مکالمہ ، مبارکباد۔۔۔ محمد فیاض حسرت

مکالمہ کو اس معاشرے ، اس معاشرے میں بستے لوگوں اور ادب کی خدمت کرتے ہوئے دو سال آج کے دن مکمل ہوئے یعنی آج مکالمہ کی دوسری سالگرہ ہے ۔ تو کیوں نا آج کے ہی دن مبارک باد دی جائے ۔ جنابِ چیف ایڈیٹر مکالمہ ( انعام رانا ) ، ٹیم مکالمہ ، مصنفین مکالمہ اور قارئین مکالمہ آپ سبھی دلی مبارک باد قبول کیجئے ۔
مکالمہ کا تعارف ہی دیکھیے کس قدر بہترین اور لائقِ تحسین ہے ۔
“مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے، بس اسی خواہش کا نام “مکالمہ” ہے۔”

یہ جو مکالمہ کے تعارف میں ایک جملہ لکھا گیا اگر اس کی وسعت میں جایا جائے اور اسی جملے پہ کچھ لکھا جائے تو یقیناً لکھتے ہوئے بہت وقت لگے گا لیکن مختصر اً چند باتیں بیان کرتا ہوں ۔
اس معاشرے میں جو ہوا نفرت کو دی گئی ہے ، جس طرح تیزی سے ایک انسان سے دوسرے انسان تک نفرت پھیل رہی ہے یقیناً یہ انسانوں کے لیے اور اسی انسانوں سے بنتے معاشرے کے لیے خطرناک ہے ۔پیغام یہ دیا جاتا ہے ہے کہ اس نفرت کو ختم کیا جائے کہ ہم ایک دوسرے سے بات چیت کریں ، گفتگو کریں اور اس گفتگو میں ہم نفرت کو ہوا دینے کی بجائے پیار و محبت کو ہوا دیں ۔ آپس میں جتنا ممکن ہو سکے  محبتیں بانٹیں ۔ یہ عمل معاشرے کی بہتری کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے ۔ ایک اور بہت اہم بات بیان کی گئی کہ ہم دوسروں کی بھی سنیں ۔بظاہر تو یہ بات کتنی آسان لگتی ہے لیکن اس پہ عمل کیا جائے تو پھر یہ آسانی نہیں رہتی ۔ یعنی ، بات بتانا آسان ہے اور سننا مشکل ہے ۔ بعض انسانوں میں ہوتا ہے کہ وہ سوچتے ہیں کہ جو کچھ وہ سوچتے ہیں ،کرتے ہیں ،دیکھتے ہیں ٹھیک ویسے ہی دوسرے انسان بھی اسی طرح سوچیں ، دیکھیں اور کریں اگر وہ نہ کریں گے تو ذہن انہیں قبول کرنے سے قاصر رہتا ہے جو کہ ایک بری بات ہے ۔ یہاں سمجھنے کی بات ، عقلمندی اور درست رویہ یہ ہے کہ انسان اپنے سوا باقی انسانوں کے ان کے غور و فکر کرنے ، سنے اور بیان کرنے کے عمل کو اس انداز سے پرکھے کے جو دلیل کی بنیاد پر صحیح ہو اسے قبول کرے اور جو نہ ہو اسے بیشک رد کرے ۔ یعنی ہم اس انداز سے ، اس پہلو سے دوسروں کی بھی سنیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اختلاف کریں مگر احترام سے یعنی یہ ممکن نہیں کہ کسی  کے کہے یا کرنے پر کسی کو اختلاف نہ ہو لیکن ہر صورت یہ ممکن بنایا جائےکہ اختلاف احترام سے ہو۔ کہیں اس اختلاف کے ردِ عمل میں کچھ کہنے ،کرنے سے اخلاقی حد کو پار نہ کر گزریں ، کہیں اس کہنے ، کرنے سے کسی دوسرے کو تکلیف میں نہ مبتلا کر دیں ۔
انسان میں فطری دور پر یہ بات ہے کہ اسے دوسرے انسانوں کا بعض اوقات رویہ اچھا نہیں لگتا ، یعنی گفتگو کا انداز ،اٹھنے بیٹھنے کا انداز اور یہ بات بھی فطری طور پر انسان میں پائی جاتی ہے کہ غور و فکر کیے بغیر بعض دفعہ وہ کچھ غیر ضروری اقدامات کر گزرتا ہے ۔ جس سے اس کو، اس کے ساتھ جڑے انسانوں کو نقصان ہوتا ہے ۔ انسانوں میں یہ چلتا آیا ہے کہ کسی بھی بات کی وجہ سے ان کے درمیان ایک خلش پیدا ہو جاتی ہے ۔ جو کہ ایک خطرناک پہلو کی بنیاد ہوتی ہے ۔ اچھا اور سمجھدار انسان وہی ہوتا ہے جو اس خلش کو معاملہ کی نوعیت کو سمجھ کر دور کرنے کی کوشش کرتا ہے نہ کہ اسے اور بڑھاتا ہے ۔ یہ بڑھانے کا عمل بیوقوفانہ عمل ہے ۔
دعا  ہے کہ مکالمہ اور اس سے جڑے سبھی لوگ سلامت رہیں ۔یونہی لوگوں کی خدمت کرتے رہیں ۔ ایک دوسرے میں محبتیں بانٹتے رہیں ، ایک دوسرے کی سنتے رہیں اور ایک دوسرے کی اصلاح کرتے رہیں ۔آمین

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply