نفسیات ، نفسیاتی علاج اور عوامی رویہ۔۔تنویر سجیل

سائنسی ترقی کا یہ حا ل ہے کہ انسان آج چاند کو تسخیر کرنے کے بعد مریخ پر ڈیرے جمانے اور خلائی ریستوران کے خواب کو  تعبیر کا جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہے۔ ۔

یہی نہیں ،سمارٹ فون کی جدت اور Gadgets نے انسانی شعور میں بھونچال لارکھا ہے،مگر نہ جانے کیوں جب بات انسانی نفسیات کی اہمیت ،افادیت اور علاج کی آتی ہےتو تعلیم یافتہ سے لیکر عام شخص تک ترقی کی ان شاندار منازل کو قبول کرنے اور سمجھنے سے عقلی لا تعلقی کا اظہار کرتا ہے ۔

روز کے بڑھتےسماجی، جذباتی اور ذاتی مسائل میں ڈوبتے افراد جب یاس کی پگ ڈنڈی پر چل پڑتے ہیں تو اپنے ذہنی تناؤ کے باعث مختلف قسم کے نفسیاتی اور جذباتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں کسی کو لگتا ہے کہ وہ ڈیپریشن کا مریض بن رہا ہے تو کوئی سمجھتا ہے کہ  اُسے  اینگزائٹی کے مرض نے   گھیر رکھا ہے۔

نفسیات اور نفسیاتی علاج کے بارے میں پائی جانے والی آرا ء کے بارے میں سروے کریں تو آپ کو یہ جان کر انتہائی دھچکا لگے گا کہ ہمارے تعلیم یافتہ سے لیکر اَن پڑھ شخص تک کے خیالات تقریباً  ایک جیسے ہیں۔

خدانخواستہ اگر کسی نے یہ بول دیاکہ اس کا کام کرنے کو یہ دل نہیں کرتا ، خوشی محسوس نہیں ہوتی،ہر وقت اداسی چڑچڑے پن سے جنگ رہتی ہے ،نیند اور بھوک عذاب بن گئے ہیں ،تو یہ سب سن کر کسی کے اندر کا مولوی جاگ اٹھتا ہے اور فور ی مشورہ کم اور طعنہ نفرین اچھال دیا جاتا ہے کہ    ہائے ہائے  کم بخت تمہارے ایمان کی کمزوری اور دین سے دوری نے یہ دن تم کو دکھلایا ہے ،ابھی تو بہ کرو اور نماز پنجگانہ ادا کرو ، تسبیح کرو اور یہ سب مسائل رفع دفع ہو جائیں گے۔

یا سیت اور منفی خیالات کا مارا ڈیپریشن  زدہ جب اتنی تنبیہات اور اپنی غلطیوں کا پردہ چاک ہوتا دیکھتا ہےتو اس کو ایک پل بھی خیال نہیں آتا ،معالج صاحب بھی اپنے پسماندہ شعور اور محدود علمیت کا بوجھ بھی اس ناتواں کے کندھےپر ڈال کر چل دیئے۔

پہلے صرف ڈیپریشن تھا، اب ساتھ میں احساس ِ گناہ اور احساسِ  جرم کے دورے بھی پڑنے شروع ہوجاتے ہیں اور پھر مرض بڑھتا گیا جوں جوں علاج کیا، والی کہانی شروع ہو جاتی ہے۔

دین سے دوری اور نماز کی افادیت پر کسے شک ہو سکتا ہے کہ یہ انسان کے ایسے ذاتی عوامل ہیں جن کا اس کی ذات اور روح سے گہرا تعلق ہوتا ہے مگر جب کسی نفسیاتی الجھن کے شکار شخص کو بطور علاج صر ف ان عوامل پر کار بند ہونے اور نجات حاصل کرنے کی تلقین کی جا رہی ہوتی ہے تو اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ بطور معالج جو یہ علاج بتا رہا ہے اوّل وہ صرف اپنی فرسٹریشن نکال رہا ہے، دوم وہ علم نفسیات سے مکمل طور لا علم ہے اور اس کی یہ لا علمی مریض کو خود سے بھی دور کر دیتی ہے۔

وہ انسانی جسم میں موجود مختلف بیالوجیکل پراسس جیسا کہ دماغ کی نیوروکیمیکل سرگرمی اور اس سرگرمی میں موجود نیورٹرانسمیٹرز کی ہماری سوچ، جذبات اور رویہ جات پراثر ہونے کی صلاحیت سے لا علم ہوتے ہیں۔ دوم بہت سی توہمات اور کم علمیت کی وجہ سے نفسیاتی عوارض کی صورت میں ظاہر ہونے والے جسمانی مسائل ، سماجی بد صورتی اور تعلقات کی خرابی کو نہیں سمجھ پاتے۔ کسی بھی علم کا ادراک تب ہی ہو پاتا ہے جب آپ اس علم کے بنیادی تصورات پر کچھ دسترس رکھتے ہوں ۔

پاکستان میں نفسیاتی مسائل کو لے کر جس قسم کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے وہ شاید نفسیاتی مرض سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے اکثریت صرف یہ سمجھتی اور مانتی ہے کہ نفسیاتی امراض کا کوئی وجود نہیں ہوتا اور ان کا علاج صرف عبادات میں مضمر ہے اگر اس بات کو بغیر تحقیق اور منطق کے مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ انسانی ذہن کے افعال، جذبا ت کی شر انگیزیاں اور ہارمونز کے زیر تسلط اعمال کو بھی رد کردیں ؟

اور ان تمام حیاتیاتی عوامل کر یکسر نظر انداز کر دیں جن کی وجہ سے تمام جسمانی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں ۔اور اسکے علاوہ دنیا بھر کی جامعات میں کسی بھی ڈگری کو حاصل کرنے کے لیے نفسیات کےعلم کو پڑھنے سے انکار کردیں ۔

اگر کسی کا پسماندہ شعور ان سب باتوں کو قبول کرتا ہے اور وہ یہ ماننے پر مجبور ہے کہ نفسیات صرف اک ڈھکوسلا ہے تو ان کے سامنے نفسیات کی صرف ایک تعریف رکھنے کی جسارت کروں گااور چاہوں گا کہ اس کو علمی ، عقلی اور منطقی دلائل سے رد کر دیں۔ ان کی علمی ذہانت کا مشکور رہوں گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نفسیات سائنسی علم کی وہ شاخ ہے جو انسان کے ذہنی افعال اور ان ذہنی افعال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کردار کا مطالعہ کرتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply