کتابیں اور فلمیں۔۔ ایاز مورس

میں اپنے ویک اینڈ کو کتا بوں اور فلموں سے سیلیبریٹ کرتا ہوں۔کتابیں خرید نے کا شوق تو بہت تھا لیکن پڑھنے سے موت آتی تھی،پھر آہستہ آہستہ یہ ’لت‘بھی لگ گئی اور اب یہ ایک نشہ کی صورت اختیار کر گئی ہے۔انٹر نیٹ اور سمارٹ فون نے ہماری زندگی کے طور طریقوں کو بہت تبدیل کر دیا ہے اور رہی سہی کسر فیس بک،انسٹاگرام،ٹوئیٹراور واٹس ایپ نے پوری کردی ہے۔ہماری معلومات اور علم کا واحد ذریعہ اب اسمارٹ فون ہی بن گیا ہے۔میں ذاتی طورپر سوشل میڈ یا ایکٹیو سٹ ہوں اور سوشل میڈیا کے بھرپور اور موثر استعمال کا بے حد قائل ہوں۔میرے خیال میں اس وقت سوشل میڈیا ایک بہترین پاور فل فیکٹر بن چکا ہے،جس کے ذریعے اب ہر انسان اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہے۔سوشل میڈ یا،رابطوں،معلومات، اظہارِرائے اور حقائق تک رسائی کا ذریعہ بن چکا ہے۔

اس بات سے کوئی ذی شعور انسان انکار نہیں کر سکتا کہ اپنے معاشرے پر سوشل میڈیا کے اثرات کو نظر انداز کریں۔یہ ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ واضح کر نا تھا کہ نہ تو میں سوشل میڈیا کے استعمال کے خلاف ہوں اور نہ اس آرٹیکل کا مقصد سوشل میڈیا کے فوائد ونقصانات بیان کرنا ہے،(یہ الگ بات ہے کہ ہمیں میٹرک اور انٹر کے امتحان میں انگریزی کے پرچے کیلئے سائنس اور ٹی وی /انٹرنیٹ کے فوائد ونقصانات رٹا لگا کر یاد کرنے کی اتنی عادت اور پریکٹس ہو گئی ہے کہ ہم کسی بھی چیز کے فوائد کم اور نقصان زیادہ لکھ سکتے ہیں)۔

خیر آج  کی تحریر  کا مقصد کتابوں اور فلموں کی افادیت بتانا بھی ہر گز مقصود نہیں، بلکہ یہ معمولی سی کوشش ہے کہ وہ والدین،اساتذہ اور پرنسپل صاحبان جو کیرئیر کونسلنگ سیشن کے دوران بچوں میں اچھی کتابیں پڑھنے اور ادب سے دلچسپی قائم رکھنے کیلئے مشورہ مانگتے ہیں،اُن کی تھوڑی سی رہنمائی کی جائے ۔ حقیقت میں یہ والدین اوراساتذہ صرف بچوں کے امتحانات میں اچھے نمبروں کے لئے کوئی جادوئی فارمولا چاہتے ہیں تاکہ اُن کے بچے اے ون گریڈ حا صل کرکے اُن کا نام روشن کریں۔مجموعی طور پر یہ بات طے ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتابیں پڑھنے کا رحجان بہت محددو ہے،اور اچھی فلمیں دیکھنے کیلئے ہماری کوئی رہنمائی ہی نہیں کی جاتی۔آپ حیران ہوں گے کہ دُنیا میں کُل 434 شعبوں کیلئے کئی فلمیں  موجود ہیں لیکن ہمارے اساتذہ اور اسٹوڈنٹس کو صرف تارے زمیں پراور3 Idiots کے علاوہ شاید ہی چند کا پتہ ہو۔

کتابیں تو شاید ہمیں اب زہر لگتی ہیں،ہم صرف سلیبس کی حد تک کتابیں پڑھتے ہیں (سلیبس کی بھی مکمل کتابیں شاید ہی 10فیصد طالب علم پڑھتے ہوں ورنہ ماڈل پیپر ز اور 5Years نے کام بہت آسان کر دیا ہے۔)
ہمارے معاشرے میں انقلابی تبدیلی کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ کتاب کی رونمائی میں کپڑوں کی لان کی سیل سے زیادہ رش ہو۔معروف رائیٹر Jhumpa Lahiri کا یہ جملہ مجھے بہت پسند ہے۔”کتابوں کے متعلق یہ بات بہت اچھی ہے، کہ یہ آپ کو بغیر پاؤں ہلا ئے سفر کروا دیتی ہیں۔“
“That’s the thing about books. They let you travel without moving your feet.”
معروف کالم نگار جناب یاسر پیرزادہ نے اپنے آرٹیکل ”اب کتابیں کون پڑھے”میں انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔”کتابیں پڑھے بغیر بھی زندگی گزاری جا سکتی ہے اور کروڑوں لوگ گزار رہے ہیں مگر ایسی زندگی میں کوئی نظریہ ہو تا ہے نہ کوئی سوچی سمجھی رائے،کھوکھلی دانش اور جملے بازی پر گزارا کرتے ہوئے اگر کوئی شخص کسی  جانور  کی طرح زندہ رہنا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے،ایسے بندے کا کچھ نہیں بگاڑا جا سکتا۔“

میرا آپ کو مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ کتابیں پڑھنے کی عادت  اپنانا  چاہتے ہیں تو میرے خیال میں سب سے پہلے باقاعدگی سے اخبار پڑھنے، پھر کالم پڑھنے کی عادت ڈالیں،پھر اپنے مزاج،پروفیشن اور پسند کے مطابق پڑھنا شروع کریں۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کتابیں پڑھنے کی عادت دیگر عادتوں کی طرح اتنی آسانی سے نہیں بنتی، اس لئے ہمت نہ ہاریں،وقت،محنت اور جذبے کے ساتھ ریڈرز کلب اور علمی وادبی ذوق رکھنے والے افراد کی محفل میں بیٹھیں۔ہمارے ہاں بڑی آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ جناب مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق تو ہے لیکن آج کل کتابیں بہت مہنگی ہیں اور میرے پاس وقت بھی کم ہو تا ہے۔یہ بات کسی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اگر انسان کو کسی چیز کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے اور اُسے شوق ہو تو یہ ساری رُکاوٹیں دُور ہو جاتی ہیں۔اپنی زندگی کو خوشگوار اور آسان بنانے کیلئے جہاں کامیاب لوگوں کا مشورہ ہے کہ اچھے ددستوں کو شامل کریں، وہیں اچھی کتابوں کے ساتھ ساتھ اچھی فلموں کی بھی بہت ضرورت ہے۔(اگر کوئی محترمہ یا حضرت خواہش رکھتے ہیں کہ اُن کو اچھی فلموں کی فہرست فراہم کی جائے تو میں نے300فلموں کی فہرست بنائی جس میں سے ابھی تک میں نے250 کے قریب دیکھی ہیں۔آپ کو مل سکتی ہے۔)

فلمیں میری ذاتی زندگی میں بہت مددگار ثابت ہوئی ہیں۔اکثر اوقات جب میں ایک ہی طرح کی روٹین اور زندگی سے تنگ آ جا تا ہوں تو یہ فلمیں میری مدد کرتی ہیں،میرے اندر حوصلہ،ہمت اورچیزوں کو مختلف زاویے سے دیکھنے میں مدد کرتی ہیں۔میں کتابیں بھی خریدتا ہوں اور میری کوشش ہو تی ہے کہ جیسے ہی کوئی کتاب نئی خریدی جائے اُسے فوراً ختم کیا جائے تاکہ جب وہ الماری کی زینت بنے تو وہ پڑھی جا چکی ہو۔آج ہر انٹر نیشنل اور بیسٹ سیلر بُک انٹرنیٹ پر PDFمیں مخصوص ویب سائٹس پردستیاب ہیں،اگر نہ بھی ہوں تو,E-Bookیا
Audio، Book Summary یا پھر TEDx ٹاک پر اُسکی سمری مل سکتی ہے۔والدین سے درخواست ہے کہ وہ خود بھی کتاب پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اپنے بچوں کو بھی کتاب پڑھنے کیلئے حوصلہ افزائی کریں۔اگر بل گیٹس،مارک زگربرگ اور باراک اوبامہ کتاب پڑھنے کیلئے وقت نکال سکتے ہیں تو پھر میں اور آپ کیا چیز ہیں۔یہ صرف اور صرف ترجیحات کی بات ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویسے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ”ایک لائبریری دماغ کیلئے ایک ہسپتال ہے۔“
اولف بیلا ک نے اس خوبصورت حقیقت کو نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے۔”کتاب نہ بھوک کا ازالہ کرتی نہ محرومی کا نہ تو یہ دُنیا سے نابرابری کا خاتمہ کرتی نہ نا انصافی کا۔ ہاں یہ ہمیں سمجھ بوجھ تسکین اور خواب دیکھنے کی اہلیت ضرور  مہیا  کرتی ہے۔“

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply