چاند اور روٹیاں/ثاقب الرحمٰن

اس نے کچھ عجیب گایا تھا۔ الفاظ یہ تھے کہ “اک بغل میں چاند ہو گا اک بغل میں روٹیاں”۔ یہ دراصل اس کی نفسانی اور جسمانی اشتہاؤں کا اشتہار تھا۔ اک واقعہ مشہور ہے کہ قیس سے جب پوچھا گیا کہ حسین ابن علی حق پہ ہیں یا یزید ابن معاویہ، تو قیس نے کہا “صرف میری لیلی حق پہ ہے”۔ ایسے ہی اک کہاوت مشہور ہے کہ بھوکے سے دو جمع دو پوچھا جائے تو وہ چار روٹیاں بتاتا ہے۔
انسان ابن الوقت ہے۔ بھرے اور خالی پیٹ کے جوابات مختلف ہوتے ہیں۔ پیاس اور سیرابی کی حالتوں میں الگ الگ قسم کے الہام ہوتے ہیں۔ حد تو یہ ہے غالب اور مغلوب ادوار کے مفسرین کی تفسیریں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ کاتبِ  تقدیر بھی، اگر موجود ہے، تو اصحاب فرنگ سے گھوس لے کر تقدیر ترتیب دے رہا ہے۔

فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سنائی ہو
فرض کرو ابھی اور ہو اتنی،آدھی ہم نے چھپائی ہو

یہ اسی فنکار کی تخلیقی صلاحیتوں کا لفظی بیان ہے جس نے کہا تھا کہ اک بغل میں چاند ہو گا اک بغل میں روٹیاں۔۔ اوپر نگاہ کرتا ہے تو دور افق پہ سیاہ رات کے بیچ اسے اک گول روٹی نظر آتی ہے جو درمیان میں جلی ہوئی ہے۔۔۔ یہ جلی روٹی شاعر کا محبوب ہے جس کے گال پہ داغ اس لئے ہے کہ اس حسنِ دلربا کو نظر نہ لگے۔۔ آرٹسٹ نیچے نگاہ کرے ہے تو پیٹ سے مارے بھوک کے آوازیں سنے ہے۔ اب ایسے میں نغمہ کیا ستار کیا رباب کیا۔۔ ملغلرہ کیا، نائکہ اور نور جہاں کیا۔

نہیں نہیں۔۔ یہ آرٹسٹ کا خیال نہیں ہے۔ یہ تو اک عامی انسان کا خیال ہے۔ یہ اس کانٹے دار جھاڑی کا خیال ہے جس پہ کسی ستم ظریف نے گلاب کے بیچ بکھیر دئیے۔ اس کانٹوں بھری جھاڑی کو معلوم ہے کہ گلاب نے اب یہیں اُگ آنا ہے۔ اس کی پُر ہوس نگاہوں نے بادل دیکھ لئے ہیں۔ وہ گلاب کو چاند کہہ رہا ہے۔ کہتا ہے اک بغل میں چاند ہو گا اک بغل میں روٹیاں۔ یعنی اک پہلو میں حسینہ ہو گی اور ساتھ ہی دولت کمانے کی ہوس ہو گی۔ چاند پہ روٹی کی چادر ڈال کر سو جانا یہی ہوتا ہو گا۔۔

اک بغل میں کھنکھناتی سیپیاں ہو جائیں گی
اک بغل میں کچھ رلاتی سسکیاں ہو جائیں گی
ہم سیپیوں میں بھر کے سارے تارے چھو کے آئیں گے
اور سسکیوں کو گدگدی کر کر کے یوں بہلائیں گے

گلاب جھاڑیوں کے لئے نہیں ہوتے۔ نہ ہی جھاڑیاں اسے اپنے پہلو میں اُگا سکتی ہیں۔ یہ تو ستم ظریف ہوتے ہیں جو ہوس کے پجاریوں کے پہلو میں گلاب کے بیج بکھیر جاتے ہیں۔  باغبان کی ضرورت تھی کہ جھاڑیوں کو کاٹ کر جلا دے اور گلاب پہ سایہ کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ستم ظریفی یہی ہے کہ چاند اور روٹی سینے کے میزان پر دو بغلوں میں رہتی ہے۔

Facebook Comments

ثاقب الرحمٰن
چند شکستہ حروف ، چند بکھرے خیالات ۔۔ یقین سے تہی دست ، گمانوں کے لشکر کا قیدی ۔۔ ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply