجمن کے ججیز کے مطابق ،جن کے فن پارے←  مزید پڑھیے

سید فاضل شاہ بخاری ؒ ۔۔جاوید خان

سیّد فاضل حسین شاہ انہی ہدایت شاہ بخاری ؒ کی دوسری اَولاد تھے۔اَگرچہ کوئی بڑی عالمانہ ڈگری ان کے پاس بھی نہ تھی۔قاریات کاکورس کیاہواتھا۔قرآن پاک اچھاپڑھتے تھے۔زبان پر عجمی لہجے کااَثر تھا۔صوفیانہ کلام یہ بھی بہت خوب صورت پڑھتے تھے۔ذکر و واعظ کی مجالس میں ان سے خصوصی کلام پڑھوایا جاتاتھا۔ ←  مزید پڑھیے

میڑو پہائی ۔۔جاویدخان

کبھی پیمائش کرکے نہ دیکھا،اَندازاًساڑھے چار فٹ کاقد،اُس پر بالکل گول، قدرے جھومتا ہوا سر،اُس پر جالی دارسفید ٹوپی،کسی قدر سیاہی مائل چہرہ،اِس پر داڑھی۔جب مَیں نے دیکھا تو وہ آدھی سفید ہو چکی تھی۔ہنستے تو سامنے کے سارے دانت←  مزید پڑھیے

حاجی پیر کے دامن میں ایک دن ۔۔جاویدخان

پریس فار پیس فاونڈیشن ایک فلاحی تنظیم ہے۔1999 میں مظفرآباد میں اس کی بنیاد رکھی گئی۔کشمیر کی وادی پرل کے سردار ظفراقبال اس کے سرپرست ہیں۔یورپ کی ایک درس گاہ میں تدریس کرتے ہیں۔تنظیم نے زلزلہ  2008کے دَوران مظفرآباد میں←  مزید پڑھیے

گُولُوپائی ۔۔جاویدخان

ساڑھے چار فٹ کاقد،گول گول سر،بیضوی چہرہ،اس پر سفید داڑھی۔چھوٹے چھوٹے ہاتھ اَور ان کی موٹی کھردری اُنگلیاں اُن کیساتھ ایک دہقان کاسااَنگوٹھا۔ہاتھوں سے مشقت کی بو آئے۔یہ تھے گل محمد خان۔جن کے نام کی پہاڑی تصغیر ہی معروف ہوگئی←  مزید پڑھیے

زردادحسرت صاحب ۔۔جاویدخان

دھندلے دھندلے نقوش،بیضوی چہرہ،بات کرنے لگیں تو سامنے کے دو دانت نمایاں ہو کر چہرے کو رونق بخشیں۔پھرتیلابدن،قداندازاً پانچ فٹ  چند  اِنچ۔مسکرائیں تو خوشی کاتاثر پورے چہرے سے چھلکے۔زرداد حسرت صاحب سکول میں ہمارے پی۔ٹی تھے۔ان سے پہلا واسطہ تب←  مزید پڑھیے

ممتاز غزنی کاتہذیبی ماضی ۔۔محمد جاویدخان

وقت کی بے شمار تعریفیں کی گئی ہیں۔اسے سمجھنے کے لیے ماضی،حال اور مستقبل میں تقسیم کیاگیاہے۔کیا اس کے علاقہ بھی وقت کاکوئی درجہ ہوگا۔؟یا پھر بس وقت تین حصوں میں تقسیم ہو کر ختم ہو جاتاہے۔مستقبل کے بعد کیارہ←  مزید پڑھیے

واخان کی تنگ پٹی اَور کشمیر ۔۔جاوید خان

واخان،سطح مرتفع پامیر پر پانچ ممالک کو ”جوڑنے“ اور پھر ”توڑنے“ والی تنگ راہ داری ہے۔یہاں تاجکستان،چین،پاکستان،کشمیر اور افغانستان باہم زمینی طور پر ملتے ہیں۔پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا  کاضلع چترال یہاں سرحدی محافظ کے طور پر کام کرتاہے۔بنیادی←  مزید پڑھیے

کنکریٹ میں دبتاجارہا اسلام آباد۔۔محمد جاویدخان

پاکستان کادارلحکومت اسلام آباد میرا دُکھتا اور سلگتا ماضی ہے۔میرے والدمرحوم ایک عرصہ تک اسلام آباد میں بسلسلہ روزگار مقیم رہے۔میں نے اسلام آباد کو بچپن،لڑکپن اور پھر جوانی میں باربار دیکھا۔اگرچہ یہ پاکستان کاجدید شہر ہے۔مگر یہ تاریخی شہر←  مزید پڑھیے

ماحولیاتی معاشیات ۔۔جاویدخان

جون کے گرم دن،گرم نہیں ہیں۔آسمان پر اَبر روز نکل آتاہے،برستاہے پھر غائب ہوجاتاہے۔ایساپہلے کم ہی ہوتاتھا۔جون جولائی گرم بیتاکرتے تھے۔بزرگ بتاتے ہیں جولائی تک اس بلوری ندیوں کے دیس میں آب رواں سوکھ جایاکرتے تھے۔مگر کبھی کبھارہی۔ایک نئی وبانے←  مزید پڑھیے

سائیں شیرا۔۔ جاویدخان

گھٹیلاجسم،قد پانچ فٹ کچھ اِ نچ, بھرے بھر ے مشقتی ہاتھ،مٹیالارنگ،کھنکتالہجہ اَور اس کے ساتھ بھاری بھرتحکم دار آواز ,یہ تھے سائیں شیرا۔ راولاکوٹ شہر سے ایک سڑک مشرقی سمت کوجاتی ہے۔اِسے ہجیرہ روڈ کہتے ہیں۔اِس سڑک پر آغاز سے←  مزید پڑھیے

بُلبُل نے آشیانہ اُٹھا لیا(اَفطار حسین حسرت)۔۔۔۔۔ (دوسرا ،آخری حصہ)جاویدخان

ہائی سکول سون ٹوپہ کے عقب میں اَکثر اَدبی مجلسیں ہوا کرتی تھیں۔حسرت صاحب ا س کے روح ِرواں تھے۔ایک مرتبہ یہاں مشاعرہ ہوا۔مہمان خصوصی محمد کبیر خان (مزاح نگار)تھے۔ساقی صاحب نے غزل پڑھی اَور حسرت صاحب نے نظم۔کبیر صاحب←  مزید پڑھیے

بُلبل نے آشیانہ اُٹھا لیا(اَفطار حسین حسرت)خاکہ۔۔۔۔۔ (پہلا حصہ)جاویدخان

گھنی بھنویں،کُشادہ پیشانی،بھرے بھرے گال،گول ناک اَور اُس کے دونوں طرف سیاہ،چمکتی جمی ہوئی مونچھیں،گندمی رنگ کاقدرے گول چہرہ۔اَگر سر پر تُرکی ٹوپی پہن رکھی ہو تو علامہ اقبال کی کوئی دُھندلی (بلیک اینڈ وائٹ)تصویر لگیں۔یہ تھے اَفطار حسین حسرت۔←  مزید پڑھیے

جہاں کیلاشے بستے ہیں ۔۔جاوید خان/14،آخری قسط

بے خار جھاڑیوں اور پتھروں پر چھوٹی چھوٹی چڑیاں اُچھل کود رہی تھیں اور چہک رہی تھیں۔مشرقی جنگل پوراانہی سے بھرا ہواتھا۔مشرقی سمت چڑیوں کی چہکاریں تھیں تو مغربی سمت نیچے پانیوں کی گونج۔سوائے اس کے یہاں زندگی سوئی ہوئی←  مزید پڑھیے

جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/13

ایک پل پار کیا،مڑے تو چوکی پر رکے،چوکی کے چوکی دار نے کہا بھائی صاحب!انٹری کرانی  ہوگا۔چوکی سے بالکل جڑ کر،بائیں ہاتھ نشیب میں ایک ہوٹل تھا۔وقاص جمیل نے کہا کھانا کھا لیتے ہیں،آگے ممکن ہے کھانا نہ ملے۔گاڑی نیچے←  مزید پڑھیے

جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/12

باباسرائے: بابا سرائے چار منزلہ عمارت ہے۔اس کی چوڑی راہ داریاں سرخ ٹائیلوں سے سجی ہیں۔راہ داریاں کیاہیں،دو طرفہ کمروں کے بیچ پورے پورے ہال ہیں۔اس کی چاروں منزلیں ایک ہی نقشے پربنی ہوئی ہیں۔مَیں ہال میں لگی کرسیوں میں←  مزید پڑھیے

جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/11

مارخو روں کی سچی کہانی: ہَوا تیز چل رہی تھی اَور دریا کی موجیں بھی تیز و تند تھیں۔ابراہیم شاہ اور مَیں مسجد کے برآمدے میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھے تھے۔ہمارے قدموں تلے آگ جلا دی گئی تھی۔یہ اِس وقت کام←  مزید پڑھیے

جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/10

میوزیم: ہلکی پھلکی تیاری کے بعد ہم باہر نکلے ہماری اگلی منزل یہاں کا میوزیم تھا۔برون میں ایک دومنزلہ عمارت میں میوزیم ہے جو دیکھنے کی چیز ہے۔کیلاش تہذیب دُنیا کی قدیم ترین زندہ تہذیب ہے تو یہاں کا میوزیم،اس←  مزید پڑھیے

جہاں کیلاشا بستے ہیں ۔۔جاوید خان/9

سلامُ الدین کیلاش کے متعلق بتاتے ہیں۔ کہیں سے سلامُ الدین صاحب آ بیٹھے۔وہ کیلاش لوگوں کے بارے میں بتانے لگے۔شفقت ان سے کچھ دیرپہلے چلے گئے تھے پھر آکر بیٹھ گئے۔سلامُ الدین صاحب نے پہلو بدلا سگریٹ کا کش←  مزید پڑھیے