کرکٹ، کالعدم عشاق اور کیلا ریاست۔۔عامر فاروق

کرکٹ کی جنگ جیت لی، ریاست کے سربراہ سے سپہ سالار تک نے قوم کو مبارک باد بھی دے دی، میمز بن گئیں، مٹھائیاں بٹ گئیں اور بھنگڑے ونگڑے بھی ڈال بیٹھے۔ بس؟ یا ابھی توپیں تازہ دم اور گولہ بارود باقی ہے؟ اگر دو چار گھڑی کی فرصت ہے تو منہ کا ذائقہ بدلیں؟

کرکٹ کے ساتھ ساتھ لاہور، جی ٹی روڈ اور اسلام آباد پنڈی میں ایک میچ اینیمیٹڈ عاشقوں اور ریاست/حکومت کے بیچ بھی چل رہا تھا۔ اس میں مجبور تماشائی پاکستانی شہری اور وہ پولیس اہلکار تھے جن کی ڈیوٹی سرکار نے لگا دی تھی کہ عشاق کی راہ میں کھڑے ہو جائیں۔

راستے بند تھے اور ہر قسم کے روڈ یوزرز بشمول مریض، دفاتر میں کام کرنے والے، کاروباری افراد، طلبا، عام شہری  ذلیل و خوار تھے۔

بس ابہام تھا اور ذہنوں میں سوال تھے کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کب بیٹھے گا، تب تک کیا ہو گا؟ ان سوالوں کا جواب کہیں سے نہ مل رہا تھا۔

ہم سے شہریوں اور ووٹرز کو کیا ملنا تھا کہ جن کے ووٹ تک کو ریاستی اہلکار جب چاہیں “کم فہمی اور نامعقولیت” قرار دے کر “درست بکسے” میں ڈال دیں۔

حد تو یہ کہ جواب ان ریاستی ملازموں تک کو معلوم نہیں  تھا جو سڑک پر ریاست کی نمائندگی کرنے ڈیوٹی پر کھڑے تھے۔ ان میں سے کچھ عاشقوں کے جذبے و غیرت کے فیول سے چلتی گاڑیوں کی ٹکر سے مر گئے اور کچھ کے جسم کٹ پھٹ گئے۔

یہ وہ عاشق تھے وہ جو کبھی ریاست کے لیے “ہمارے اپنے لوگ” کہلائے اور کبھی “کالعدم” قرار پائے لیکن انتخاب میں حصہ لینے کے اہل بھی سمجھے گئے۔ ان غازی اور پراسرار بندوں کی حقیقت کیا ہے، اس سے ریاست کی نمائندہ پولیس بھی انجان تھی۔ اس لیے بصد احترام ان کی سواریوں کی ٹکروں سے زخم اٹھا رہی تھی اور مر رہی تھی۔

ان کالعدم عشاق سے دوبئی کرکٹ میچ سے قبل از وقت لوٹنے والے ایک تماشائی نے مذاکرات کیے۔ قوم کو مبارک باد دی گئی۔ عشاق مریدکے میں رستہ بند کر کے بیٹھنے کے حقدار قرار پائے۔ ریاست نے کالعدم عشاق کے مطالبات پر غور کرنے کا وعدہ کیا۔

یہ منظر آج کا نہیں۔ ہمیشہ سے دیکھنے کو ملتا رہا ہے۔ ڈیجا وو کیفیت ہم سے دور جا کر نہیں دے رہی۔ ہر چند ماہ، چند برس، چند دہائیوں کے بعد ہم محاوراتی گدھی کی طرح اسی بوہڑ کے نیچے خود کو کھڑا پاتے ہیں۔ ڈیجا وو کی وضاحت کے لیے پوسٹ میں شامل تصویر پر نظر ڈالیں۔

تصویر ڈی جی خان کی ہے۔ اسی سال کی “بہار رُت” کی ہے۔ اپریل میں لاہور سے اعلان ہوا اور ملک بھر میں “عشاق” سڑکوں پر نکل آئے۔ سما ء ٹی وی کے کیمرے نے “یہودی” پولیس افسر کی عاشقوں سے گالیاں، جوتے، ڈنڈے اور تھپڑ کھاتے ویڈیو ریکارڈ کر لی۔ یہ سٹل اسی ویڈیو سے ہے۔

معلوم نہیں کن والدین کا مان، کس بیوی کا محبوب ساتھی، کس اولاد کا فخر باپ، پنجاب پولیس کا یہ ملازم اس گھڑی کس سوچ میں ڈوبا ہوا تھا؟

شاید ہر وقت اپنی عزت اور ساکھ کی فکر میں گھلتے مرتے مڈل کلاسیوں کی صرف یہ سوچ رہا ہو کہ اگر شام تک بچ کر گھر پہنچ پایا تو میرے بچے مجھ سے اور میں ان سے کیسے نظریں ملائیں گے کہ انہوں نے میڈیا پر مجھے گالیاں اور مار کھاتے دیکھا ہو گا؟ کیا سوچیں گے ہمارا باپ کتنا کمزور ہے۔ میری موجودگی میں خود کو محفوظ سمجھنے والی بیوی مجھے اتنا غیر محفوظ دیکھ کر کیا سوچتی ہو گی؟ ماں کتنا رو رہی ہو گی میرے ماتھے سے خون بہتا دیکھ کر؟ میرا باپ کس طرح میری ماں سے نظریں چرا رہا ہو گا اور چیخ روکنے کی کوشش کرتا ہو گا؟

یا ہو سکتا ہے فلسفیوں کی طرح یہ سوچ رہا ہو کہ کیلا ریاست کیا ہوتی ہے؟ ریاست کے ملازمین میں بھی اس طرح فرق کیوں روا رکھا جاتا ہے جیسے سگے اور سوتیلے بچے ہوں؟

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ نہ کچھ تو سوچ ہی رہا ہو گا، آخر سانس لیتا انسان ہے کوئی صرف ٹیکس لیتی ریاست تو نہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply