ٹیکس اور بھوکے عوام ۔۔۔ژاں سارتر

  ہمارا ٹیکسز کا نظام کس قدر غیر منصفانہ ہے، اس کا اندازہ ایک سادہ سی مثال سے لگائیے۔ ایک کمپنی میں آفس بوائے کی تنخواہ 14500 روپے ماہوار ہے اور قانون کے مطابق اس پر کوئی انکم ٹیکس نہیں۔ اسسٹنٹ فارماسسٹ کی تنخواہ 60000 روپے ہے جس پر 1083 روپے انکم ٹیکس منہا کیا جاتا ہے۔ آفس بوائے کا خاندان میاں بیوی، تین بچوں اور بزرگ والدہ پر مشتمل ہے فارماسسٹ کے دو بچے ہیں اور والدین بھی ساتھ رہتے ہیں۔ اس طرح دونوں خاندانوں کی ضروریات کم و بیش ایک جیسی ہیں۔ سفر کے لیے ٹرانسپورٹ پر جو فیول خرچ ہو گا، اس پر حکومتی ٹیکسز ایک جیسے ہیں، گھر میں افراد خانہ کے لیے جو کوکنگ آئل، اشیائے خور ونوش، ایل پی جی گیس اور صابن و شیمپو وغیرہ استعمال ہوں گے، ان پر سیلز ٹیکس اور دیگر ڈیوٹیز ایک جیسی ہیں۔

اس صورتحال میں آفس بوائے لامحالہ ان تمام اشیا کا استعمال کم کرنے پر مجبور ہوگا جس کے نتیجے میں نہ صرف اس کا معیار زندگی پست ہوگا بلکہ وہ اور اس کا خاندان بھی شدید کم خوراکی کا شکار رہے گا۔ اب ذرا اسی کمپنی کے ایک ڈائریکٹر کی ماہانہ تنخواہ دیکھیے ۔ اس کی تنخواہ 600000 روپے جو انکم ٹیکس منہا کرنے کے بعد 476500 روپے بنتی ہے۔ اس کا خاندان بھی تقریبا اتنے افراد پر ہی مشتمل ہے اور بنیادی ضروریات بھی مذکورہ بالا دونوں خاندانوں کے برابر ہیں۔ وہ ہر ماہ 123500 روپے ٹیکس دے کر قومی معیشت میں حصہ ڈال دیتا ہے۔ (یہ ایک ایسی کمپنی یا کاروبار کی مثال ہے جو اپنے کاغذات درست رکھتی ہے) اب آئیے دوسری جانب، ہمارے ہاں کتنی چھوٹی بڑی دکانیں اور بظاہر معمولی کاروبار ہیں جن کی روزانہ آمدنی تین چار ہزار روپے سے 50000 روپے ہے؟ (اس سے زائد آمدن والے بھی بے شمار کاروبار ہیں جن کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا) روزانہ تین ہزار آمدنی والی معمولی دکان سے ماہانہ اوسط آمدنی 80000 سے 90000 ہے لیکن انکم ٹیکس صفر۔ روزانہ 50000 آمدنی والی دکان یا کاروبار سے اوسط ماہانہ آمدنی 12 سے 15 لاکھ لیکن انکم ٹیکس صفر۔

صفر اس لیے کہ یہ افراد کوئی ریکارڈ اور کاغذات رکھتے ہی نہیں البتہ ایف بی آر کے کارندوں کی کچھ “خدمت” ضرور کرتے ہیں۔ ان سے ٹیکس وصول کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اور جب حکومت یہ ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو اخراجات پورے کرنے کے لیے عام استعمال کی اشیا پر ٹیکسز بڑھاتی چلی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب، غریب تر ہوتا ہے اور اسی وجہ سے بغیر کسی قحط یا خشک سالی کے بین الاقوامی “ہنگر انڈیکس” میں ہمارا نمبر 137 پر پہنچ جاتا ہے کیونکہ اشیائے خورونوش غریب عوام کی پہنچ سے دور ہوتی ہیں اور وہ کم خوراکی پر مجبور ہوتے ہیں۔ پھر یہی بھوکے ننگے عوام بریانی کی پلیٹ یا قیمے والے نان کے عوض ووٹ دیتے ہیں تو انہی لوگوں کو منتخب کرتے ہیں جو انہیں بھوک کی دلدل میں زیادہ گہرا گاڑتے ہیں۔ اس تبصرے کو کسی ایک جماعت پر تنقید نہ سمجھا جائے کیونکہ اس “کار خیر” میں سب برابر کے شریک ہیں۔ اس جائزے میں ان بڑے کاروباروں کا ذکر نہیں کیا گیا جن میں اربوں روپے کے ٹیکسز بچا لیے جاتے ہیں کیونکہ وہ اس کام کے لیے جن راستوں اور قانونی موشگافیوں کا سہارا لیتے ہیں، وہ عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بس یوں سمجھ لیجیے کہ ایسے بڑے بزنس ٹائیکون مقننہ میں ایسے قوانین بننے ہی نہیں دیتے جن کے باعث انہیں ٹیکس دینا پڑیں۔ یہی بزنس ٹائیکونز حکومتیں بناتے اور گراتے ہیں، میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں، عوام کو مذہب، حب الوطنی، جمہوریت اور انسانی حقوق کا درس دیتے ہیں، این جی اوز بناتے اور چلاتے ہیں، اپنی ہی این جی اوز کو چندہ دے کر ٹیکس سلیب سے باہر نکلتے ہیں اور سب سے بڑھ کر بیواؤں میں آٹے کے تھیلے یا سلائی مشینیں تقسیم کرکے نیکی اور تقویٰ کے سرٹیفیکیٹ حاصل کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور بھوکے ننگے عوام ان کی سلامتی اور کاروبار میں ترقی کی دعائیں کرتے ہیں۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
کسی بھی شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا اصل تعارف ہوتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply