• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مودی، وہ جانور جو اپنے بچے کھا جاتا ہے۔۔ثاقب اکبر

مودی، وہ جانور جو اپنے بچے کھا جاتا ہے۔۔ثاقب اکبر

مودی کو ویسے تو طرح طرح کے ناموں سے شہرت حاصل ہے، اسے گجرات کا قصاب بھی کہا جاتا ہے۔ یہی کشمیریوں کا بھی قاتل ہے۔ کبھی اس قصاب پر امریکہ میں داخلہ بند تھا۔ آج یہ قصاب طاقت کے نشے میں دھت اپنے ہم وطنوں کو طرح طرح سے ستا رہا ہے۔ یہ صرف اقلیتوں کا دشمن نہیں بلکہ کمزور اور پسماندہ ہندوئوں کی لوٹ مار کے مختلف ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے۔ یہ صرف بے رحم سرمایہ داروں کے مفاد کا سوچتا ہے جو اپنی دولت کی طاقت سے اسے برسراقتدار لائے ہیں۔ اسے عوام کو دھوکا دینے کے طریقے آتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہندوتوا ہے، یہ اپنے آپ کو ہندو مذہب کا محافظ ظاہر کرکے سادہ دل ہندو عوام کو انتہا پسند بناتا ہے اور پھر ان کے ووٹوں سے اقتدار قائم کرتا ہے۔ اس کی سیاست کی بنیاد نفرت اور تصادم ہے۔ آج کل یہ بھارت کے غریب کسانوں کا خون پینے کے درپے ہے۔ دو تہائی اکثریت کے بل پر وہ جو چاہتا ہے پارلیمان سے قانون منظور کروا لیتا ہے۔ اب حال ہی میں اس نے سرمایہ داروں کو موقع دینے کے لیے کسانوں کے خلاف ایک قانون منظور کروایا ہے، جس کے خلاف پورے ملک میں کسان اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور گذشتہ کئی روز سے دہلی کے راستوں پر براجمان ہیں۔ وہ پولیس کا تشدد سَہ رہے ہیں۔ سردی میں بوڑھے کسانوں کے خلاف آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا جا رہا ہے۔

گذشتہ اتوار کو مودی نے ’’من کی بات‘‘ پروگرام میں ان قوانین کا ایک مرتبہ پھر دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ ان قوانین نے نہ صرف کسانوں کے بہت سے بندھن ختم کیے ہیں بلکہ انھیں اور مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔ مودی کی عیاری کا حال یہ ہے کہ اس نے اس پروگرام کا آغاز وارنسی سے چوری ہونے والی دیوی انا پورنا کی قدیم مورتی کے کینیڈا سے واپس لائے جانے کی خوشخبری سے کیا۔ یہ مورتی تقریباً سو سال پہلے وارنسی کے ایک مندر سے چرائی گئی تھی۔ اسے کہتے ہیں ایشو سے نظریں ہٹانے کے لیے نان ایشو کو نمایاں کرنا، اسے کہتے ہیں بھوکے کو کھانا کھلانے کی بجائے اسے لالی پاپ دینا۔ یہ لالی پاپ دینا مودی کو خوب آتا ہے۔ اسی کو کہتے ہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنا۔ مودی اُس ’’گوہ‘‘ کی طرح ہے جو اپنی بھوک مٹانے کے لیے اپنے ہی بچوں کو کھا جاتی ہے۔

یہ غریب کسان ہی ہیں جو اپنی محنت سے عوام کی بھوک مٹاتے ہیں، آج وہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے بہت سادہ سے مطالبات لے کر دہلی کے راستوں پر دہائیاں دے رہے ہیں اور مودی کے کانوں تک ان کی آواز نہیں پہنچ رہی۔ ملک بھر کے کسانوں کی تقریباً دو سو تنظیمیں اس انقلابی احتجاج میں شریک ہیں، علاوہ ازیں بھارت کی چوبیس سیاسی پارٹیوں نے کسانوں کی حمایت کے لیے آواز بلند کی ہے، جن میں کانگریس کے علاوہ بائیں بازو کی جماعتیں ڈی ایم کے، ٹی آر ایس، ایس پی، بی ایس پی، آر جے ڈی، شیوسینا، این سی پی، اکالی دل، عام آدمی پارٹی، جے ایم ایم اور گیپکر اتحاد شامل ہیں۔ کسانوں نے پورے بھارت کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے اور ان پارٹیوں نے اس اعلان کی حمایت کی ہے۔ کسانوں نے حمایت کرنے والی سیاسی پارٹیوں سے کہا ہے کہ وہ صرف کسانوں کی حمایت کریں اور اس کے لیے اپنے پرچم اور بینر استعمال نہ کریں۔

آج (9 دسمبر 2020ء) جب ہم یہ سطور سپرد قلم کر رہے ہیں بھارت میں بھارتی حکومت کے کسانوں سے چھٹے مذاکرات کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے مذاکرات کے پانچ دور ناکام ہوچکے ہیں۔ بھارتی کاشت کار متنازع زرعی اصلاحات کے بل کو مسترد کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اس طرح کسانوں کو سرمایہ داروں کے رحم و کرم پر چھوڑا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں ذخیرہ اندوزی بڑھ جائے گی اور کسانوں کا استحصال زیادہ ہو جائے گا۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ گذشتہ حکومتوں میں بھی بدحال تھے لیکن اس حکومت میں وہ بدترین حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ بھارت کی مختلف ریاستوں کے کسانوں نے پارلیمان سے مطالبہ کیا ہے کہ انھیں بدحالی سے نکالنے کے لیے ان کے تمام قرضے معاف کیے جائیں اور ان کی پیداوار کی منافع بخش قیمت کی ضمانت دی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ گذشتہ بیس برس میں بھارت میں تین لاکھ سے زیادہ کسانوں نے غربت و تنگدستی اور بینکوں کے ہوشربا سودی قرضوں کے ہاتھوں خودکشی کی ہے۔

دنیا بھر میں بھارت کے کسانوں کی حمایت میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی طرف سے بھارتی کسانوں کی تحریک کی حمایت میں آواز بلند کی گئی ہے۔ کینیڈا میں بھارتی کسانوں کی حمایت میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ دہلی نے کینیڈا کو انتباہ کیا ہے کہ وزیراعظم کے بیان کے نتیجے میں کینیڈا سے باہمی تعلقات متاثر ہوسکتے ہیں لیکن اس انتباہ کے بعد کینیڈین وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر کسانوں کی حمایت کا اعادہ کیا ہے۔ لندن میں بھارتی ہائی کمیشن کے باہر سینکڑوں افراد نے کسانوں کی حمایت میں مظاہرہ کیا اور اس کے بعد مارچ بھی کیا۔ امریکی شہر سین فرانسیسکو میں بھارتی شہریوں نے کسانوں کی حمایت میں ریلی نکالی۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں بھی کسانوں کی حمایت میں مظاہرے کیے گئے ہیں۔ برطانیہ کی مختلف سیاسی جماعتوں کے 36 اراکین پارلیمان نے بھارتی کسانوں کے مظاہروں کی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے بھی بھارتی کسانوں کی حمایت میں بیان دیا ہے۔ بھارت کے اندر مختلف ٹریڈ یونینز جن میں ٹرانسپورٹ اور بینک ملازمین کی یونینیں بھی شامل ہیں، کسانوں کی حمایت میں میدان میں آچکی ہیں۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو دنیا کے کئی اہم ممالک میں انقلاب کی بنیاد غریب کسانوں میں پیدا ہونے والی بیداری ہی کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ چین میں آنے والا انقلاب کسانوں کے مظاہروں ہی سے شروع ہوا، جس کی قیادت مائوزے تُنگ نے کی۔ سوویت یونین کے اشتراکی انقلاب میں بھی کسانوں کا کردار رہا ہے۔ آج بھارت میں مسلمان، سکھ اور عیسائی ہی مودی حکومت اور اس کے فاشسٹ نظام سے نالاں نہیں بلکہ غریب اور پسماندہ ہندو بھی اس سے تنگ آچکے ہیں۔ غریب دن بدن غریب تر ہو رہا ہے اور سرمایہ داروں کے ہاتھ غریبوں کے وسائل نوچنے کے لیے کھلے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ مودی جو قصاب کے نام سے ماضی میں شہرت حاصل کرچکا ہے، اس کے بارے میں اب ثابت ہوتا چلا جا رہا ہے کہ وہ فقط مسلمانوں کا قاتل نہیں بلکہ اس کے منہ کو خون لگ چکا ہے۔ وہ جدھر منہ کرتا ہے لوگوں کا خون پینے کے درپے رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس کی آنکھوں میں خون اتر چکا ہے، وہ ایک وحشی درندہ بن چکا ہے، اسے بھارت کا دجال بھی کہا جاسکتا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے ماتھے پر ایک آنکھ ہوگی، جو خون کی طرح سرخ ہوگی۔ اس کے دور میں بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بھارت ہی کا نہیں انسانیت کا بھی دشمن ہے۔ آج پوری دنیا میں اس کا چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کے خلاف آواز اٹھائی جا رہی ہے۔ بھارت کے اندر بھی تمام سیاسی جماعتیں اور طبقے کسانوں کی پشت پر نظر آرہے ہیں۔ اگر ان عوام کو حقیقی انقلابی اور عوام دوست قیادت میسر آگئی تو بھارت کی قسمت بدل سکتی ہے۔ دیکھتے ہیں آنے والے دن ہمیں کیا منظر دکھاتے ہیں۔
اسلام ٹائمز

Facebook Comments