موسم، جلسہ اور کورونا۔۔سعید چیمہ

موسم بھی اب تو شدید ہونے لگا ہے، جسم و روح پر ٹوٹنے والی مصیبتوں میں ایک اور افتاد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ سردی کا موسم ہمیشہ سے ہی درویش کے جسم پر بھاری گزرتا ہے، امام الہند یعنی مولانا ابوالکلام آزاد سے شدید انسیت کے باجود بھی سرد موسم نہیں بھاتا۔ غبارِ خاطر میں مولانا لکھتے ہیں کہ صبحِ صادق کے وقت اگر آتش دان کے سامنے بیٹھ کر چائے کے جام پر جام میسر ہوں تو کون کم بخت ہو گا جو کسی اور چیز کی تمنا کرے گا، مولانا کے ہاں چائے سے مراد کچھ اور تھا۔ دودھ، پتی اور چینی کے ملاپ کو مولانا ملغوبہ کہتے تھے،  فرماتے تھے کہ یہ انگریزوں کی بدعت ہے کہ انہوں نے چائے میں دودھ شامل کر دیا اور اب تو حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ دودھ میں چائے شامل کی جاتی ہے۔

عبدالرزاق ملیح آبادی رقم طراز ہیں کہ مولانا چائے خود بناتے تھے اور پینے والا عش عش کر اٹھتا تھا۔  خیر اب تو دودھ، پتی اور چینی کا ملغوبہ ہی چائے بن چکی ہے اور یہی ملغوبہ اب جسم کی فرحت کا سامان کرتا ہے، مگر کچھ امراض کا علاج بھلا دواؤں سے کہاں ہوتا ہے، ایک طرف تو اس کم بخت سردی نے بستر کے زندان میں قید کر دیا ہے تو دوسری طر ف لوگوں کی مستعدی میں اضافہ ہو گیا ہے۔  مجال ہے جو لوگ سردی اور کورونا کے ملاپ سے بھی خوفزدہ ہوں، عاشقوں کے محلے میں لاہور کے جلسے کی دھوم ہے، لوگ نعرہ مستانہ بلند کر رہے ہیں کہ پاکستانی سیاست کا رخ بدل جائے گا، اپنی تمام تر عقل کو بروئے کار لانے کے باوجود بھی درویش سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستانی سیاست کا رخ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہو گا، اور جو رخ بدلنے کی تگ و دو میں ہیں وہ تو خود گردشِ ایام میں الجھے ہوئے ہیں، موجِ حوادث کے تھپیڑوں نے ان کا سفینہ بہت پہلے ڈبو دیا تھا، مگر داد تو دینی پرے گی کہ سفینہ ڈوب گیا مگر وہ لوگ سفینے کے تختوں پر بیٹھ کر  ٹائی ٹینیک پر سوار مخالفوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، نا ہنجار لوگ اگر اس مقابلے کو بیوقوفی کہیں تو ان پر  درویش کی طرف سے کوئی قدغن نہ ہو گی، اس مقابلے کا نجام کیا ہو گا ، پیشن گوئیاں تو کی جا سکتی ہیں مگر ختمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

بازگشت لاہور کے جلسے کی ہو رہی ہے، ایک کالم نگار تو عوام کے لیے اس جلسے میں شرکت کو فرض قرار دے چکے ہیں، ان صاحب کی معصومیت کے کیا کہنے،  ان کو کچھ پروا نہیں کہ کورونا پھیلے یا کم ہو، یہ بات دھیان میں رہے کہ موصوف خود بھی کورونا کا شکار ہو چکے ہیں، “ان کی آنکھوں، کانوں اور دلوں پر مہریں لگا دی جاتی ہیں”، درد مندانہ سوال ہے کہ عوام کو جلسے میں شرکت کی ترغیب دینے والے کالم نویس کیا خود اس جلسے میں شرکت کریں گے؟ پہلے سیاست دان ہم ایسے عوام کو انسان نہیں سمجھتے تھے اب تو شاید ان کالم نگاروں کے لیے بھی ہم انسان نہیں رہے۔ گزشتہ دنوں ریحان احمد یوسفی (جن کا قلمی نام ابو یحییٰ ہے) کا ناول “قسم اس وقت کی” زیرِ نظر تھا، ناوال میں لکھا ہوا پایا کہ ذہانت کی ایک حد ہوتی ہے مگر حماقت کی کوئی حد نہیں ہوتی،  اب ہم باشندگانِ پاکستان بھی شاید وہی لوگ ہیں جن کی حماقت کی کوئی حد نہیں، جو باربار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں لیکن پھر بھی اس سوراخ سے پاؤں نہیں ہٹاتے،  رسالتمآبﷺ نے کہا تھا کہ مومن کو ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا،  ہمارا بحثیتِ قوم یہ حال ہے کہ

میں چوٹ بھی کھاتا جاتا ہوں اور قاتل سے بھی کہتا جاتا ہوں

توہین سے دست و بازو کی وہ وار کہ جو بھرپور نہ ہو

Advertisements
julia rana solicitors

رؤف کلاسرا پہ خدا رحم کرے، کمال انسان ہیں،  مشرف دور میں لندن میں ہونے والی ملاقاتوں کے چشم دید گواہ ہیں، اپنے کالموں میں اکثر وہ ان ملاقاتوں کی روداد بیان کرتے ہیں، روداد پڑھ کر آنکھوں میں لالی اتر آتی ہے اور سر ندامت سے جھک جاتا ہے کہ یہ ہمارے لیڈران تھے اور ان ایسوں کے بچے ہمارے رہ نما ہوں گے جنہوں نے ہماری مشکلات سے کبھی چشم ہی چار نہیں کیے،  خدا بھلا کر ہم پاکستانیوں کا بھی جو غیر ضروری چیزوں کی طرف دل کھول کر متوجہ ہوتے ہیں، کل رات ایک استادِ محترم فیس بک پر شکوہ کر رہے تھے کہ جب میں آن لائن کلاس لیتا ہوں تو کلاس میں تیس طالبعلم بھی نہیں ہوتے مگر جب گل پانڑہ فیس بک پر لائیو آتی ہے تو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں چلی جاتی ہے، پس ثابت ہوا کہ اس قوم کو تعلیم کی نہیں بلکہ گلوکاروں کی ضرورت ہے،  اگر ہمارے ہاں تعلیم کا راج ہوتا تو مجال ہے کہ لوگ جلسے میں شرکت کرتے،  مگر چوں کہ نیم خواندہ لوگوں کی ذہنیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی بات کا اثر قبول کر لیتے ہیں، اس لیے جلسے میں شرکت کرنے والوں سے بھی درویش کوئی شکوہ روا نہیں رکھے گا، ہماری طرح آپ بھی دعا کیجیئے کہ جلسے کے بعد کورونا پھیلنے کی شرح میں اضافہ نہ ہو، مگر صرف لبوں سے نکلی ہوئی دعائیں کب قبول ہوتی ہیں،  اعمال کرنے پڑتے ہیں قبولیت کے لیے اعمال کرنے پڑتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply