ڈپریشن، اینگزائٹی۔۔رابعہ احسن

بہت دنوں بعد ایک دوست سے یونہی سرِ راہ ملاقات ہوئی تو محسوس ہوا کہ اچھے خاصے فریش چہرے پہ اداسی رقم ہے۔ یہ ان دنوں کا اثر ہے کہ ہر طرف ایک اداسی کی فضا ہے سوگواری ہے۔ اتنی اموات بھی تو ہورہی ہیں ۔ چاہے پرائے لوگ ہوں پر ساری انسانیت ایک کرب کی کیفیت میں مبتلا ہے ۔ ایک نقطے پہ آکے پھنس سے گئے ہیں نکلنے کی سمت بھی متعین نہیں ۔ اور یہ اتنے سارے انسانوں کی بھیڑ چال جو کسی کی سنتی بھی نہیں ۔ نہ مانتی ہے جانے اس وبا سے کیسے باہر آئے گی۔
جہاں لوگوں نے گھر بیٹھنے کو ایک انتہائی سنگین ایشو بنالیا کہ بیٹھا ہی نہیں جا رہا اور وبا ہے کہ پھیلتی چلی جارہی ہے قابو پانا مشکل ہورہا ہے وہیں پر دفتروں والوں کو چھٹی نہیں مل رہی۔ ہسپتال مریضوں سے ابل رہے ہیں ۔ہر طرف مرض ہے ، بیماری ہے۔ سوشل میڈیا الگ ایک مکافاتِ عمل کا تختہ لگنے لگ گیا ہے ہر کسی نے اپنے حساب سے ججمنٹ دے کے اپنے حصے کی عقل جھاڑ کے نکل جانا ہوتا ہے باقی سارے واہ واہ کرتے رہ جاتے ہیں سو جتنے فالورز زیادہ اتنی واہ واہ بھی زیادہ۔ کوالٹی ، زیرک اور سمجھ کیلئے ٹائم ناپید ہے۔
ٹائم ناپید ہوا تو ہم ایک دوسرے سے دور ہٹتے گئے ۔ فاصلے ہر سمت سے ہمارے ارد گرد جھمگٹا لگا کے بیٹھ گئے۔ ایک خاتون سے ملاقات کا مجھے بہت شوق تھا کہ میں نے اسے ہر لمحہ فیس بک پہ محض خوش ہوتے دیکھا تھا ۔ اتنی بے فکر زندگی ، ہر وقت موج مستی ، ہوٹلنگ ، گھومنا پھرنا ۔ شوہرکے گلے لگ لگ کے تصاویر۔۔۔ میں ٹھہری بے انتہا آدم بیزار۔ سوچا اس سے مل کے پوچھنا ضرور ہے کہ بہن تم پاکستان جیسے ملک میں رہ کر اتنا سب پہلے تو افورڈ کیسے کرتی ہو اور پھر آخر کار اتنا زیادہ خوش کیسے رہ لیتی ہو۔ بہت سال بعد اسے سوشل میڈیا پر دیکھتے رہنے کے بعد بالآخر اس سے ملاقات کا وقت آگیا ۔
میں نے اچھا سا میک اپ کیا تاکہ میں کنٹراسٹ میں کہیں زیادہ ہی اداس نہ لگنا شروع ہوجاؤں۔
بڑی سی برینڈ نیو لیٹسٹ ماڈل کی انتہائی لیٹسٹ کار میں سے جب وہ اتر کے آئی تو چند لمحوں کیلئے میرا مرعوب ہونا بنتا تھا خیر ہیروئن نما دور سے اتنی خوبصورت نظر آنے والی لڑکی نے گلاسز اتار کے سائیڈ پہ رکھے تو بس ایک معقول صورت لڑکی میرے سامنے بیٹھی تھی۔
میں نے سوالوں کی ایک اچھی سی لسٹ سوچ رکھی تھی کہ آخر تم اتنا خوش کیسے رہ لیتی ہو پیسے اور ٹھاٹھ کے علاوہ اور ایسا کیا ہے۔۔۔ پر حیرت اور شاید دکھ سے میری آنکھیں بھیگنے لگ گئیں ۔ اس لڑکی نے اپنی بات ڈھیر مسائل سے شروع کی۔ حالانکہ میں کوئی نفسیات کی ایکسپرٹ نہیں لیکن اس کے پہلے لفظ بولنے سے آخر تک میں خاموشی سے سنتی رہی اور دکھ یہ تھا کہ وہ جتنی خوش نظر آتی تھی اس کی اصل زندگی اس کے بالکل بر عکس تھی ۔
میں سارا ٹائم خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی اور سوچا کہ ایسی سچویشن کے لوگ تو کسی بھی وقت کولیپس کرسکتے ہیں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ میں واقعی دکھ میں تھی کہ بظاہر اتنے خوش نظر آنے والے لوگ لازمی نہیں کہ حقیقتاْ بھی خوش ہوں۔ ہم ڈپریشن انگزائٹی پہ لکھ سکتے ہیں بول سکتے ہیں مگر ان جیسے مسائل سے گزرنے والے لوگوں سے بات کرنے کیلئے ہمارے پاس وقت کبھی نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس ریسورسز ہیں پر وقت نہیں ۔کسی کیلئے ہمارے پاس وقت نہیں یہاں تک کہ اپنے لئے بھی نہیں ۔
ہمارے اردگرد بظاہر بہت خوش نظر آنے والے بہت ٹوٹے ہوئے لوگ ضرور ہوں گے جن کی تنہائی کے لمحات جاں گسل ہوتے ہیں لیکن کوئی نہیں جان پاتا جب تک وہ اپنی خوشیوں بھری زندگی کو خیر باد نہیں کہہ دیتے۔ سو بعد میں سٹیٹس اپ ڈیٹ کرکے لایعنی بحثوں میں الجھنے کی بجائے اپنے اردگرد کے کم ازکم چند لوگوں کی زندگیوں میں کسی مثبت تبدیلی لانے میں مدد کا ذریعہ بن جانا چاہیے کیونکہ بعد ازموت ہمدردیاں جانے والوں کا کچھ بھی واپس نہیں لا سکتیں۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply