ڈھاکہ لینن گراڈ نہ بن سکا۔۔اورنگزیب وٹو

سقوط ڈھاکہ ہمارے اجتماعی قومی شعور اور لاشعور کا ایک ایسا حصہ ہے جو ایک مدت تک ہمارے شناختی،تہذیبی،سیاسی اور ریاستی بیانیے پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔سقوط ڈھاکہ کی وجوہات،اجتماعی جرائم اور قومی غفلت کا جائزہ لے کر ہی ہم اپنے ماضی کے محاسبے کے  ذریعے حال اور مستقبل کا رخ متعین کر سکتے ہیں۔تقسیم برصغیر ایک عظیم سیاسی و تہذیبی انقلاب تھا جس نے جنوبی ایشیا میں ایک عظیم ملک پاکستان کو جنم دیا۔جیسے ہی نوآبادیاتی سامراج نے اس خطے کو چھوڑا وہ تمام تضادات جو بیرونی طاقت کی موجودگی میں پس پردہ چلے گئے تھے سر اٹھانے لگے۔پاکستان میں ان تمام تضادات کو جن کا تعلق بنیادی طور پر معاشی انصاف سے تھا،نسلی لسانی اور جغرافیائی اختلافات کو مذہب کے نظریہ قومیت کے ذریعے دبا دیا گیا لیکن مذہب کے نظام انصاف اور معاش کے ذریعے جس مثالی معاشرے کے قیام کی بات کی گئی تھی اس کی بجائے مختلف طبقات کے مابین طاقت کے حصول کی جنگ چھڑ گئی۔نوآبادیاتی فوج،استعماری سوچ کی حامل نوکر شاہی،رجعت پسند مذہبی گروہ،جاگیردار سیاستدان اور لادین عناصر اپنی اپنی بالادستی اور اپنے اپنے حصے کے حصول کے لیے دست و گریباں ہونے لگے۔سب سے پہلا جھگڑا زبان کے نام پر ہوا جب قائداعظم نے ڈھاکہ کے دورے کے موقع پر اردو کو قومی زبان بنانے کا اعلان کیا تو بنگال میں اس کے خلاف احتجاج ہوا۔مسٹر جناح یہ سمجھتے تھے کہ صرف اردو ہی پاکستان کی قومی اور رابطے کی زبان کا کردار ادا کر سکتی ہے۔اس موقع پر پنجابی بالا دست طبقات نے اپنی غلامانہ ذہنیت کے زیر اثر فوراً اردو کو اپنی مادری زبان کی جگہ دے دی اور اسے سیاسی بالادستی کے حصول کا ذریعہ بنانے کی کوشش میں لگ گئے۔اگر پنجابی بالادست طبقات اردو کو رابطے کی زبان کے طور پر اپنا لیتے تو شاید یہ لڑائی اس قدر طول نہ پکڑتی اور بنگالی بھی اردو کے اس کردار کو تسلیم کر لیتے۔

اب پنجابی طبقات نے اپنی مادری زبان کی جگہ ایک دوسری زبان کی جنگ لڑی تو بنگالی تو بنگال کے لوگوں کی مادری زبان تھی،اس کشمکش نے پُر تشدد تحریک کی صورت اختیار کر لی اور1952 میں ڈھاکہ میں ہونے والےمظاہروں میں جانیں چلی گئیں۔بنگالی قوم پرستوں نے اس تحریک کے مقاصد کو اپنی سیاست کا مرکز بنا لیا اور علیحدگی پسند جذبات کا بیج بو دیا گیا۔پاکستان کی پارلیمان اور نوکر شاہی نو سال کے لڑائی جھگڑے کے بعد بالآخر 1956 کےآئین پر متفق ہوئی تو زبان اور نمائندگی کے حوالے سے کسی قدر حوصلہ افزاء چیزیں سامنے آئیں۔بیورو کریسی اور سیاستدانوں کے اس جھگڑے کے دوران ملک انتشار کا شکار رہا اور بے یقینی کی کیفیت چھائی رہی۔نوآبادیاتی ممالک کی روایت کے مطابق بالآخر 1958 میں پہلی فوجی حکومت قائم ہوگئی۔فوجی حکومت نے آتے ہی ملک کی معیشت پر بھرپور توجہ دی اور پہلا صنعتی دور شروع ہوا۔بجلی صنعت دفاع تعلیم صحت کے حوالے سے ترقی کی رفتار حیرت انگیز طور پر بے مثال رہی۔اس فوجی حکومت کے ابتدائی سال انتہائی مستحکم رہے اور پاکستان علاقائی طاقت کے طور پر سامنے آیا لیکن عوامی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے احساس محرومی بڑھتا گیا۔ایوب خان کا تعلق چونکہ مغربی پاکستان سے تھا اس لیے بنگال میں اس حکومت کو مغربی پاکستان کی آمریت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔فوج میں بنگالی نمائندگی متحدہ برصغیر کے زمانے سے ہی بہت کم چلی آ رہی تھی جب کہ پنجاب برطانوی فوج کے زمانے میں بھی سب سے زیادہ جوان پیدا کرتا آ رہا تھا۔پنجابی اور پختون عناصر کی اکثریت نے بھی فوج کا توازن مغربی پاکستان کی طرف ڈال دیا تھا اور بنگالی یہ سمجھتے تھے کہ فوج کے ذریعے ان کی اکثریت کو حکومت کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔اگرچہ دونوں بازوؤں میں عوام کی غالب اکثریت محکوم تھی اور یہ ساری کشمکش بالادست طبقات کے درمیان جاری تھی۔

1965 کی جنگ تک کے زمانے میں دونوں بازوؤں میں کشش اور جذباتی تعلق عروج پر رہا۔مغربی پاکستان کے فنکار ڈھاکہ جاتے تو ان کا والہانہ استقبال کیا جاتا جب کہ بنگال سے مغربی پاکستان آنے والوں کے لیے بھی ایسے ہی جذبات پائے جاتے تھے۔اس کے ساتھ بھارت دونوں حصوں میں تضادات کو ابھارنے کے لیے در پردہ مہم جاری رکھے ہوئے تھا۔کلکتہ سے ثقافتی اور تعلیمی طائفے ڈھاکہ آتے اور مشترکہ زبان ادب اور ثقافت کے حوالے سے مشرقی پاکستان میں ایک الگ فضا قائم کرنے کی کوشش جاری رہی۔اسی زمانےمیں ایک بھارتی صحافی کا جملہ بہت مشہور ہے  جس میں اس نے اسلام آباد کی سڑکوں سے پٹ سن کی مہک کو بنگال میں احساس محرومی کی وجہ قرار دیا تھا۔بنگال میں ہندوآبادی بھی کافی تعداد میں آباد تھی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے ذہن سازی میں بھرپور کردار ادا کر رہی تھی۔بنگالی زبان کے ادیبوں کو مشترکہ قومیت کے نمائندے بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔شیخ مجیب رحمٰن کے گھر میں روبندر ناتھ ٹیگور کا مجسمہ اس قوم پرستی کا بڑا ثبوت تھا جو آہستہ آہستہ سر زمین بنگال پر اپنے پنجے گاڑ رہی تھی۔

1965 کی جنگ میں کامیاب دفاع کے بعد پاکستان کی اہمیت میں زبردست اضافہ ہوا اور حب الوطنی کے جذبات نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔1965 کی جنگ مغربی محاذ پر لڑی گئی لیکن اگر یہ جنگ اس وقت مشرقی پاکستان کی سرحد پہ لڑی جاتی تو بھی اس کا نتیجہ یقیناً مختلف نہ ہوتا۔1965 میں پاکستان کے دونوں بازوؤں میں اتفاق اور یکجہتی پائی جاتی تھی۔لیکن چھ سال بعد جب جنگ نے مشرقی محاذ کا رخ کیا تو اس وقت صورتحال بالکل مختلف ہو چکی تھی۔دونوں بازوؤں کے مقتدر حلقے طاقت کے حصول کے لیے ملک اور عوام پر ہر طرح کا ظلم کرنے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔16 دسمبر 1971 کو جو سانحہ ہوا اور جو لہو رنگ فصل کاٹی گئی وہ ان چند برسوں میں پک کر تیار ہوئی تھی۔یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ خلیج بنگال کی لہریں سندھ کے پانیوں سے متصادم تھیں اور مشرقی پاکستان کا انجام بہر صورت یہی ہونا تھا۔یہ نظریہ بالادست طبقات نے اپنے جرائم چھپانے کے لیے تیار کیا اور پھیلایا گیا۔جنگ کے بعد بھٹو صاحب جو فوجی حکومت کے لیے ٹروجن ہارس ثابت ہو رہے تھے،انہوں نے مشرقی پاکستان کے دفاع کو پاکستان کی فوج کے بجائے  چین کا احسان قرار دیا۔بنگال کے لوگوں کے لیے یہ بیان ایک تازیانہ ثابت ہوا۔اس بیان کو بنگالی قوم پرستوں نے استعمال کیا اور مشرقی پاکستان میں بے چینی پیدا ہونے لگی۔معاہدہ تاشقند کے بعد جب فوجی حکومت کے خلاف تحریک شروع ہوئی تو اس کے نتیجے میں اگرتلہ کیس کی پاداش میں گرفتار مجیب الرحمٰن سمیت مرکزی رہنماؤں کو مذاکرات کے لیے بلایا گیا۔شیخ مجیب الرحمٰن اپنی گرفتاری کے دوران مقبول رہنما بن چکے تھے اور اسی گول میز کانفرنس میں انہوں نے اپنے مشہور چھ  نکات پیش کیے۔ان چھے نکات کو ملک ٹوٹنے کا پیش خیمہ قرار دیا گیا۔

ادھر بنگال میں حالات بدل چکے تھے۔اپنائیت اور محبت اب شک اور تعصب میں تبدیل ہو چکے تھے۔ہندوستان کی سرحد سے آنے والے محبت کے پیغامات اور آنے والے دنوں کے انقلاب کی دعوت زور پکڑتی جا رہی تھی۔مغربی پاکستان کی اشرافیہ اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے تھی تو بنگال کے لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو تیار تھا۔مشرقی پاکستان میں رہنے والے غیر بنگالی اس انقلاب کو محسوس کر رہے تھے لیکن ان کے خدشات کی تشفی کے لیے بالادست طبقات کے پاس وقت نہیں تھا۔بالآخر خدا خدا کر کے 25مارچ 1969 کو ایوب خان کی حکومت ختم ہوئی اور یحيٰی  خان نے اقتدار سنبھالا۔نئی حکومت نے جمہوریت اور عام انتخابات کا اعلان کیا اور پہلی بار ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا گیا۔ایک عارضی قانون کے تحت اگلے ڈھائی سال تک ملکی معاملات چلتے رہے۔انتخابات مخلوط بنیادوں پر کروانے کا فیصلہ زہر قاتل تھا لیکن اقتدار میں موجود لوگوں کو شاید اس کا احساس نہیں تھا کہ بنگال کا ہندو ووٹر کس طرح فیصلہ کن ثابت ہو گا۔ہندوستان اپنے منصوبے کو مکمل معلومات اور زمینی حقائق کے مطابق آگے بڑھا رہا تھا۔مغربی پاکستان کی حکومت اور عوام سے زیادہ ہندوستانی میڈیا اور عوام بنگال کی صورت حال سے آگاہ تھے۔ہندوستانی فوج کے افسر،جاسوس،رضاکار،صحافی،اساتزہ طلباءاور تاجر بنگالی زبان اور تہذیب کو بنیاد بنا کر مغربی پاکستان کو غاصب اور غیر ملکی قرار دے رہے تھے۔امریکہ یورپ اور سوویت یونین میں بیٹھے با اثر ہندوستانی اخبارات اور فلم کے ذریعے بنگال کے استحصال کا پراپیگنڈہ کر رہے تھے۔اس زمانے میں سینما گھروں میں فلم سے پہلے مشرقی پاکستان کے حالات پر مبنی ڈاکیومنٹریز دکھائی جاتیں۔

ادھر مغربی پاکستان میں بیٹھے لوگوں کا یہ حال تھا کہ رات بی بی سی کے اردو بلیٹن سے ہی صورت حال کا کچھ اندازہ ہوتا تھا۔1970 میں مشرقی پاکستان میں تباہ کن سیلاب آیا جس کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہو گئے۔پاکستانی فوج اور انتظامیہ جو کہ ایک پس ماندہ ملک کی انتظامیہ تھی،متاثرین کی بحالی کے لیے بھرپور اقدامات کیے۔جنرل اعظم خان کی خدمات کو بنگالی عوام میں بے حد پذیرائی ملی۔لیکن اس صورت حال میں بھی بالعموم مغربی پاکستان کے بالا دست طبقات اور مشرقی پاکستان کے متعصب طبقات کا رویہ منفی رہا۔انتخابات ایک ایسے ماحول میں ہونے جا رہے تھے جب دونوں بازوؤں کے بالادست طبقات اپنی طاقت اور اقتدار کا ہر صورت تحفظ چاہتے تھے۔مغربی پاکستان کے جرنیل اور سیاستدان اپنی حکومت چاہتے تھے جب کہ مشرقی پاکستان کے رہنما ہر قیمت پر مغربی پاکستان کو شکست دینا چاہتے تھے۔دونوں بازوؤں میں عام لوگ اس ساری صورت حال اور اس کے نتائج سے آگاہ نہیں تھے۔پڑھے لکھے طبقات خوفزدہ تھے جب کہ اہل نظر آنے والے طوفان سے خبردار کر رہے تھے۔مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے جارحانہ اور متشدد مہم چلائی اور مخالفین کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا۔

مشرقی پاکستان کی دوسری مقبول ترین جماعت،جماعت اسلامی تھی جسے بڑی کامیابی کی توقع تھی۔عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کو قابو کرنے کے لیے اجتماعات پر حملے شروع کر دیے۔پاکستان کی انتخابی تاریخ کاواقعہ پلٹن میدان میں پیش آیا جب جماعت اسلامی کے بہت بڑے اجتماع پر حملہ کیا گیا اور جلسہ گاہ میدان جنگ بن گئی۔جماعت اسلامی ایک مضبوط وفاق کی حامی جماعت تھی اور اس کی بھرپور پذیرائی عوامی لیگ کے اقتدار میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتی۔مودودی عوامی لیگ کے چھ  نکاتی منشور کو علیحدگی کا پروانہ قرار دے رہے تھے۔اس وقت تک بنگالی عوام میں آزادی اور علیحدگی کی سوچ اس قدر راسخ نہیں ہوئی تھی جس کا ثبوت جماعت اسلامی کی بھرپور پذیرائی تھی۔عوامی لیگ نے یہ انتخابات اپنی مقبولیت اور دھاندلی کے زور پر جیتے۔انتخابات میں تقریباً سو فیصد جیت ،جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی، نے مجیب الرحمٰن کو ملک کا اگلا وزیراعظم ثابت کر دیا۔مغربی پاکستان کے دو صوبوں میں بھٹو صاحب کی انقلابی جماعت نے مزدوروں کسانوں اور محنت کشوں کو ایک بہترین مستقبل کا خواب دکھا کر کامیابی حاصل کی جب کہ سرحد اور بلوچستان میں دوسری جماعتوں نے کامیابی حاصل کی۔پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں عوامی لیگ کو واضح برتری حاصل ہو چکی تھی اور شیخ مجیب الرحمٰن نہ صرف بنگال بلکہ پورے پاکستان کے سب سے بڑے رہنما بن چکے تھے۔تصادم یقینی تھا۔مجیب الرحمٰن نے چھ  نکات کی بنیاد پرآئین سازی کا اعلان کیا تو بھٹو نے انہیں بنگال کا اور خود کو مغربی پاکستان کا نمائندہ قرار دیا۔پاکستان کی حکومت میں بیٹھے لوگ چاہتے تھے کہ سیاستدانوں کی لڑائی کو جواز بنا کر اپنے اقتدار کی رسی کو مزید لمبا کیا جا سکے۔یحيٰ خان نے مجیب اور بھٹو دونوں کو حکومت دینے کی یقین دہانیاں کروانی شروع کر دیں۔اسمبلی کا اجلاس بلانے میں بار بار تاخیر کی جاتی رہی جس پر بنگالی عوام کو یقین ہو گیا کہ مغربی پاکستان کسی صورت انہیں حکومت نہیں کرنے دے گا۔ادھر مغربی پاکستان کے عوام اقتدار کی بھوکی اشرافیہ کا کھیل دیکھ رہے تھے اور ملک ٹوٹنے کی صدائیں آ رہی تھیں۔

جنرل یحيٰ خان نے اس ساری صورت حال سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ کہا تھا کہ سور (مجیب)اور کتا(بھٹو) لڑتے رہیں گے اور سب کچھ شیر(یحيٰ) لے جاۓ گا۔شیخ مجیب الرحمٰن کو اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان کی صورت دیکھنا پاکستان کی اشرافیہ کے لیے ناقابل قبول تھا۔یحيٰ اور بھٹو اقتدار سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے۔جنرل یحيٰ کا خیال تھا کہ بنگالیوں کو فوج کے ذریعے قابو کر لے گا۔اور بھٹو جانتا تھا کہ اگر بنگالیوں کو حکومت بنانے کا موقع مل گیا تو پھر کبھی اسے اقتدار کی منزل نہیں ملے گی۔بھٹو اپنی ذات کے حصار میں قید ایک عبقری تھا جس کی صلاحیت اور ذہانت تباہ کن ثابت ہو رہی تھی۔بھٹو جانتا تھا کہ اگر مجیب کو اقتدار نہ دیا گیا تو ملک اکٹھا نہیں رہ سکے گا۔بھٹو صاحب نے ڈھاکہ اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے والے کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کر دیا۔
بھٹو نے یحیٰی  سے حکومت میں حصہ مانگا اور کسی بھی ایسے آئین کو ماننے سے انکار کر دیا جس میں پیپلز پارٹی کو نظرانداز کیا جائے ۔

ادھر عوامی لیگ کے کئی رہنما اور کارکن ہندوستانی فوج کے ساتھ براہ راست یا درپردہ رابطے میں تھے۔عوامی لیگ اور ہندوستانی فوج متوقع خانہ جنگی کی صورت حال کے لیے تیار تھیں۔بالادست طبقات اقتدار کی منتقلی کے لیے تیار نہیں تھے اور ملک اضطراب کی صورت میں تھا۔مشرقی پاکستان میں محبت اور اپنائیت کا سفر شک اور تعصب سے گزر کر نفرت اور دشمنی تک پہنچ چکا تھا۔عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے ہاتھوں مخالفین کا جینا محال ہو چکا تھا۔فسادات ملک کے دروازے پر دستک دے رہے تھے۔ان حالات میں جنرل یحيٰ خان شراب اور شباب کے نشے میں مست قوم کی تقدیر سے مذاق کر رہا تھا۔شیخ مجیب الرحمٰن نے بالآخر 7 مارچ 1971 کو رمنا ریس کورس ڈھاکہ میں لاکھوں کے جلسہ عام میں عدم انتقال اقتدار کی صورت مزاحمت کا اعلان کر دیا۔مجیب نے جلسہ عام میں اپنے حامیوں کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا کہ پورے مشرقی پاکستان کے دفاتر بینک اور کارخانے ایک متوازی حکومت کے ذریعے چلاۓ جائیں گے۔شیخ مجیب نے اس تقریر میں مغربی پاکستان کے لوگوں کو اپنا بھائی کہا اور بالادست طبقات سے ملک کو بچانے کے لیے اقتدار عوام کو سونپنے کا مطالبہ کیا۔مجیب الرحمٰن کو اقتدار دے کر ملک بچانے کی بجاۓ راولپنڈی اور لاڑکانہ میں بیٹھے لوگوں نے بنگالیوں کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا اور مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کا آغاز ہو گیا۔اس بھیانک فیصلے نے متحدہ پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی اور پھر ایک ایسا دور ابتلا شروع ہوا کہ دوست دشمن کی پہچان نہ رہی اور بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہو گیا۔

اس آپریشن کا آغاز شیخ مجیب الرحمٰن کی دھان منڈی والی رہائش گاہ سے ہوا۔بریگیڈیر صدیق سالک جو اس وقت فوج کے اطلاعات عامہ کے شعبہ میں تھے لکھتے ہیں کہ فوجی جوان شیخ صاحب کی رہائش گاہ میں داخل ہوئے  تو صحن میں ٹیگور کے مجسمے نے ان کا استقبال کیا۔شیخ صاحب پُر سکون تھے،فوج نے انہیں حراست میں لے لیا اور ہائی کمان کو اطلاع دی کہ بڑا پرندہ پکڑا گیا ہے۔واپس جاتے ہوۓ ایک جوان نے اپنی بندوق سے ٹیگور کا مجسمہ زمین پر گرا دیا اور مجیب کو مغربی پاکستان روانہ کر دیا گیا۔پاکستان کی فوج عوامی لیگ اور مکتی باہنی کے لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کر رہی تھی اور ہندوستان سے تربیت یافتہ لوگ مختلف جگہوں پر فوج،غیر بنگالیوں اور پاکستان کے حامی بنگالیوں پر حملے کر رہے تھے۔خانہ جنگی کی صورت میں مشرقی پاکستان کے عوام کے لیے قریب ترین جاۓ پناہ مغربی بنگال تھا جہاں لاکھوں کی تعداد میں بے یارومددگار بنگالی جمع ہو رہے تھے۔جماعت اسلامی اور اس کی طلبا تنظیم اسلامی چھاتر چھنگو فوج کے ہمراہ “غداروں” کا پیچھا کر رہے تھے۔جماعت اسلامی کے بنگالی اور غیر بنگالی کارکن متاثرین کی بحالی کے لیے بھی کام کر رہے تھے۔اس آپریشن کے بارے میں لا تعداد سچی اور جھوٹی کہانیاں عالمی میڈیا میں شائع ہو رہی تھیں۔اندرا گاندھی اور ان کا پروپیگنڈا پوری دنیا کے میڈیا پر چھایا ہوا تھا۔اگر اس ساری صورت حال سے کوئی بے خبر تھا تو راولپنڈی اور لاڑکانہ میں بیٹھے ہوۓ محب وطن جرنیل اور قائد عوام جو بنگال کے سات کروڑ لوگوں کے بیچ چند ہزار فوجیوں کو بھیج کر چین کی نیند سو رہے تھے۔

چند مہینوں میں ہی جنرل ٹکہ خان نے بنگال میں” امن” قائم کر دیا اور راولپنڈی کو فتح کی نوید سنا دی۔ہندوستان اس متوقع جنگ کےلیے 1965 سے تیاریوں میں مصروف تھا۔مغربی پاکستان کے محاذ پر ناکامی کے بعد اس کی ساری توجہ اس طویل مدتی منصوبے پر تھی جو کہ صرف چھے سال بعد ہی پھل لے آیا تھا۔اب 1965 کی ایک قوم تھی نہ ایک پاکستان تھا،اب ہاتھ ایک دوسرے کے خون سے لہو رنگ تھے،گریباں چاک اور دل نفرت و وحشت سے معمور تھے۔ہندوستانی فوج نے مشرقی پاکستان کی سرحد پر حملے شروع کر رکھے تھے۔مکتی باہنی کے لوگوں کے ساتھ بھارتی فوجی بھیس بدل کر کارروائیاں کر رہے تھے۔آپریشن کے بعد جو چند روزہ سکون ہوا اس کو حکومت نے عام معافی کا اعلان کر کے برباد کر دیا۔عام معافی کا اعلان ہوتے ہی مہاجرین کے ساتھ ہزاروں تربیت یافتہ گوریلے اور ہندوستانی جاسوس مشرقی پاکستان میں داخل ہو گئے اور بنگال جلنے لگا۔آگ کھلنا،راجشاہی،محمد پور،میر،چٹاگانگ سے ہوتی ہوئی ڈھاکہ تک پہنچ رہی تھی۔پاکستان کی فوج کو چاروں طرف سے گھیرنے کا عمل پورا ہو چکا تھا۔جنرل نیازی جو صبح شام کلکتے جانے کی بڑھکیں مارا کرتے تھے،راولپنڈی سے آنے والے فون کی گھنٹی سننے کے لیے بیٹھے رہتے۔شاید مغربی پاکستان کے بالادست طبقات پوربو بنگال کی لہروں سے دامن چھڑا چکے تھے۔باضابطہ جنگ 3 دسمبر 1971 کو شروع ہوئی تو مشرقی اور مغربی پاکستان کے ایک دوسرے سے تمام روابط منقطع ہو چکے تھے۔پاکستانی فوج کا مقابلہ نا  صرف اپنے سے کہیں مضبوط دشمن فوج سے تھا بلکہ بنگالی عوام کی اکثریت بھی اس جنگ میں ہندوستانی فوج کے خلاف لڑ رہی تھی۔مشرقی پاکستان میں موجود فوج اور پاکستان کے حامیوں کی امیدوں کا مرکز مغربی محاذ تھا جہاں پہلی مرتبہ ہندوستانی فوج پر معمولی عددی برتری حاصل ہوئی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ چند دنوں میں ہی سرحد سے نکل کر بنگال کے کھیتوں کھلیانوں اور شہروں تک پہنچ گئی۔ہندوستانی فوج نے اپنی تمام تر طاقت بنگال کی جنگ میں جھونک دی تھی۔مکتی باہنی کے ہزاروں گوریلے ہندوستانی فوج کی رہنمائی کر رہے تھے۔بنگال میں تعینات زیادہ تر فوج کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا اور مقامی موسم اور جغرافیے سے مکمل ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے نقصان اٹھارہے تھےل۔پاکستانی فوج جماعت اسلامی کے کارکنان اور مقامی بنگالی اور غیر بنگالی حامیوں کی مدد سے یہ مشکل ترین جنگ لڑ رہی تھی۔مغربی پاکستان میں بیٹھے لوگ سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی بری طرح بے نقاب ہو چکے تھے۔یحيٰ نے اپنے ہمنوا بھٹو کو سفیر بنا کر امریکہ بھیجا تو وہ ہوٹل میں آرام کرتے رہے۔جب بنگال جل رہا تھا،پاکستانی ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے تھے،ہندوستانی فوجیں ڈھاکہ کی گلیوں تک پہنچ چکی تھیں،پاکستان کے عوام کا غیر متنازعہ لیڈر نیو یارک کے ہوٹل میں بیٹھا اپنے مستقبل کے خواب دیکھ رہا تھا۔16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ ڈوب گیا اور پورب  بنگال ہمیشہ کے لیے ندامت شرمندگی اور پچھتاوے کی داستان چھوڑ گیا۔کسی دیوانے نے روتے ہوۓ حسرت سے پکارا”ڈھاکہ لینن گراڈ کیوں نہ بن گیا۔“ لینن گراڈ قومیں بناتی ہیں جو ہم نہیں تھے۔

Facebook Comments

Aurangzeb Watto
زندگی اس قدر پہیلیوں بھری ہےکہ صرف قبروں میں لیٹے ہوۓ انسان ہی ہر راز جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ڈھاکہ لینن گراڈ نہ بن سکا۔۔اورنگزیب وٹو

Leave a Reply