کشمیر، رام اور راون ۔۔۔حسن نثار

آج آپ کو سنانی تو اک بھولی بسری بہت پرانی نظم ہے لیکن کہانی لمبی ہو جائے گی کیونکہ اس نظم کا شاعر بیک وقت بہت مشہور بھی ہے اور بہت گمنام بھی، نام تھا اس کا بابا عالم سیاہ پوش۔

بابا عالم سیاہ پوش بہت عالم فاضل شخص تھا جس کا پاکستان کی نوزائیدہ فلم انڈسٹری میں طوطی بولتا تھا۔ بابا بارے مشہور تھا کہ نوجوانی میں انہیں کسی ہندو لڑکی سے پیار ہوگیا لیکن شادی نہ ہو سکی، وہ کسی اور کی ہو گئی۔

عالم نے اس دن کے بعد سے سیاہ پوشی اختیار کرلی، دنیا داری ختم کردی، شاعری شروع کردی۔ شاعری کی خوشبو پھیلی تو دھیرے دھیرے بابا عالم سیاہ پوش کے نام سے مشہور ہوگئے۔ فلم والوں نے کھینچا تو ناں ناں کرتے کھنچتے چلے گئے اور فلم انڈسٹری کو بہت سی یادگار فلمیں دے گئے۔

میں نے تو ظاہر ہے انہیں دیکھا نہیں۔ علی سفیان آفاقی مرحوم بتایا کرتے کہ بابا جی تھوڑا سا ہکلاتے بھی تھے لیکن جہاں کہیں اٹکتے فوراً اپنی انگلی جبڑے پر مارتے تو گفتگو میں روانی آجاتی۔اب چلتے ہیں نذیر صاحب کی طرف جو ہماری فلم انڈسٹری کے بانی پروڈیوسر، ڈائریکٹر، ہیرو اور اپنے وقت کی مشہور ترین ہیروئن سورن لتا کے شوہر تھے۔

یہ وہی سورن لتا ہیں جو درپن صاحب کے مقابل فلم ’’نور اسلام‘‘ میں ہیروئن تھیں اور یہ وہی فلم ہے جس کی نعت ’’شاہِ مدینہ! یثرب کے والی سارے نبی تیرے در کے سوالی‘‘ آج بھی بیحد مقبول ہے۔

نذیر صاحب نے پاکستان آتے ہی فلم انڈسٹری کو سہارا دینے کے لئے ’’سچائی‘‘ پروڈیوس کی جو زیادہ کامیاب نہ ہو سکی تو آپ نے اگلے سال ’’پھیرے‘‘ بنائی جس نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔

یہ 1949میں ریلیز ہوئی جس کے گیت آج بھی بیحد مقبول ہیں۔ ’’پھیرے‘‘ کے بعد ’’لارے‘‘ بنائی جس کا ہر گانا انمول اور لازوال ہے۔ دونوں کے موسیقار بابا چشتی تھے۔

انہیں بابا چشتی کے لئے 70کی دہائی کے وسط میں میں نے بھی اک فلم ’’سلطانہ ڈاکو‘‘ کے گیت لکھے جس کے ہیرو سدھیر اور ہیروئن نیلو تھیں۔

بہرحال بات ہورہی تھی بابا عالم سیاہ پوش کی جنہیں نذیر صاحب نے ’’لارے‘‘ کے رائٹر کے طور پر سائن کیا۔ بابا عالم نے اس فلم کے لئے اک ایسا کردار متعارف کرایا جو مخصوص قسم کی بہت ہی مشکل زبان بولتا ہے۔ نذیر صاحب نے بطور ڈائریکٹر اس کردار کے لئے بہت سے لوگوں کو ٹرائی کیا لیکن بات نہ بنی کیونکہ بابا عالم بھی بطور رائٹر انہیں ریجیکٹ کردیتے،

پھر ایک دن نذیر صاحب نے بابا عالم کو اپنے دفتر مشاورت کے لئے بلایا اور دروازہ اندر سے بند کرلیا۔ عجیب و غریب آوازیں آنا شروع ہوگئیں کہ کچھ دیر بعد نذیر صاحب اور بابا عالم کمرے سے باہر نکلے تو ان کے پیچھے ایک حجام بھی تھا۔

بابا عالم سیاہ پوش کا سر پورا منڈا ہوا تھا، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ مسلسل بڑبڑارہے تھے کہ نذیر صاحب نے ان کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے اور نذیر صاحب کا کہنا تھا کہ زیادتی بابا عالم نے کی جو اتنا مشکل کردار لکھ مارا جس کی زبان ہی کوئی نہیں بول سکتا اس لئے اب بابا ہی یہ کردار ادا کرے۔

بابا نے واقعی اس کردار میں جان ڈال دی، آپ آج بھی ’’لارے‘‘ دیکھ سکتے ہیں۔چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ میرا نذیر صاحب اور سورن لتا صاحبہ سے کیا تعلق ہے۔ پہلا یہ کہ شہرۂ آفاق ککی بھائی یعنی میجر(ر) اختر نذیر ان کے بیٹے ہیں۔

’’مغل اعظم‘‘ کے ہدایتکار کے آصف ککی بھائی کے سگے ماموں تھے تو نذیر صاحب سے ان کا رشتہ بھی واضح ہے۔ نذیر صاحب کی بیٹی یعنی ککی بھائی کی ہمشیرہ مرحومہ دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی، ناصر خان کی اہلیہ تھیں جو پہلی پاکستانی فلم ’’تیری یاد‘‘ کے ہیرو تھے۔

یوں سورن لتا ککی بھائی کی سوتیلی والدہ ہوئیں لیکن میرا نذیر صاحب اور سورن لتا صاحبہ کے ساتھ اک اور تعلق بھی ہے اور وہ یہ کہ اردو شاعری کے سنگ میل ن م راشد صاحب کا بیٹا شہر یار راشد یونیورسٹی میں ہمارا دوست تھا جو بعد ازاں فارن سروس میں چلا گیا اور پھر جوانی میں ہی اللہ کو پیارا ہوگیا۔

شیری یعنی شہریار راشد کی شادی نذیر صاحب، سورن لتا صاحبہ کی صاحبزادی سے ہوئی تو یہ تھی اس نظم کے ساتھ وابستہ کہانی بلکہ کہانیاں جو عشروں پہلے بابا عالم سیاہ پوش نے سپرد قلم کی اور پورے برصغیر میں زبان زد عام ہوگئی لیکن آج شاید کسی کو یاد بھی نہیں۔اس نظم کا عنوان تھا ’’کلجگ‘‘ جسے آپ کے ساتھ شیئر کرنے کے لئے مجھے کتنے پاپڑ بیلنا اور کتنے زخم ہرے کرنا پڑے ہیں

؎میرے کھلونے رنگ رنگیلےہنسے جوانی بچپن کھیلےرام اور سیتا چھ پیسے میں کرشن اور رادھا 6پیسے میں میں نے پکارا راون دے دوبولا تین آنے میں لے لومیں نے کہا اے مورت والےبھولی بھالی صورت والے رام اور سیتا چھ پیسے میں کرشن اور رادھا چھ پیسے میں لچھمن سستا شِوجی سستاراون ہے کیوں اتنا مہنگا؟

بولا یہ ہیں چھوٹے چھوٹےبنتے ہیں تھوڑی مٹی سےاس کو گر مہنگا نہ بیچوںکنبہ اپنا کیسے پالوں؟پوچھا اسے بناتے کیوں ہو؟اتنا مال لگاتے کیوں ہوسستا بیچو رام کو بیچورادھا بیچو، شام کو بیچوبولا اس کی مانگ بڑی ہےگھر گھر مورت یہی پڑی ہےچلا گیا جب مورت والا تنہائی میں میں نے سوچاسیتا،

رام کا گیا زمانہ سچ کو دنیا نے نہ ماناراون کا ہے راج جگت میںہر اک ہے محتاج جگت میںپاپ کی نیا تیر رہی ہےسانچ کی کشتی ڈوب رہی ہےسیتا رام کے گئے پجاریاب ہے راون کی مختاریانسانوں کے انسان دشمن رام گئے اور رہ گئے راون پھینکے بم اور ’’پیلٹ‘‘ مارےراون کے ہیں وارے نیارے قارئین! بابا عالم سیاہ پوش کی روح سے معافی چاہتا ہوں کہ آخری شعر میں میں نے’’چاقو‘‘ کی جگہ’’پیلٹ گن‘‘ ڈال دی جو آج کا راون کشمیر میں استعمال کررہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ  روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply