وکیل بابو فرام لندن۔۔۔۔احمد رضوان

کوئی پوچھے تو  کیا بتاؤں کہ ملکہ کے دیس میں، وکیل کے بھیس میں ایک ایسا انسان چھپا بیٹھا ہے جو اپنی ذات میں انجمن ہے (انجمن سلطان راہی والی نہیں نہ ہی انجمنِ منجن و پھکی فروش )۔بچپن کے جو حالات و واقعات بزبانِ راوی و چناب ہم تک پہنچے ہیں اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ بچہ شروع سے ہی باغی تھا، روایت سے بغاوت  اور راجپوتی انانیت اسے کہیں چین کا سانس نہیں لینے دیتی تھی۔ باپ عدالت میں کرسی انصاف پر براجمان رہتا تھا تو گھر میں اماں حضور کی  حکمرانی  تھی۔چشمِ ماں روشن اور دلِ ماں شاد  تب ہوتا تھا جب جب بچہ کلاس میں نمایاں پوزیشن لے کر گھر آتا تھا۔ باپ کھلاتا تو سونے کا نوالہ تھا مگر دیکھتا شیر کی آنکھ  سے تھا۔کالج دور میں ادبی سرگرمی دماغ پر جوانی سے چڑھنے والی خون کی گرمی سے ذیادہ تیز تھی ۔کتابی چہرے اور ان جیسی کتابیں پڑھنے کا شوق اسے انارکلی بازار کے باہرتھڑوں پر بکنے والی کتابوں اور اردگردکے  تعلیمی اداروں  کے چکر پر چکر لگواتا رہا ۔یہ وہ دور تھا جب ہر اٹھتی ہوئی جوانی کیمونزم اور سوشلزم کے رومانس میں مبتلا ہوکر کامریڈ کہلوانے میں فخر محسوس کرتی تھی ۔ تب ’’لال لال آئے گااور لہرائے گا‘‘ کا ترانہ رگ وپے میں دوڑتے خون کی گردش  کو تیز کرتا محسوس ہوتا۔باپ نے جوان کے پر کاٹنے کا پروگرام بناتے ہوئے اسے لا کالج میں داخلہ دلوا دیا ۔ جوان  نے قانون کی  عملداری   ہر راہداری میں دیکھی تو خود بھی وکیل بننے میں عافیت جانی کہ دلیل کا جواب دلیل سے دیا جائے۔لا  کالج کی تعلیم مکمل ہوئی تو باپ نے عملی زندگی میں راجپوتی کا دف مارنے کے لئے ایک آرائیں وکیل کے چیمبر میں  برائے تربیت بھجوا دیا۔آگ اور پانی کے اس ملاپ نے اس کی عملی تربیت کے دوران وہ سبق پڑھائے کہ معاملہ فہمی، ژرف نگاہی، عمق بینی سے لیس وکیل کی آیندہ پریکٹیکل لائف میں بڑے بڑے آرائیں اس راجپوت کے آگے پانی بھرتے نظر آتے ہیں۔قابل اور فاضل وکیل کی نمایاں خصویت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی فِیس موکل کے فَیس کو دیکھ کر نہیں لیتا بلکہ اس کی جیب دیکھ کر اپنی جیبھ کو استعمال کرتا ہے۔ اچھا وکیل  ٹھوک بجا کر کیس لیتا ہے۔ اب وہ ٹھوکتا کیا ہے اور بجاتا کیا کیا ہے یہ اپنی اپنی چشم تصور سے خود ہی سوچتے رہئے۔
وہ تو اس  دور میں شکر ہوا کہ بات ابھی صرف ’’چیف تیرے جانثار‘‘  کی تحریک تک محدود و مسدود تھی اور وکلا گردی کی اصطلاح ابھی رائج نہیں ہوئی تھی ورنہ یہ جوشیلا جوان بھی اپنے جذبات و احساسات کی نکاسی  بزورِ بازو  پوری  کرنے میں کسی سے پیچھے نہ رہتا ۔
والد کی ناگہانی وفات نے بڑے بیٹے ہونے کے ناطے وقت سے پیشتر ذمہ داریوں  کا ٹوکرا سر پر لاد دیا۔ خاندانی  زمینوں  سے اتنا کچھ آجاتا تھا کہ کسی تنگی ترشی والی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا مگرپاکستان میں غیر یقینی صورتحال اور گومگو کی حالت نے اسےمزید تعلیم کے لئے  بیرون ملک  جانے کی راہ سجھائی۔ یوں یہ نوجوان وکیل عازم لندن ہوا اور ایسا ہوا کہ پھر واپسی کی راہ دیکھتے دیکھتے ماں اور بھائی خود اس کے پاس لندن جاپہنچے۔زندگی مگر لندن میں اتنی آساں نہ تھی ۔ وطن سے دوری ، تعلیمی اخراجات، رہائش ،فکر معاش انسان کو توڑ ڈالتی ہے اور صرف آہنی عزم و حوصلہ ہی  آپ کے آخری سہارا ہوتے  ہیں۔ اس دور میں غیورعلی خان اور تنویرافضال جیسے مخلص دوست اس کی ہمت بندھاتے رہے ۔وکالت کا امتحان پاس کرنے تک کے یہ کڑے دن اسے زندگی کے نہ بھولنے والے اسباق سکھا گئے۔ اس کا دل جو انصاف کی دیوی پر قربان ہوتا تھا اب انصاف مانگنے والے، ان مجبور اسائلم لینے والوں کےلئے ہونے لگا جو پوری دنیا سے امید کے ایک ٹمٹماتے دیے کے سہارے اس سرزمیں پر آتے ہیں کہ شاید اپنے بچوں کا بہتر مستقبل تلاش سکیں۔
آنٹی نے جب لڑکے کو زندگی میں سیٹل ہوتے دیکھا تو اردگرد نگاہ دوڑائی کہ کوئی موزوں رشتہ اگر مل جائے تو اس کے سر پر سہرے باندھنے کا خواب پورا کیا جاسکے۔مگر لندن میں   انعام کو   پہلی محبت جولیا  سے ہوئی جو جرمن  نژاد تھی اور اسی کی طرح ایک وکیل۔دونوں کا مزاج شاید ذیادہ ملا نہیں اس لئے یہ شادی کچھ عرصہ کے بعد ہی اپنے انجام کو پہنچ گئی۔ بقول انعام کے وہ جولیا سے سچی محبت کرتا تھا اسی لئے طلاق کے بعد بھی اپنی فرم کا نام  جولیا اینڈ رانا سولیسٹر  برقرار رکھا ۔پہلے سنٹرل لندن میں ایک آفس کھولا اور کچھ عرصہ کے بعد جب پریکٹس چل نکلی تو دوسرا آفس ایسٹ لندن میں کھول لیا۔عدالت کے چکروں کے ساتھ ساتھ اپنے ازلی شوق ، لکھنے لکھانے کی طرف  بھی مائل ہوگیا۔
بلاگنگ سائٹس کے وجود میں آنے سے لکھنے کے میلان  رکھنے والے لوگوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آیا جس کا وہ پہلے تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ راقم کو سوشل میڈیا پر وارد ہونے کے بعد جن چند احباب کی تحریریں پڑھنے کا موقع ملا ان میں سے ایک موصوف بھی تھے۔  ایک کے بعد ایک، تابڑ توڑ اچھی تحریروں نے مجبور کر دیا کہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جائے ۔انعام رانا کے مضامین پڑھ کر ایک نئے پن کا احساس دل میں فزوں تر ہوتا تھا۔ اس دوستی کے پردہ زنگاری میں سے جو انعام ملا وہ بے دام ہے۔آغازہلکے پھلکےکمنٹس سے ہوا جو بڑھتے بڑھتے انباکس چیٹس تک جا پہنچا ۔ آہستہ آہستہ پرت کھلتے گئے اور شکر ہے یہ پرتیں میوہ آرائیاں  کی طرح نہیں تھیں کہ آخر میں اندر سے کچھ بھی برآمد نہ ہو ۔پھر تو اللہ دے اور بندہ لے۔ چٹکلوں ،کثیفوں اور لائلپوری جگتوں   کا تبادلہ یوں فراوانی سے ہونے لگا کہ ہر طرح کی ارزانی بےمعنی لگنے لگی۔ویک اینڈ پران کی طرف سے خصوصی فرمایش ان چٹکلوں کی ہوتی جو میموں کو آرام سے رام کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوں۔ (اس وقت ابھی عقد ثانی  سرانجام نہیں پایا تھا)
سال 2016  زندگی مٰن کئی اہم موڑ لے کر آیا۔انعام کی سالگرہ کے دن ایک تاریخی مچیٹے میں  وکیل لندنی  کی زندگی کا ایک نیا باب  شروع ہوا جو  کسی دلیِ  اور دبیِ ہوئی خواہش کی صورت شاید کچھ اورعرصہ دبا رہتا مگر جلد یا بدیر  شعلہ جوالہ بن کر ضرور پھٹتا۔جب یہ معرکہ برپا ہو رہا تھا اس وقت راقم اور مرقوم دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ سلسلہ جنبانی کر رہے تھے۔ اس وقت تحریر کا موضوع یہ مچیٹا نہیں مگر اس اس شر سے خیر کے کئی سوتے برآمد ہوئے۔مکالمہ کا ڈول ڈالا گیا جو بعد ازاں مکالمہ ٹی وی، ڈائیلاگ ٹایمز تک دراز ہوتا چلا گیا۔
انعام سے حسد کرنے والے بھی بے شمار اور ان سے محبت کرنے والے پروانے بھی لاتعداد۔مجھے اسے فرشتہ ثابت کرنےمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انسان خوبیوں اور خامیوں کا مرقع ہوتا ہے ۔ ویسے بھی گنجے فرشتے بالکل  نہیں جچتے اور ان کی رہی سہی عزت پہلے ہی منٹو کتاب لکھ کر مٹی میں ملا چکا ہے ۔ کوئی اسے ہمدرد کامریڈ کے روپ میں دیکھتا ہے جو دنیا سے معاشی ناانصافی اور  عدم مساوات ختم کرنے کےلئے کوشاں ہے تو کوئی اسے قادیانیوں کا وکیل کہہ کر اپنے دل کے پھپھولے پھوڑتا ہے ،ایک شورہ پشت  تو جس کی زبان انعام کو  استاد جی کہتے تھکتی نہ تھی ،  اپنی ایک پوسٹ کے ذریعہ  ایسی پوزیشن پر لا کھڑا کیا جہاں  اسے اپنے دفاع کے لئے قانونی کارروائی کا سہارا لینا پڑا۔لوگ کیسے کذب و افترا کے دفتر رقم کر لیتے ہیں ۔ اہل بیت کی محبت انعام کا توشہ آخرت ہے ۔اللہ نیتوں کا حال جانتا ہے اور ہر کسی کو اس کی نیت کا پھل مل کر رہے گا ۔
پچھلے سال  جب اس نے جواینا کے ساتھ شادی کی اس کے بعد اس کی شوریدہ سر زندگی جیسے ایک ڈھب پر  آگئی ہے ۔اب سنجیدگی سے وہ اپنی زندگی کی پلاننگ کے سفر پر  رواں دواں ہے ۔ جواینا  بھابھی جنہیں میں  پولش مرشد کے لقب سے یاد کرتا ہوں  اس لندنی مرید کو ہل من مزید کا سبق پڑھانے میں بہت عمدگی سے کامیاب رہی ہیں ۔بھابھی بھی وکالت کے امتحان کی تیاری  کر رہی ہیں اور جلد شانہ بشانہ عدالت میں مصروف عمل دکھائی دیں گی۔
انعام رانا سے پہلی بالمشافہ ملاقات کا احوال  بھی  دلچسپی سے خالی نہیں۔پہلی ملاقات ان سےفیس بک پر دوستی کےتقریبا چار سال بعد لندن ان کے دفتر  اس حال میں ہوئی کہ وہ “لاکڑا کاکڑا “کےسبب  کسی کے گلے پڑ جانے یا کسی کے گلے لگ جانے تک  کوئی بھی فعل سرانجام  دینے کے روادار نہ تھے۔ پہلی ملاقات اور انسان حالت بیماری میں   فیس ماسک پہنےآپ  سے چند فٹ  کی دوری پر براجمان ، لطیفے پر لطیفے سنا رہا  ہو اور ساتھ ساتھ اپنے موکلین کے بارے میں اپنے سٹاف سے اپڈیٹ بھی لے رہا  ہو اور عدالت میں اگلی تاریخ لینے کے بارے میں ڈسکس بھی کر رہا ہو  تو   آپ  سوچتے ہیں کہ دن گنے جاتے تھے اس دن کے لئے ؟
سالِ گذشتہ جب انگلینڈ میں ورلڈ کپ کرکٹ کا انعقاد ہوا تو دل میں دبی ہوئی  خواہش جاگ اٹھی کہ پاکستان ٹیم کو لارڈز میں کھیتلے ہوئے دیکھا جائے۔جہاں سے اس شریفانہ کھیل کا آغاز ہوا  اور جہاں سے اس نے ہم جیسے ادنیٰ کھلاڑیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ انعام سے بات ہوئی کہ ایک پنتھ دو کاج کا اس سے اچھا موقع ملنا ممکن نہیں، یار سے ملاقات اور ساتھ ساتھ ورلڈ کپ کا میچ اکٹھے دیکھنا وہ بھی لارڈز میں۔ ٖفٹافٹ ٹکٹس ڈھونڈنے  کی کوشش کی گئی،جو ایڈوانس بکنگ  ختم ہونے کی  وجہ سے بلیک میں ملیں۔ انگلینڈ یاترا پر جانے سے چند دن قبل خبر ٓئی کہ وکیل بابو بچپن میں لاکڑا کاکڑا سے کسی طرح بچ بچا کر نکل گئے تھے مگر بچپن کی  غلط کاریاں  اور بیماریاں جوانی میں کبھی بھی  آپ کے پیچھے پڑ سکتی ہیں۔ پھر وہی ہوا جو منظور خدا تھا  ۔ خیر یار زندہ صحبت باقی کبھی پھر سہی۔میچ دیکھنے اکیلے جانا پڑا۔ ان کے حصے کی تالیاں اور اور گالیاں جو مل جل کرغصہ نکالتے دینی تھی ان سب کا بار ان ناتواں کندھوں پر آ پڑا۔  ہم نےبھی اس بار کو اپنے ساتھ بیٹھی اس  گوری  کے ساتھ بانٹنے کی پوری پوری کوشش کی جو اپنی ٹیم کو اسپورٹ کرنے آئی تھی۔اس دن لارڈز میں یوں محسوس ہورہا تھا کہ میچ لندن کی بجائے بھاٹی گیٹ میں ہورہا ہے ۔جو چند درجن ساوتھ افریقی اسپورٹرز موجود تھے وہ یوں سکڑے سہمے بیٹھے تھے جیسے بندی خانے میں ہوں۔  بیچاری اکیلی تالیاں بجاتے اچھی نہ لگتی تھی اس لیے ساتھ مل کرداد و بے داد دینا تو بنتا  تھا ۔وہ یوں معصومیت سے مسکراتی کہ دل کرتا کاش تالیوں کا یہ سلسلہ ــــ’’ الہی یہ گھٹا دو چار دن تو برسے‘‘ کی طرح طول طویل ہو جائے۔
پچھلے دنوں خوابوں کا بہت ذکر ہوا ۔ عالم رویا  سے ’’رویا ہوگئے کیس‘‘  ٌ تک انسان  بہت کچھ کھو دیتا ہے ہے پاتا شاید اتنا نہیں ۔ہمارے چیف ایڈیٹر صاحب فارغ البالی اور خوشحالی کی اس حد فاصل پر پہنچ چکے ہیں جہاں ذاتی بال تک خواب ہوچکے ۔ ہمارے حبیب لبیب انعام رانا کو   خواب دیکھنے کی عادت  ہے اور ان خوابوں کی تعبیر پانے کی چاہت انہیں کبھی تو   درِیار سے دیارِغیر تک لے جاتی ہے اور کبھی اپنے لوگوں کے لئے کچھ کرنے کی  آرزو واپس وطن میں سرمایہ کاری کرنے پر اکساتی ہے ۔ سیاست دان نما بزنس مین اپنا سرمایہ ملک میں غیر محفوظ سمجھتے ہوئے اسے کسی بیرونی بینک میں محفوظ کردیتے ہیں یا کہیں باہر انویسٹ کردیتے ہیں مگر سچے محب الوطن پاکستانی الٹی گنگا بہانےکی ہر کوشش کرتے ہوئے اپنا سرمایہ وطن عزیز  میں لانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ اب انعام نے جو خواب دیکھا ہے وہ  پاکستانیوں کو ای کامر س  کے میدان  میں’’سستا نہیں اچھا‘‘ کا نعرہ دیا ہے اور    www.merkit.pk    جیسا پلیٹ فارم بہت جلد لانچ ہونے جارہا ہے ۔ میری  دعا ہے کہ اللہ اسے اس میدان میں بھی سرخرو کرے۔  آج اس کی سالگرہ ہے اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اپنی عمر خضرمیں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتا رہے۔ آمین۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”وکیل بابو فرام لندن۔۔۔۔احمد رضوان

Leave a Reply