منٹو ،کشمیر اور یو این او۔۔۔۔جاوید خان

منٹو کشمیری تھا؟نہ بھی ہوتا تو تب کیا ہو جاتا؟۔

وہ لدھیانہ میں پیدا ہوا اور امرتسر میں جوان ہوا۔وہی رومانس کیے،دلی اور ممبئی میں پیسے کمائے،شرابیں پی۔اور امرتسر سے اس طرف واہگہ پار کرکے زندہ دلوں کے شہر،لاہور چلاآیا۔کشمیر سے اس کا جسمانی تعلق توبرائے نام رہا،یابالکل ہی نہیں تھا۔مگر اس کی روح کشمیر میں گھومتی رہی۔جسم بے شک امرتسر،ممبئی ،دِلی اور لاہور میں رہا۔کیا کسی کشمیری گرو،سادھو،سانت،جوگی یا پھر ولی نے کسی محب وطن کشمیری کی روح اس پر چھوڑ دی تھی۔؟یانظریہ تناسخ سچا ہے کہ سات جنموں پہلے کی کوئی کشمیری جیتی جاگتی روح منٹو کی شکل میں امرتسر میں پیدا ہوگئی۔کہتے ہیں وہ زندگی میں صرف دو بار کشمیر گیا۔وہ بھی پورا کشمیر نہیں گھوما بس پیر پنجال کی وادیوں سے گزر کر،اَننت ناگ میں قیام کیا۔تو پھر کشمیر منٹو کے دل و دماغ سے کیوں نہ نکلا۔؟ اس کے قلم سے ”ٹیٹوال کاکُتا“،”آخری سلیوٹ“،”کرچیں اور کرچیا ں“،(جنت اراضی بمقابلہ نہرو)،”مُرلی کی دھن“ جیسی تحریریں نکلیں۔جن میں کشمیر ہے۔اس نے صرف پیرپنجال کی کچھ وادیاں سفر کے دوران اور سری نگر کا کچھ حصہ اپنے قیام کے دوران دیکھا تھا۔مگر وہ کشمیر کے چپے چپے سے واقف تھا۔کشمیر کا ماضی،حال اور مستقبل وہ سب جانتا تھا۔

”ٹیٹوال کا کتا“ (افسانہ) میں وہ کشمیر کے جغرافیے اور مشکلوں کو دیکھتا ہے۔اور جیسے وہ اپنی ذات کو نشانے پر رکھے ہوئے ہے ایسے ہی کشمیر کو رکھے ہوئے ہے۔ٹیٹوال کا کتا (افسانے کاکردار) جو دو طرفہ فائرنگ کے دوران مارا جاتا ہے۔صوبے دار ہمت خان کے الفاظ میں وہ شہید ہو جاتا ہے۔”شہید ہو گیا بے چارہ“ اس جملے میں منٹو کی کشمیر سے محبت کرب بن کر سامنے آتی ہے۔یاپھرکتا شہید کا لقب پا کر عظمت کی بلندیوں پر جابیٹھتا ہے۔؟ مگر جمعدار ہرنام سنگھ کو دیکھیے جو اس افسانے میں بھارتی فوجی کردار ہے۔وہ کیا کہتا ہے۔”جمعدار ہرنام سنگھ نے بندوق کی گرم گرم نالی اپنے ہاتھ میں لی اور کہا۔۔”وہی موت مرا جو کتے کی ہوتی ہے۔“ آخر فاختہ،ہرن،مارخور او رسفید برفانی چیتا بھی تو کشمیر کی پہچان ہیں۔دو طرف گولیوں کے بیچ ”کُتے“ کو چننے کی کیا ضرورت تھی۔؟منٹو کے لاشعو ر میں کشمیر اور کشمیریوں کی بے بسی لاوہ بن کر کھولتی ہے۔

آخری سیلوٹ (افسانہ) کی ابتدائی سطریں دیکھیے ”یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی۔صوبیدار رَب نواز کادماغ ایسی بندوق بن گیا تھا،جس کا گھوڑا خراب ہو گیا ہو۔“منٹو افسانوں کے علاوہ نجی زندگی میں بھی خود کو کشمیری کہلانے پر فخر محسوس کرتا تھا۔آخر کشمیریوں کی سیکڑوں،ہزاروں ذاتیں ہیں،جو کشمیر سے باہر جا کر بسیں۔اقبال،پنڈت نہرو،امام خمینی،شہاب اور چراغ حسین حسرت۔مگر کشمیر کے لیے منٹو کیوں پگھلتا رہا۔امرتسر میں کشمیری چائے اور کشمیری باقرخانیاں تو کشمیریوں اور غیرکشمیریوں،سبھی نے کھائیں۔لیکن اس کا اثر صرف منٹو پر ہی کیوں ہوا۔؟وہ اپنی کہانیوں میں کشمیر کے نقشے لفظوں میں بیان کرتا ہے۔وہ کشمیری ہاتو(کشمیری مزدور،بوجھ اٹھانے والے)،ان کی معاشی غارت گری،غربت اور غریب کشمیریوں کے کھانے بیان کرتا ہے۔”رب نواز کو وہاں پہاڑوں میں ایک عجیب بات نظر آئی تھی۔چڑھائی کی طرف کوئی پہاڑی درختوں اور بوٹوں سے لدی پھندی ہوتی تھی اور اُترائی کی طرف گنجی۔کشمیری ہاتو کے سر کی طرح“ (آخری سیلوٹ)
”بخیو دائی جو ہر روز جیناں کو دیکھنے آتی تھی،اک دن یہ خبر لائی کہ ہندوستان والے دَریا بند کرنے والے ہیں۔جیناں اس کا مطلب نہ سمجھی۔وضاحت کے لیے اس نے بختو دائی سے پوچھا: دریا بند کرنے والے ہیں۔؟ یہ کون سے دریا بند کرنے والے ہیں۔؟ بختودائی نے کہا: وہ جو ہمارے کھیتوں کو پانی دیتے ہیں۔“ (یزید)
”کریم داد چوپال چلا گیا۔وہاں قریب قریب سب مرد جمع تھے۔چودھری نتھو کو گھیرے، اس سے دریا بند کرنے والی خبر کے متعلق باتیں پوچھ رہے تھے۔کوئی پنڈت نہرو کو پیٹ بھر کر گالیاں دے رہا تھا، کوئی بد دعائیں مانگ رہا تھا۔کوئی یہ ماننے سے ہی یکسر منکر تھاکہ دریاؤں کا رخ بدلا جاسکتا ہے۔“(یزید)
اسی افسانے میں آگے کی سطریں ہیں۔”کچھ ایسے بھی تھے جن کاخیال تھا کہ جو کچھ ہونے والا ہے،وہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے،اسے ٹالنے کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ مل کر مسجد میں دعا مانگی جائے۔“
”مبارک ہو کیمے!چاند سا بیٹا ہوا ہے،اب کوئی اچھا سا نام سوچ اس کا۔؟“
”نام!“ کریم داد نے ایک لحظے کے لیے سوچا۔”یزید۔۔۔۔۔۔۔۔۔یزید!“
جیناں کے منہ سے متعجب چیخ نکلی۔۔۔۔”یزید!“
کریم داد نے سنجیدگی سے جواب دیا ”ضروری نہیں کہ یہ بھی وہی یزید ہو۔۔۔۔۔اُس نے پانی بند کیا تھا۔۔۔۔یہ کھولے گا!“
کتنا کُڑھتا ہے منٹو۔۔!

Advertisements
julia rana solicitors

آخری سیلوٹ (افسانہ) میں محاذ پر ڈٹا رَب نواز سوچتا ہے ”پاکستانی فوجی کشمیر کے لیے لڑ رہے تھے یا کشمیر کے مسلمانوں کے لیے۔؟اگر انھیں کشمیر کے مسلمانوں ہی کے لیے لڑایا جاتا تھا تو حیدرآباد اور جوناگڑھ کے مسلمانوں کے لیے کیوں انھیں لڑنے کے لیے نہیں کہا جاتا تھا۔اور اگر یہ جنگ ٹھیٹ اسلامی جنگ تھی تو دنیا میں دوسرے اسلامی ملک ہیں،وہ اس میں کیوں حصہ نہیں لیتے۔؟“
”کرچیں اور کرچیاں“میں وہ خود ساختہ باتیں کرتا ہے یہ باتیں ایک پاگل کی خود کلامی لگتی ہے۔مثلاً
”لیکن میں تم سے صاف الفاظ میں کہناچاہتا ہوں کہ مجھے کشمیر چاہیے۔اس لیے کہ میں وہاں پیدا ہوا تھا۔“
”منٹو وہاں پیدا نہیں ہُوا تھا۔“
”دنیا کا کوئی انسان وہاں پیدا نہیں ہوا۔“
”اگر کوئی انسان پیدا ہوتا رہا تو وہ ہمیشہ کشمیر سے باہر پیدا ہوتا رہا ہے۔“
”اس کی وجہ۔؟“
”خود کشمیر سے پوچھو۔“
”خودپیدا کرنے والے سے پوچھو۔“
”یہ بڑی عجیب و غریب بات ہے۔“
”اس عجیب و غریب بات کا دوسرا نام یو۔این۔او۔ہے۔“
”یہ بھی کافی عجیب و غریب نام ہے۔“
”عجیب و غریب کا نام ہی سیاست ہے۔“
”اس کا دوسرا نام سعادت ہے۔“
”ایں سعادت بزو ر بازو نیست۔“
اسی افسانے کی چند اورسطریں ہیں۔
”سالا کچھ کرتا ہی نہیں (یو۔این۔ایو۔)
”نہیں یار۔۔۔۔۔رپورٹیں لکھتا ہے۔اور یہ بڑا ہی مشکل کام ہے۔“
”مشکلیں زندہ باد۔“
”آزادکشمیر زندہ باد۔“
”جنت کے بھی ٹکڑے ہوئے ہیں۔“
”آدھا ہمارا۔۔۔۔۔آدھا ان کا۔“
”نہیں ہم پورا چاہتے ہیں۔“
”ثابت و سالم جنت۔“
حقاکہ باعقوبت دوز خ برابر است
رفتن بپائے مردے،ہمسایہ دربہشت
”یہ کون ہے۔“
”منٹو۔“
منٹو نے کشمیر کو بہت دُور آگے جاکر دیکھا۔ہاتو سے یو۔این۔او۔ پھر موجودہ اور بعد آنے والے حالات تک۔اتنا دُور جاکرکہ جتنا کسی اور نے نہیں دیکھا۔وہ کشمیر کے معاملے میں یو۔این۔او۔کو بندر کہتا ہے۔جو دوبلیوں میں سمجھوتہ کرنے کے بہانے روٹی خود کھانا چاہتا ہے۔
اُس کی دیگر تحریروں میں،ایک خط،شغل،بائی بائی،پانچ دن،جاؤ حنیف جاؤ،موج دین،پنڈت نہرو کے نام ایک خط ہیں۔ان سب میں صرف و صرف کشمیر ہے۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply