یونیورسٹی آف چکوال! یہ سب ہو کیا رہا ہے؟۔۔محمد علی عباس

1949 میں پنجاب اسمبلی میں بڑی تعداد جاگیر داروں اور نوابوں کی تھی۔ جب یہ بات سامنے آئی کہ حکومت پنجاب ایک گورنمنٹ کالج بنانا چاہتی ہے لیکن اس کے لئیے زمین درکار ہو گی۔ ابھی بڑے بڑے جاگیردار سوچ بچار ہی کر رہے تھے کہ اس لمحے تحصیل چکوال سے منتخب نمائندے نے سب سے پہلے اٹھ کر چکوال میں کالج بنوانے کی شرط پر زمین عطیہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ صوبائی اسمبلی کے اس ممبر کو تاریخ راجہ محمد سرفراز خان کے نام سے یاد کرتی ہے ‘ جن کی عظیم سماجی خدمات کے صلے میں عوام نے انہیں محسن چکوال کا خطاب دیا۔

راجہ سرفراز خان نے اپنی ذاتی اور برادری کی طرف سے کالج کے لیے نہ صرف 300 کنال اراضی وقف کی بلکہ آج سے 71 سال پہلے ایک لاکھ روپے سے زائد کی خطیر رقم بھی اپنی جیب سے ادا کی۔ ایک اندازے کے مطابق اسی رقم سے کالج کی عمارت بھی تعمیر کی گئی اور تین سال تک کالج کے اساتذہ کی تنخواہیں بھی اسی سے ادا ہوئیں۔میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ صرف راجہ سرفراز خان ہی محسن چکوال ہیں جنہوں نے چکوال کی ترقی کے لیے نہ صرف زمینیں وقف کیں بلکہ ہر ممکن مالی معاونت بھی کی۔راجہ سرفراز جان اس کے بعد کچھ عرصہ سیاست میں رہے اور پھر ایک موقع پر پاکستانی سیاسی نظام سے دلبرداشتہ ہو کر گوشہ نشینی اختیار کر لی، اسی دوران دنیا سے رخصت ہوکر راہی ملک عدم ہو چلے۔گورنمنٹ کالج چکوال کاہر طالبعلم آج بھی راجہ سرفراز خان کا احسان مند ہے جن کے بنوائے ہوئے کالج میں اس نے تعلیم حاصل کی۔ پنجاب اسمبلی کے ریکارڈ کے مطابق راجہ سرفراز خان نے اسمبلی کے سیشنز میں سب سے زیادہ گفتگو صحت اور تعلیم کے موضوعات پر کی۔
ان کے بعد ان کے بیٹوں میں سے کوئی انکی جگہ نہ لے سکا۔ ان کے بیٹے راجہ ہارون سرفراز نے انتخابات میں حصہ لیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ 2008 اور 2013 میں راجہ سرفراز خان کے پوتے راجہ شاہ جہان سرفراز نے صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑا مگر ناکام رہے۔ راجہ سرفراز خان کے ایک اور پوتے راجہ یاسر ہمایوں سرفراز نے 2013 میں قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑ کر شکست کا سامنا کیا۔ 2018 کے انتخابات میں راجہ یاسر ہمایوں سرفراز کو صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 21 سے کامیابی حاصل ہوئی اور اس طرح وہ بھی اپنے دادا راجہ سرفراز خان کی طرح صوبائی اسمبلی کے ممبر بن گئے۔

راجہ یاسر سرفراز کی کامیابی کے بعد عوام کو امید تھی کہ وہ اپنے دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے چکوال کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ راجہ یاسر سرفراز نہ صرف پڑھے لکھے ہیں بلکہ نئے دور کے تقاضے بھی سمجھتے ہیں۔ چکوال کو عرصہ دراز سے یونیورسٹی کی ضرورت تھی۔ خوش قسمتی سے راجہ یاسر کو اعلیٰ تعلیم اور سیاحت کی وزارتوں کا قلمدان سونپا گیا۔راجہ یاسر کی کاوشوں سے ایک دن چکوال کی عوام نے یہ خوشخبری سنی کہ پنجاب اسمبلی سے یونیورسٹی آف چکوال کا بل پاس ہو گیا ہے۔ اب چکوال کی غریب عوام کے بچوں کو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے راولپنڈی ‘ اسلام آباد اور لاہور نہیں جانا پڑے گا۔

یونیورسٹی بنتے ہی چکوال کالج کا خاتمہ کر دیا گیا جس پر طلباء سراپا احتجاج بن گئے کیونکہ گورنمنٹ کالج چکوال کو یونیورسٹی میں ضم پر طلباء نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس عمل سے فیسیں بڑھ جائیں گی۔چکوال سے طلباء کے ایک وفد نے راجہ یاسر سے ملاقاتیں بھی کیں جس میں طلبہ کو یقین دہانی کرائی گئی کہ فیسوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔پروفیسرز جو محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے ملازمین تھے ان کو بھی کچھ تحفظات تھے۔

تب بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اساتذہ شاید اس لیے پریشان ہیں کہ یونیورسٹی بنی تو ان کے تبادلے دور دراز کالجوں میں کر دئیے جائیں گے۔ کام کا بوجھ ہوگا جس سے ”آرام پسند“ اساتذہ جان چھڑوارہے ہیں۔ تب عوامی رائے راجہ یاسر کے حق میں ہموار تھی۔

پہلا دھچکا اس وقت لگا جب ایک ٹی وی پروگرام میں راجہ یاسر نے یہ کہا کہ “دنیا میں کہیں بھی اعلی تعلیم مفت فراہم نہیں کی جاتی۔یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اسے افورڈ کر سکتے ہیں۔” یہ بات اس عظیم شخصیت کا پوتا کر رہا تھا جس نے اپنی زمین پر اپنی جیب سے پیسہ خرچ کر کے کالج بنوایا تھا۔ زندگی میں درجنوں طلبہ کی درپردہ مالی معاونت کی اور کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔
منسٹر صاحب ایسی باتوں میں امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک کی مثال دیتے ہیں۔ دنیا کی سپر طاقت کے ماڈل کو فالو کرنا اچھی بات ہے مگر ان ممالک اور پاکستان کی معاشی حالت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔وہاں طلباء کو بلاسود قرضے دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔ ریسرچرز کو معقول اعزازیہ دیا جاتاہے تاکہ وہ اپنی تحقیق کو بطریق احسن انجام دے سکیں۔پاکستان میں بلاسود تو کیا

طلبہ کو آسان شرائط پر بھی قرضہ نہیں دیا جاتا۔ ریسرچرز کو جتنا خوار ہمارے ہاں کیا جاتا ہے شاید ہی کہیں اور یہ سلوک کیا جاتا ہو۔ یہاں ایسا ماڈل فالو کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
قوم کے معماروں کو’ امریکہ اور برطانیہ جیسے تعلیم یافتہ ممالک میں ہمارے ممبران اسمبلی سے زیادہ پروٹوکول اور عزت ملتی ہے۔ہمارے ہاں تو اساتذہ کے ساتھ بھی ہاتھ ہوگیا۔ جو اساتذہ اس سے پہلے محکمہ ہائیر ایجوکیشن کے ملازمین تھے ان کو بیک جنبش قلم ایک سال کی ڈیپوٹیشن پر یونیورسٹی آف چکوال کے حوالے کر دیا۔ اساتذہ کے احتجاج پر یقین دہانی کرائی گئی کہ تنخواہ ہر مہینے اکاؤنٹ آفس ہی ادا کرے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور اس ماہ اساتذہ بغیر تنخواہ کے صرف اس اعزازیے پر گزارہ کر رہے ہیں کہ وہ ایک یونیورسٹی کے ملازم ہیں۔

لاک ڈاؤن سے قبل کالج کی کلاسز، ہر اہم میٹنگ اور وزٹ میں ایک ایسی عظیم ”ہستی“ کو دیکھا جاتا تھا جن کی اہلیت تو کیا تعلیمی قابلیت بھی کسی کالج میں پڑھانے کی نہیں بس ایک ہی گُر ہے کہ ”صاحب بہادر“ کے راستے میں آنکھیں تک بچھا دیتے ہیں۔ ایسے طوطا فال نکالنے والوں کو اگر کلاس میں لا کر کھڑا کر دیا جاۓ گا ،تو پھر بچوں کے مستقبل کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ایک اور بہت بڑا سکینڈل جس پہ توجہ ضرورت ہے کہ یونیورسٹی میں بغیر کسی منظوری اور کاغذی کارروائی کے مبینہ طور پر منسٹر صاحب کا نام لے کہ کچھ لوگ کالج کی پرانی آریہ ہائی سکول کی عمارت پر قابض ہیں جہاں فائن آرٹس کے نام سے ایک نیا ڈیپارٹمنٹ کھولا گیا جس کا نہ کبھی ذکر سنا اور نہ کبھی پڑھا۔ اس غیر قانونی ڈیپارٹمنٹ کی اب تک کی کارکردگی بس یہی ہے کہ چند لڑکے اور لڑکیاں یہاں خلوت میں بیٹھے رہتے ہیں اور بس۔۔۔ اس ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی غیر اخلاقی سرگرمیاں بھی زبان زدِ عام ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

منسٹر صاحب کو چاہیے کہ تھوڑی توجہ یونیورسٹی کی جانب دیں اسے خالصہ ہائی سکول سے کالج کا درجہ راجہ سرفراز خان نے دلوایا تھا یہی وجہ ہے کہ آج بھی لوگ انہیں اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔اگر آج یونیورسٹی کے مسائل حل نہ کیے گئے تو یہ بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔ یونیورسٹی کے ارباب اختیار کا قبلہ ابھی سے درست نہ ہوا تو پھر خاکم بدہن کہیں آغاز سے پہلے انجام کی طرف قدم نہ بڑھ جائیں۔ اگر ایسا ہوا تو چکوال کے ہزاروں بچوں کا مستقبل توتباہ ہوگا ہی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ راجہ یاسر بھئ قصہ پارینہ بن جائیں گے۔ مگر راجہ سرفراز خان کا نام شاید تب بھی زندہ ہو کہ انکا کام بول رہا ہوگا جیسے آج 71 سال بعد بھی بول رہا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply