• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پانی،زندگی، بلوچستان کا سنہری بیلٹ اور خوف ناک خواب ۔۔۔ مدثر اقبال

پانی،زندگی، بلوچستان کا سنہری بیلٹ اور خوف ناک خواب ۔۔۔ مدثر اقبال

 لاہور شہر کے اطراف سے ایک نہر گزرتی ہے۔ دریائے چناب سے نکلی اس نہر میں سے آپ ایک پانی کا گلاس لیں اور راہ چلتے کسی مسافر کو پیش کریں تو بدلے میں کم سے کم اچھے سلوک کی امید نہ رکھیں۔ شدید سے شدید پیاسا مسافر بھی اس پانی کو منہ نہیں لگائے گا۔

دریائے چناب جھنگ کے تریموں بیراج میں دریائے جہلم سے ملتا ہے۔ دونوں دریا راوی کو ساتھ ملاتے ،پنجند سے ہوتے ہوئے کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے سندھ سے جا ملتے ہیں ان دریاؤں میں صرف پانی نہیں ہوتا بلکہ راستے میں آنے والے کئی شہروں کا سیوریج بھی دریا کی وسعتوں کی نذر ہوتا ہے۔

بات نہر سے نکلی تھی تو سنیے۔ صادق آباد سے آپ سندھ میں داخل ہوتے ہیں تو کشمور سے کچھ پہلے گدو بیراج آپ کا استقبال کرتا ہے۔ یہاں سے ایک نہر نکلتی ہے جسے کیرتھر کینال کہا جاتا ہے، جو سندھ کو سیراب کرتی ہوئی بلوچستان کی طرف جا نکلتی ہے۔ گدو بیراج کے بعد بیسویں صدی کے اوائل میں بننے والا سکھر بیراج اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ دریائے سندھ کی رونق بڑھا رہا ہے۔ جہاں سکھر بیراج سکھر شہر کو اک تعارف عطا کر رہا ہے وہیں دس لاکھ سے زاید آبادی والے اس شہر کی کا فی سیوریج کو بھی اپنے دامن میں جگہ دیتا ہے۔اس بیراج سے بھی غالبا چار نہریں نکلتی ہیں جن میں سے ایک پٹ فیڈرکینال ہے۔

پٹ فیڈر کینال بلوچستان کے سب سے زیادہ زرخیز بیلٹ نصیر آباد ڈویژن کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے۔یہی وہ نہر ہے جس کے دم سے بلوچستان کی اس سنہری پٹی کے کسانوں کے چولہے جلتے ہیں۔ یہی وہ نہر ہے جس کے پانی سے ہزاروں ایکڑ رقبے پر چاول اور گندم کی کاشت ہوتی ہے۔ یہی وہ نہر ہے جسکی برکت سے کئی خاندانوں کی سیاست بھی قائم ہے۔ 

بدقسمتی سے یہی وہ نہر ہے جسکا گدلا پانی، جسکا سیوریج ملا پانی لاہور کی نہر سے کہیں زیادہ آلودہ پانی ان لاکھوں لوگوں کی پیاس بجھاتا ہے۔

اس نہر اور اس سے جڑی ذیلی شاخوں کے پانی کو بنا کسی فلٹر کے پیا جاتا ہے۔ جب پانی آتا ہے خوشیاں منائیں جاتی ہیں، پانی میں موجود گدلا پن اور دیگر آلائشیں سامنے ہوتے ہوے بھی نظر نہیں آتیں، اور بھلا نظر بھی کیوں آئیں؟

اسی مٹی ملے پانی سے ہونٹوں پہ جمی پپڑیاں مٹتئ ہیں، اگ بجھاتے سورج سے لمحے بھر کو تسکین ملتی ہے، تحفے میں یرقان سمیت کئی بیماریاں ملتی ہیں پر پیاس تو بجھتی ہے۔ قیامت خیز گرمی میں زندگی کا احساس تو ہوتا ہے۔

لیکن قیامت تو یہ ہے کہ اب یہ پانی بھی میسر نہیں۔ اب زندگی کا یہ احساس میسر نہیں۔ قیامت تو یہ ہے کہ سورج سوا نیزے پہ اور پانی کا دور دور تک کوئی سراغ نہیں ۔ قیامت تو یہ ہے کہ چاول کی فصل کا وقت سر پرہے اور پانی کا نام و نشان نہیں ۔

پٹ فیڈر کی ذیلی شاخیں صرف خشک نہیں بلکہ کسانوں کی امیدوں کا دامن بھی خشک ہوتا جارہا ہے ۔ کسان کی ساری زندگی اسی امید کے دامن ہی سے تو بندھی ہوتی ہے۔ اب بات قتل و غارت تک بھی پہنچ رہی ہے یعنی پانی زندگی ہے اور یہی پانی زندگیوں کا دشمن بن رہا ہے۔

کل ایک شاگرد سے بات ہو رہی تھی ،کہہ رہا تھا” سر!فصل کی کیا بات کریں ہم تو پینے کا پانی پچیس تیس کلومیٹر دور اوستہ محمد شہر سے لاتے ہیں ۔ہمارے پاس تو ٹریکٹر ہے جن کے پاس نہیں انکا کیا حال ہےآپ خود اندازہ لگائیں۔”

پانی خوشحالی کی علامت ہے اور یہ علامت نصیر آباد ڈویژن میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی۔ پانی زندگی ہے اور یہ زندگی ناپید ہے اس تپتی گرمی میں، اس رمضان میں، بلوچستان کے سب سے زیادہ زرخیز علاقے میں۔ پانی کے بنا چاول کی فصل تو نہیں البتہ اندیشوں کی خود رو جڑی بوٹیاں ہر سو سینہ تان کے کھڑی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پانی کا حصول اک ڈراؤنا خواب بن رہا ہے،ایسا خواب جس کا پور پور حقیقت سے کشیدہ ہے۔ ایسا خواب جس کے خوف کا توڑ شاید کسی کے پاس نہیں ۔

Facebook Comments

Mudassir Iqbal Umair
بلوچستان کے ضلع جعفرآباد کے شہر اوستہ محمد میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہوں۔تحریر اور صاحبان تحریر سے محبت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پانی،زندگی، بلوچستان کا سنہری بیلٹ اور خوف ناک خواب ۔۔۔ مدثر اقبال

  1. اپکی تحریریں اپکی طرح خوبصورت۔
    مدثر بھائی الفاظ کا صحیح چناو نھیں اتا۔اس کے لیے معذرت خواہ۔
    ساجد بہاولپور۔

Leave a Reply