• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیوبا، لبرل ازم کے مغالطے اور سفید جھوٹ۔۔۔شاداب مرتضی

کیوبا، لبرل ازم کے مغالطے اور سفید جھوٹ۔۔۔شاداب مرتضی

پاکستانی لبرل مجموعی طور پر اور ان کا ایک حصہ خصوصیت کے ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کا حامی اور سوشلزم کا مخالف رہتا ہے اور پاکستان کے مسائل کا حل امریکہ یا برطانیہ جیسے معاشی اور سیاسی جمہوری نمونوں میں تلاش کرتا رہتا ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد ایک عرصے تک تو پاکستانی لبرل ازم اس عالمی خام خیالی کا حصہ رہا کہ سوشلزم کرّہ ارض سے مٹ چکا ہے لیکن کیوبا اور شمالی کوریا میں سوشلزم کی موجودگی کی آگاہی ملنے کے بعد اس نے سرمایہ داری کی حمایت اور سوشلزم کی مخالفت جاری رکھنے کے لیے پینترا بدل کر یہ نکتہ نظر اختیار کیا کہ موجودہ سوشلسٹ ملک سرمایہ دار ملکوں، خصوصاً امریکہ اور برطانیہ یا  سکینڈینیویائی ملکوں کے مقابلے میں غیر جمہوری اور پسماندہ ہیں۔

اسی سلسلے میں لبرل ازم کے ایک مبلغ جناب ارشد محمود صاحب نے اپنی فیس بک پوسٹوں میں آج کل سوشلزم اور کمیونزم پر ابابیلی سنگ باری کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کو انسان دوست اور ترقی یافتہ دکھانے کی خاطر اور سوشلزم کو انسانیت اور سماجی ترقی کا دشمن دکھانے کی خاطر انہوں نے سیاسی آزادی، صحت، تعلیم، رہائش، دولت اور تجارت وغیرہ کے حوالے سے امریکہ اور کیوبا کا ایک نام نہاد سطحی موازنہ پیش کیا ہے جس میں حسب روایت کیوبا کو غیر جمہوری اور پسماندہ جبکہ امریکہ کو جمہوریت پسند اور ترقی یافتہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آئیے ذرا اس موازنے کا جائزہ لیں۔

مصنف:شاداب مرتضٰی

سیاسی آزادی: ارشد محمود کو اعتراض ہے کہ کیوبا میں ساٹھ سال سے صرف کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ وہ بھی اس عام سوشلسٹ مخالف لبرل مغالطے میں ناقابل اصلاح حد تک مبتلا ہیں کہ اگر کیوبا کے عوام (جہاں ووٹنگ کا تناسب 98 فیصد تک ہوتا ہے اور جس کے انتخابی نظام کو دنیا کا بہترین انتخابی نظام تسلیم کیا جاتا ہے) کمیونسٹ پارٹی کو ہی منتخب کرتے ہیں تو کیوبا کا سیاسی نظام غیر جمہوری ہے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ کیوبا کے الیکشن میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں حصہ لیتی ہیں۔ اگر عوام کمیونسٹ پارٹی کو ہی منتخب کرتے ہیں تو کسی “جمہوریت پسند” کو اس پر اعتراض کیوں ہے؟ اس اعتراض کے پیچھے سوشلزم کے خلاف یہ سرمایہ دارانہ تعصب کارفرما ہے کہ سوشلسٹ ملکوں کے عوام ہر پانچ سال بعد کسی دوسری پارٹی کو، یعنی سرمایہ داروں کے کسی ایک یا دوسرے سیاسی گروہ کو اپنے استحصال کا موقع کیوں نہیں دیتے۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ کیوبا کے عوام آخر کمیونسٹ پارٹی کو ہی کیوں منتخب کرتے ہیں؟

تعلیم: کیوبا میں ہر سطح کی تعلیم مفت ہے کیونکہ کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کمیونسٹ اصول کے عین مطابق تعلیم کو ہر شہری کا حق سمجھتی ہے اور شہریوں کو تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری سمجھتی ہے پرائیوٹ سیکٹر یعنی سرمایہ داروں کی نہیں جو تعلیم کو کاروبار بنا کر اس سے منافع کماتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام کی بڑی تعداد  غیر تعلیم یافتہ رہ جاتی ہے کیوں کہ پرائیوٹ تعلیمی اداروں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتی اور سرکاری تعلیمی ادارے تباہ حال اور اس قدر ناکافی ہوتے ہیں کہ عوام کی تعلیمی ضرورت پوری نہیں کرسکتے۔ کیوبا کے برعکس امریکہ میں صرف ہائی  سکول تک تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اعلیٰ تعلیم پرائیوٹ ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر تین میں سے ایک امریکی ہائی  سکول تک آکر تعلیم چھوڑ دیتا ہے۔ 44 ملین امریکی تعلیمی قرضوں میں دھنسے ہوئے ہیں جس کا حجم 1.6 ٹریلین ڈالر ہے۔ قرضے اتارنے کے لیے طلباء کو دو سے تین نوکریاں کرنی پڑتی ہیں جبکہ تعلیم کا کاروبار کرنے والے امریکی سرمایہ دار دولت میں کھیل رہے ہیں. 32 ملین امریکی ناخواندہ ہیں۔ سرکاری اساتذہ تین نوکریاں کرتے ہیں لیکن اپنے اخراجات پورے نہیں کرپاتے۔

صحت: کیوبا میں صحت ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اسی لیے حکومت تمام شہریوں کو صحت و علاج کی مدت سہولیات فراہم کرتی ہے۔ امریکہ میں صحت و علاج کے شعبے پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ صرف 21 فیصد بنیادی صحت اسپتال سرکاری خرچے پر چلتے ہیں۔ ہیلتھ کیئر انشورنس مکمل طور پر سرمایہ دار کمپنیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ خطرناک بیماریوں کا علاج عموماً صرف پرائیوٹ ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔ علاج اور دواؤں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ امریکہ میں کینسر کی ادویات کا فی مریض سالانہ خرچہ ایک لاکھ ڈالر تھا جو اب بڑھ کر چار لاکھ ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ کیوبا میں ہر قسم کے کینسر کا علاج اور دوا مفت ہے۔

رہائش: سوشلزم میں ہر شہری کو گھر دینا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے کیوبا میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت تمام شہریوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ ارشد محمود کہتے ہیں کیوبا میں لوگوں کے پاس گھر ہیں مگر خستہ حالت میں ہیں لیکن کاریں بہت کم لوگوں کے پاس ہیں۔ اس تضاد کو وہ کیسے دیکھیں گے کہ امریکہ میں 20 ملین مکان خالی پڑے ہیں اور 3.4 ملین لوگ بے گھر ہیں۔ حکومتی سروے کے مطابق امریکہ میں ہر رات پانچ لاکھ سے زیادہ بے گھر لوگ سڑکوں، پلوں، اسٹیشنوں، گاڑیوں وغیرہ میں رات گزارتے ہیں کیونکہ وہ گھر کا کرایہ برداشت نہیں کرسکتے۔ 87 فیصد گھرانے مقروض ہیں جن کا مکان کی خاطر لیے گئے قرض کا حجم تاریخ کی بلند ترین سطح پر، قریبا 9 ٹریلین ڈالر تک، پہنچ چکا ہے۔ امریکہ میں گھروں کی تعمیر اور فراہمی سرمایہ دارانہ کاروبار ہے اس لیے امریکہ کہ عوام اتنی بڑی تعداد میں رہائش کے بنیادی حق سے محروم ہے۔

روزگار اور دولت کی تقسیم: سوشلزم میں روزگار دینا بھی ریاست کی  ذمہ داری ہے۔ کیوبا کی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت شہریوں کے لیے روزگار کا بندوبستی کرتی ہے۔ امریکہ میں ریاستی انتظامی محکموں کے علاوہ شہریوں کو روزگار کی فراہمی بھی سرمایہ داروں پر چھوڑ دی گئی ہے۔ کہنے کو تو امریکہ میں بیروزگاری کی شرح قریبا 4 فیصد ہے لیکن قریبا 13 ملین امریکی بنیادی اخراجات پورے کرنے کے لیے ایک سے زیادہ نوکریاں کرتے ہیں۔ 10 فیصد لوگوں کے پاس ملک کی 70 فیصد اور صرف 1 فیصد کے پاس ملک کی 32 فیصد دولت ہے۔

تجارت اور سیاحت: ارشد محمود نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ سے آنے والے سیاحوں کی وجہ سے کیوبا کی معیشت میں کچھ بہتری آئے ہے حالانکہ امریکہ نے اپنے شہریوں پر کیوبا میں سیاحت کی غرض سے جانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ جن 13 کیٹگریز میں امریکی شہری کیوبا جا سکتے ہیں ان میں سیاحت شامل ہی نہیں ہے۔ حسب فطرت وہ یہ ذکر کرنا بھی بھول گئے کہ جمہوریت، برابری اور آزاد مقابلے کے دنیا میں سب سے بڑے چیمپئن اور ان کے آئیڈیل امریکہ نے معاشی طور پر کیوبا کا گلہ گھونٹنے کے لیے گزشتہ ستر سالوں سے اس پر عالمی تجارتی اور اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن کی وجہ سے کیوبا اور دوسرے ملک ایک دوسرے کے ساتھ تجارت نہیں کر سکتے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ان پابندیوں سے کیوبا کی معیشت کو اب تک 130 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکہ جمہوری اور ترقی یافتہ ملک ہے لیکن اپنے عوام کو تعلیم، علاج، صحت، گھر اور روزگار جیسے بنیادی انسانی حقوق نہیں دیتا لیکن پھر بھی اسے جمہوری اور ترقی یافتہ کہا جاتا ہے۔ اور کیوبا جو عوام کو یہ تمام حقوق دیتا ہے وہ غیر جمہوری اور پسماندہ ملک ٹھہرتا ہے! کیوں؟ اس لیے کہ جمہوریت اور سماجی ترقی کے بارے میں لبرل ازم کا کانا تصور یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقے کے جبر و استحصال پر مبنی سیاسی نظام اور اس سے حاصل کی جانے والی دولت ہی جمہوریت اور ترقی کو ناپنے کا پیمانہ ہے۔ اس سرمایہ دارانہ جمہوریت میں عوام کس حال میں ہے یہ دیکھنا ضروری نہیں۔ لبرل ازم کو سوشلزم سے اللہ واسطے کا بیر اس وجہ سے ہے کہ سوشلزم سرمایہ دارانہ استحصال کو ختم کر کے سماجی وسائل اور دولت کو محنت کش عوام کی ضروریات کی تکمیل پر صرف کرتا ہے یعنی انہی لوگوں پر جن کی محنت سے یہ دولت پیدا ہوتی ہے۔ کیوبا کی عوام آخر کمیونسٹ پارٹی کو منتخب کیوں نہ کرے جس نے انہیں یہ تمام انسانی حقوق دیے ہیں اور امریکہ کی منافقانہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی تمام۔تر سازشوں کے باوجود ان کی فراہمی کا سلسلہ قائم رکھا ہوا ہے؟

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply