• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مولوی، اینکرز، یو ٹیوبر سب ڈاکٹر محرب کے پیچھے کیوں؟۔۔ثاقب لقمان قریشی

مولوی، اینکرز، یو ٹیوبر سب ڈاکٹر محرب کے پیچھے کیوں؟۔۔ثاقب لقمان قریشی

میں ویل چیئر پر ہوتا ہوں۔ ساری زندگی معذوری کے ساتھ گزری ہے۔ زندگی میں بہت سی محرومیاں تھیں۔ شادی ہوئی تو کچھ کا خاتمہ ہوا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے نوازا تو جیسے محرومیاں ختم ہوگئیں۔ پھر میں نے آگے بڑھنا شروع کیا۔ پہلے اپنے جیسوں کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنا شروع کی۔ یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ اس میں بینائی سے محروم، سماعت سے محروم، اقلیتیں، خواتین، مزدور اور خواجہ سراء سب شامل ہوتے چلے گئے۔

معذور افراد میں بہت سی محرومیوں کے باوجود ہمارے سوشل میڈیا گروپس میں گپ شپ بھی ہوتی ہے، لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے پر جگتیں بھی مارتے ہیں، دوستیاں بھی کرتے ہیں، ایک دوسرے کو مشورے بھی دیتے ہیں، پیار بھی کرتے ہیں اور دھوکے بھی دیتے ہیں۔ مجھے جن گروپس کا اعزازی ایڈمن بنایا ہوا ہے وہاں اکثر لڑکیاں لڑکوں کے رویے کی شکایت کرتی نظر آتی ہیں۔ جو لڑکیوں کو زیادہ تنگ کرتے ہیں میں انھیں گروپ سے ہی نکال دیتا ہوں۔

خواجہ سراء زندگی کا ہر کام کرسکتے ہیں۔ دیکھ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، چل سکتے ہیں۔ پھر بھی انکے اندر محرومیاں ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ خواجہ سراؤں کے گھر والے معاشرتی دباؤ میں آ جاتے ہیں۔ جب بچے کو گھر والے ہی قبول کرنے سے انکار کر دیں تو “معاشرہ” کیسے قبول کرے گا۔ خواجہ سراء بچہ جب لڑکیوں والی حرکتیں شروع کرتا ہے تو پہلے اسے پیار سے پھر مار سے سمجھایا جاتا ہے۔ گلی محلے، سکول، خاندان جہاں بھی جاتا ہے اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ گھر والوں کے دباؤ سے تنگ پڑ کر خود کو گھر میں قید کر لیتا ہے، گھر سے بھاگ جاتا ہے یا خود کشی کرلیتا ہے۔ گھر سے بھاگنے کے بعد عزت والے کام کی تلاش کرتا ہے تو ظالم معاشرہ نہیں کرنے دیتا۔ مجبور ہو کر بھیک، فنکشنز اور سیکس جیسے کام کرنا شروع کر دیتا ہے اور معاشرے کیلئے گالی بن جاتا ہے۔

خواجہ سراؤں کے گھر والے اپنے دل کو اتنا سخت کر لیتے ہیں کہ شادیوں، عیدوں، خوشی اور غمی پر بھی انھیں گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ انکی وفات پر جنازہ قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔

ہمارے ملک میں رہنے والا ہر خواجہ سراء دن میں متعدد بار ہراسانی کا شکار ہوتا ہے۔ گھر سے بھاگنے سے پہلے متعدد خواجہ سراؤں کا ایک آدھ بار ریپ ہوچکا ہوتا ہے۔ گھر چھوڑنے کے بعد ریپ ہوتے رہتے ہیں۔ میری کچھ خواجہ سراء ایکٹوسٹ سے اس موضوع پر بات ہوئی سب کے ایک سے زیادہ مرتبہ ریپ ہوچکے ہیں۔

خواجہ سراؤں کے ڈیروں پر مایوسی کا راج ہوتا ہے۔ خواجہ سراء اندر کی آگ بجھانے کیلئے نشے کا سہارا لیتے ہیں۔ کمیونٹی میں نشہ اتنا عام ہے کہ کم ہی لوگ اس کی لت سے محفوظ ہیں۔

خواجہ سراء دیکھنے میں جتنے مطمئن اور مضبوط نظر آئیں اندر سے خالی ہوتے ہیں۔ میں اپنے آپ کو خواجہ سراء کی جگہ پر رکھوں تو ایک طرف میری جنس کا تعین نہیں ہو پایا۔ خواتین مجھے اپنے ساتھ بٹھانا نہیں چاہتیں جبکہ مردوں میں میری عزت محفوظ نہیں ہے۔ گھر اور معاشرہ پہلے ہی دھتکار چکا ہے۔ عزت والے کام نہیں کرنے دیئے جاتے۔ نہ میں شادی کرسکتا ہوں نہ خاندان بنا سکتا ہوں۔ ایسی صورتحال میں میرے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کرتا رہے گا کہ میرے وجود کا مقصد کیا ہے؟

جب سے جماعت اسلامی نے خواجہ سراؤں کے حقوق کے ایکٹ پر سیاست چمکانا شروع کی ہے ملک بھر میں خواجہ سراؤں پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پورا خیبرپختون خوا  خواجہ سراؤں کیلئے غیر محفوظ ہو چکا ہے۔ فائرنگ اور قتل کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ لوگ خواجہ سراؤں کو گاؤں اور ضلع بدر کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں پورے ملک میں پُرتشدد واقعات میں اضافے کا امکان ہے جو کہ قابل تشویش ہے۔

ڈاکٹر محرب معیز اعوان خواجہ سراء کمیونٹی کا ایک کردار ہے جو کہ کبھی مرد، کبھی عورت تو کبھی خواجہ سراء کے روپ میں نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا کے پروگراموں میں کبھی نشہ کرتا، کبھی ہم جنس پرستی کے دفاع میں بولتا نظر آتا ہے۔ جماعت اسلامی کی مذہب کے نام پر سیاست کے بعد خواجہ سراء پورے ملک کیلئے گالی بن چکے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا، یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر بیٹھے مولوی اور اینکر حضرات خواجہ سراؤں میں برائیاں تلاش کرنے اور انھیں سازش کا حصہ بنانے میں جڑے ہوئے ہیں۔

یوٹیوب پر بیٹھے مولویوں اور اینکرز کو خواجہ سراؤں میں اور کچھ نہیں ملا تو انھوں نے ڈاکٹر معیز کے چند بیانات اٹھا کر پروگرام کرنا شروع کر دیئے۔ بعض مولوی حضرات اور میڈیا کے مشہور اینکرز نے ڈاکٹر معیز پر کئی کئی گھنٹوں کے پروگرام کیئے ہیں۔ اس وقت یوٹیوب ڈاکٹر معیز کے خلاف نفرت آمیز پروگراموں سے بھرا پڑا ہے۔ میں نے کچھ پروگرام دیکھے تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ڈاکٹر معیز امریکہ کا صدر ہے یا عالم اسلام کا اتنا بڑا دشمن ہے کہ جس کے ایک اشارے سے ملک میں اسلامی اقدار کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ہر طرف بے راہ روی عام ہو جائے گی۔ ہمارا خاندانی نظام تباہ و برباد ہو جائے گا وغیرہ۔

اینکرز اور مولویوں سے میرا سوال ہے کہ ڈاکٹر معیز نہ تو ملک کا صدر ہے نہ وزیراعظم اور نہ اسکی لمبی چوڑی فین فالونگ ہے کہ اس کے ایک بیان سے ملک کا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ پھر اسکو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یا تو آپ لوگوں کے پاس بہت فالتو وقت ہے یا پھر آپ کے پاس معلومات کی کمی ہے اسی وجہ سے چھوٹی چھوٹی باتوں کا بتنگڑ بنا کر شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

جس طرح ہم لوگوں میں ہر طرح کی رائے رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ اسی طرح خواجہ سراء کمیونٹی میں بھی ہر قسم کے لوگ ہیں۔ ایڈووکیٹ نشاء راؤ، ڈاکٹر سارہ گل، جنت علی، نایاب علی وغیرہ بھی تو اسی کمیونٹی کا حصہ ہیں۔ ان کی زندگیوں پر پروگرام کیوں نہیں کرتے۔

خواجہ سراء کمیونٹی میں بہت سی برائیاں پائی جاتی ہیں۔ لوگ مجھے کہتے ہیں کہ آپ انکی نشاندہی کیوں نہیں کرتے۔ میں کہتا ہوں کہ جب تک میں اس کمیونٹی کو عام لوگوں کے مساوی حقوق نہیں دلوا دیتا اس وقت تک تنقید نہیں کرونگا۔ مظلوم اور محروم ترین طبقے کی باتوں پر پروپیگنڈہ کر کے شہرت حاصل کرنا گناہ عظیم ہے۔ جس کا میں حصہ نہیں بننا چاہتا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یوٹیوب پر بیٹھے مولویوں اور اینکرز سے گزارش ہے کہ وطن عزیز کو بہت سے مسائل درپیش ہیں جن پر آپ پروگرام کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کی تنقید نفرت اور ہیجان کا سبب بن رہی ہے تو اسے شرپسندی تصور کیا جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply