معیشت اور سیاست/محمد اسد شاہ

کہا جاتا ہے کہ “ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں ۔ اور اسی بات کو شاعرانہ زبان میں یوں بھی کہا جاتا ہے؛
لمحوں نے خطا کی تھی
صدیوں نے سزا پائی !

پاکستان کی گزشتہ 76 سالہ تاریخ کا شعور و ادراک رکھنے والے احباب اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ “پراجیکٹ عمران” کیوں شروع کیا گیا اور کیوں اب تک جاری ہے ۔ اس کے لیے دستاویزی ثبوتوں کی ضرورت نہیں ۔ حالات اور مشاہدات ہی سب کچھ واضح کرنے کو کافی ہیں۔ آج کے دن تک جتنا “تحمل”، اور جتنی رعایات عمران کے ہر معاملے میں نظر آتی ہیں، شاید پورے برصغیر کی تاریخ میں کسی اور کے لیے آپ کو نظر نہیں آئی ہوں گی۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عمران خان کو ایک ہمہ جہت تباہ کن منصوبے کے تحت، مصنوعی طریقے سے لیڈر بنایا اور مقبول بھی کروایا گیا ۔ ملکی اقتدار پر نادیدہ قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے بنائے گئے اس منصوبے کی بہت بھاری قیمت پاکستانی عوام کو چکانا پڑ رہی ہے، اور مزید بھی شاید طویل عرصے تک اس پراجیکٹ کی قیمت چکائی جاتی رہے گی ۔ کہا جاتا ہے کہ 2010 سے 2018 تک تو لاڈلے کو تقریریں بھی لکھی ہوئی پہنچائی جاتی تھیں، یا کم از کم مخصوص نکات ضرور دیئے جاتے تھے۔ حقیقت کیا ہے، اللّہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ لیکن اس پراجیکٹ میں اس ملک کی معیشت کا بھٹہ ایسے بٹھایا گیا کہ اب بحالی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے ۔ عمران حکومت نے پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کروا کے اسٹیٹ بینک کا جو حشر کیا وہ سب جانتے ہیں۔ روپے کی قدر متعین کرنا اب آپ کے اختیار میں نہیں رہا ۔ عمران کے اس معاہدے اور قانون کے نتیجے میں جب مشکل ترین وقت آنا شروع ہوا تو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اسے ہٹا کر “مغضوب” جماعت کے صدر کو وزیر اعظم منتخب ہونے کا موقع فراہم کر دیا گیا۔ بظاہر “نیوٹرل” ہونے کا کھیل رچایا گیا، لیکن دراصل اپنے لاڈلے کو عوامی غضب سے بچا لیا گیا، اور “مغضوب” لوگوں کو بچے کھچے سیاسی اثاثوں سے بھی محروم کرنے کا پورا سامان کیا گیا۔

میں نے 2021 اور 2022 میں اپنے کالم “شاہ نامہ” میں کئی بار یہ لکھا کہ عمران کو کسی بھی طریقے سے ہٹانا، اس کو فائدہ پہنچانے، اور مسلم لیگ نواز کے سیاسی اثاثوں سے محروم ہونے کے مترادف ہو گا۔ جب 2021 میں آصف علی زرداری اور بلاول زرداری اپنے جلسوں اور پریس کانفرنسز میں مسلم لیگ نواز کو تحریک عدم اعتماد کے منصوبے میں شامل نہ ہونے پر طعنے دیا کرتے تھے، تب بھی میں یہ لکھتا رہا کہ اس چال میں مت آئیں ۔ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وہ معاشی پھندا دراصل مسلم لیگ نواز کے گلے میں ڈال دیا گیا، جو دراصل عمران کے تباہ کن ایجنڈے کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا ۔ اب جب کہ پورا ملک معاشی تباہی کے ایک عظیم طوفان کے سامنے کھڑا ہے، عمران اور اس کے سرپرست دن رات ایک ہی راگ الاپتے ہیں کہ اس معاشی تباہی سے بچنے کے لیے آئینی وقت سے پہلے قومی انتخابات کروائے جائیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ مطالبہ مکاری و عیاری سے بھی آگے بڑھ کر اس قوم اور آنے والی نسلوں کے ساتھ بدترین ظلم ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ قبل از وقت الیکشن کے ذریعے معاشی تباہی کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ دوسری بات یہ کہ جو معاشی تباہی اس ملک پر عمران نے مسلط کر دی ہے، اس کا حل عمران بھلا کیوں بتائے گا؟ ضروری ہے کہ عوام ان معاملات کو سمجھیں۔ یہ شخص گزشتہ تقریباً 30 سالوں سے سیاست میں ہے۔ کیا کبھی کسی نے اس شخص میں کوئی معاشی، اخلاقی یا سیاسی فراست دیکھی؟ 2010 سے اب تک اس کی ہر تقریر نواز شریف کے نام سے شروع ہوتی ہے اور نواز شریف ہی کے نام پر ختم ہوتی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ اس کو بتا دیا گیا، اور اس نے بھی جان لیا کہ عوام کو بے وقوف بنانے کا آسان ترین راستہ “نفرت” ہے ۔ چناں چہ ملک کے مقبول ترین لیڈر نواز شریف کے خلاف نفرت پھیلانے کے علاوہ اس شخص کا کوئی سیاسی کارنامہ آج تک سامنے نہیں آ سکا۔ اسی نفرت کے ذریعے یہ شخص حکومت تک پہنچا۔ حکومت سے برطرفی کے بعد بھی اس کا ہر لمحہ، ہر دن، ہر رات اسی نفرت کے فروغ میں گزر رہا ہے۔ آپ نے مشاہدہ کیا ہو گا کہ کبھی اس شخص نے یا اس کے ترجمانوں نے اس کی حکومتی کارکردگی، یا کارنامے نہیں بتائے، اور کبھی اپنے کسی کارنامے یا کارکردگی کی بنیاد پر سیاست بھی نہیں کی۔ بس نفرت، نفرت اور نفرت ہی اس کا ایجنڈہ ہے اور اسی ایک کام میں اس کو بھرپور مہارت حاصل ہے۔

“پراجیکٹ عمران” والے انجینئرز نے شخص کو مسلط کر کے اس ملک کے ساتھ کون سی بھلائی کی؟ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے کو اس نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا، اور پھر اپنی انا کو اس نے پورے ملک اور آنے والی نسلوں پر بھی ترجیح دے رکھی ہے۔ یہ شخص اور اس کے ترجمان ہر روز یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ معاشی بہتری کا تعلق سیاسی استحکام سے ہے۔ یعنی یہ بات وہ خود اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں ۔ تو پھر سوچیے کہ خود انھی لوگوں نے اپریل 2022 سے اب تک اس ملک کو سیاسی عدم استحکام سے کیوں دو چار کر رکھا ہے؟ کیا یہ کوئی مذاق ہے یا سوچا سمجھا طے شدہ ایجنڈہ؟ کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ یہ جان بوجھ کر اس ملک کو سیاسی عدم استحکام میں غرق رکھنا چاہتے ہیں، تا کہ ملک کبھی معاشی بہتری کی طرف نہ جا سکے؟ اگر یہ سیاست ہے تو پھر ملک دشمنی کس طرح ہوا کرتی ہے؟ ہر روز جلسے، ہر روز پریس کانفرنس، ہر روز احتجاج، ہر روز رونا پیٹنا، ہر روز گالم گلوج، ہر روز ٹی وی پہ خطاب، ہر روز الزامات کی نئی پٹاری، ہر بات کی مخالفت، ہر روز نفرت کا نیا سانپ چھوڑنا کیوں؟ اس ملک میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد 160 ہے ۔ باقی 159جماعتیں اس معاشی ابتری سے نمٹنے کے لیے سوچ بچار میں ہیں یا نہیں ، لیکن وہ ملک میں کسی سیاسی بے چینی یا عدم استحکام کا باعث تو نہیں بن رہیں۔ پاؤں تلے انگارہ آیا ہے تو صرف عمران کے؟ آخر کیوں؟ سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ہی تو عمران نے تحریک عدم اعتماد منظور ہوتے ہی اپنی ساری پارٹی کو قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔

کیا اس حرکت کا کوئی سیاسی، قومی یا اخلاقی جواز تھا؟ صاف بات ہے کہ یہ ملک کو سیاسی عدم استحکام میں مبتلا کرنے کی طرف ایک سوچا سمجھا قدم تھا۔ پھر عدالتوں میں گئے کہ استعفے منظور کیے جائیں۔ پھر سپیکر کے پاس بھی وفود بھیجے کہ استعفے منظور کیے جائیں۔ اور جب استعفے منظور ہونے لگے تو پارلیمنٹ کے دروازے پر ماتم شروع کر دیا اور ترلے کرنے لگے کہ اندر آنے کی اجازت دی جائے۔ پھر چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر سے ملاقاتوں کی کوشش کی کہ استعفے منظور نہ ہوں۔ کوئی دماغ یا کوئی ضمیر ہے ان لوگوں کے پاس؟ پھر وزیر آباد میں اپنے ہی ایک سابق ایم این اے کے باڈی گارڈ نے فائرنگ کی تو عمران 300 میل دور اس ہسپتال میں گیا جس کا چیئرمین بھی عمران خود ہی ہے۔ اور پھر کسی میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ کے بغیر ہی من چاہی ایف آئی آر درج کروائی۔ جے آئی ٹی بنائی تو بھی اپنے ہی ذاتی وفاداروں پر مشتمل؟ جس کے متنازعہ سربراہ کے علاوہ تمام ممبرز نے کہہ دیا کہ تفتیش اور نتائج سب کچھ سے انھیں لاتعلق رکھا گیا؟ پھر پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑنے کی کوئی وجہ؟ جی ہاں، صرف سیاسی عدم استحکام پیدا کیے رکھنا !

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر یہ سیاست ہے تو پراجیکٹ کے انجینئرز سے درخواست ہے کہ اس سیاست کو بند کر دیجیے ۔ اس ملک کا سوچیے ۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنی نسلوں کا مستقبل یورپ یا امریکہ سے وابستہ کر رکھا ہو۔ لیکن جن مجبور و مقہور عامیوں کو اسی ملک میں رہنا ہے، جن کے آباء و اجداد کا خون اس ملک کی بنیادوں میں ہے، اور جن کی نسلوں کو اس ملک سے پیار کرنا ہے، ان پر رحم کیجیے!

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply