• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ماں اور بہن کی گالی ۔۔ایک سماجی مطالعہ۔۔۔۔۔آصف محمود

ماں اور بہن کی گالی ۔۔ایک سماجی مطالعہ۔۔۔۔۔آصف محمود

ہمارے معاشرے میں اکثر ماں اور بہن کی گالی دی جاتی ہے۔ کیا کبھی آپ نے سوچا کہ منہ سے غلاظت نکالنی ہی ہے تو اس کا نشانہ ماں اور بہن ہی کیوں ، باپ اور بھائی کی گالی کیوں نہیں دی جاتی؟میں یہ سوال تفنن طبع کی شوخی میں نہیں ، سنجیدگی کی پوری آزردگی کے ساتھ اٹھا رہا ہوں۔ مقصد ہر گز یہ نہیں کہ باپ اور بھائی کی گالی گوارا ہے یا یہ بے ہودگی کی کوئی کم تر قسم ہے۔گالی اپنی ہر شکل میں ایک غلیظ حرکت ہے ۔لیکن پدر سری معاشرے کے نفسیاتی بگاڑ کو سمجھنے کے لیے اس پہلو کا مطالعہ ضروری ہے کہ غصے اور نفرت میں بھرے وجود جب جنون کی کیفیت میں ہذیان بکتے ہیں تو اس شیطانی کیفیت میں بھی وہ اس بات کا اہتمام کیسے کر لیتے ہیں کہ مخاطب کو گالی ماں اور بہن ہی کی دینی ہے؟ آپ حقوق نسواں کے درجنوں قوانین بنا لیجیے اور ہزاروں سیمینار منعقد کر لیجیے ، لیکن یاد رکھیے جب تک سماج کے اس نفسیاتی عارضے کو مخاطب نہیں بنایا جائے گا اس معاشرے میں عورت کا احترام ایک خواب ہی رہے گا۔ ایک انسان گالی کب دیتا ہے؟ جب وہ شدید غصے میں ہو اور اس کی عقل قریبا جواب دے جائے ۔اس عالم میں اس کے منہ سے جو غلاظت نکلتی ہے وہ اس کے لاشعور کی کیفیت کو واضح کرتی ہے۔یہ ہمارے عام مشاہدے کی بات ہے کہ اس مجنونانہ کیفیت میں گالیوں کا بنیادی ہدف مخاطب کی ذات نہیں بلکہ اس کی مائیں اور بہنیں ہوتی ہیں۔یہ رویہ بتا رہا ہے کہ عورت کے بارے میں ہمارے معاشرے کی نفسیاتی گرہیں کتنی شدید ہیں۔سوال یہ ہے یہ گرہیں کیسے کھلیں گی؟ ہمارا معاشرہ ایک عجیب نفسیات کا شکار ہو چکا۔ ایک طرف ہماری معاشرتی نفسیات ہیں جو صدیوں میں پروان چڑھیں اور ان پر برہمن فکر کا رنگ غالب ہے۔ اس میں عورت پائوں کی جوتی ہے۔ حقیر اور غلیظ مخلوق ہے۔اس کو عزت دینا یا اس سے احترام سے پیش آنا پدر سری معاشرے کی غیرت اور مردانگی کے خلاف ہے۔دیہی معاشرے میں تو مرد حضرات عورت کے ساتھ چلنا بھی اپنی مردانگی کی توہین سمجھتا ہے۔اپنے تئیں وہ رستم اور سہراب بنا بیوی سے دس قدم آگے لاتعلق سا چل رہا ہو گا۔ جہاں ذرا جدید معاشرت کے رنگ آگئے وہاں مردانگی کے رنگ بھی بدل گئے لیکن جبلت وہی رہی۔ شوہر نے بیوی کو ذرا سا احترام دیا اور ’’ زن مریدی‘‘ کا طعنہ اس کے ماتھے پر تھوپ دیا گیا۔ دوسری جانب دین کے باب میں ہمارا نقص فہم ہے یا پھر ہم نے جان بوجھ کر عورت کو وہ مقام نہیں دیا جو قرآن و سنت میں اسے عطا کیا گیا ہے۔جہاں جہاں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اقوال زریں سنائے جا سکتے ہیں ہم نے خوب ٹھونک بجا کر سنائے لیکن جہاں اسلامی تعلیمات ہمارے مالی مفادات اور ہمارے سماجی تعصبات سے متصادم ہوئیں ہم نے مالی مفادات اور سماجی تعصبات کو ترجیح دی اور دین کے احکامات کو نظرانداز کیا۔کبھی عورت کوجائیداد میں سے اس کا شرعی حق نہیں دیا اور کبھی اپنی جائیدادیں بچانے کے لیے بہنوں بیٹیوں کی شادیاں قرآن پاک سے کر دیں اور ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے اہم ترین مرکزی رہنما کے طور پر روشن خیالی کی سیاست بھی کرتے رہے ۔ عورت ہمارے نزدیک ایک زندہ انسانی وجود نہیں ہے۔ وہ محض فحاشی ہے ، اس سے اجتناب ضروری ہے۔سنجیدہ فقہی لٹریچر میں عورت کے بارے جو بحث ملتی ہے اسے پڑھنے کے بعد عورت کے بارے میں ایک خاص گرہ کا پیدا ہو جانا فطری امر ہے۔ ہماری مزاحیہ شاعری کو دیکھ لیجیے ۔اس کا غالب ترین حصہ عورت کی تذلیل پر مشتمل ہے۔ معلوم نہیں یہ شعراء کرام کے اندر کی غلاظت ہے یا معاشرے کی عمومی نفسیاتی گرہ کے اثرات ہیں کہ مزاح کے لیے انہوں نے عورت کو مشق ستم بنایا ہے۔ایک دور میں مزاحیہ شاعری پسند تھی ۔اس رجحان کا غلبہ دیکھا تو ایک نفرت سی ہو گئی ۔ نفرت کیا ، یوں کہیے گھن آتی ہے۔کیا مختلف پیرائے میں عورت کی تذلیل کے علاوہ مزاح کا اور کوئی موضوع نہیں۔ یہ کیسی شیطانیت ہے ؟ جدت اور روشن خیالی نے بھی عملا عورت کا استحصال کیا اور اسے ایک انسانی وجود کی بجائے ایک کموڈیٹی کی طرح لیا۔ کر شلزم کے طوفان نے عورت کا ہر روپ میں استحصال کیا اور اسے آزادی نسواں کا نام دیا۔تاہم عورت کے بارے میں جس نفسیاتی گرہ اور ہیجان کا شکار ہمارا معاشرہ ہے وہ ایک خوفناک بلکہ وحشتناک تصویر پیش کر رہا ہے۔ہمارے لاشعور میں کہیں بیٹھ گیا ہے کہ گھر سے نکلنے والی عورت ٹھیک نہیں ہوتی۔ ہم نے نگاہوں کی غلاظت ہر آتی جاتی خاتون پر انڈیلنا ہوتی ہے۔ ممکن ہی نہیں کسی کی بہن بیٹی ہمارے معاشرے میں نظروں کی غلاظت سے بچ کر گزر جائے۔ہمیں اس بات کا کوئی احساس نہیں کہ بسوں میں میزبانی کے فرائض ادا کرنے والی بہنوں بیٹیوں کے گھروں کے وہ کیا مسائل ہوں گے جو انہیں یہ کام کرنا پڑا۔ان کی ہمت کی قدر کرنے کی بجائے ہم انہیں قدم قدم پر یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ انسانوں کی نہیں بھیڑیوں کی بستی میں رہ رہی ہیں۔ عورت کا جب بھی ذکر آتا ہے ، ہم اول کانوں کو ہاتھ لگا لیتے ہیں کہ توبہ توبہ ، اس کے بعد ہم با جماعت عورت کو اس کے فرائض یاد دلانا شروع کر دیتے ہیں۔کم ہی سنا ہے کہ کسی نے عورت کے حقوق پر اسی دلجمعی سے خطاب فرمایا ہو جس دلجمعی سے عورت کو اس کے فرائض یاد کرائے جاتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ہم عورت کو ایک انسانی وجود کے طور پر کیوں نہیں لیتے جس کے جذبات و احساسات کو تسلیم کیا جائے اور جسے عزت و تکریم کا مستحق سمجھا جائے؟ عورت کے بارے میں اس سماج کی نفسیاتی گرہیں بہت شدید ہیں۔قانون سازی کی اہمیت بھی اپنی جگہ لیکن یہ گرہیں تربیت سے کھلیں گی۔لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ تربیت کے روایتی مراکز پہلے اپنے ہاں موجود گرہوں کو کھولیں۔معاشرہ جب اس آزار سے نکلے گاتو اس کے مزاج کی تہذیب ہو گی۔ورنہ یہی حال رہے گا کہ جھگڑا بھا منیر اور بھا صغیر کے درمیان ہو گا اور گالیاں ایک دوسرے کی ماں اور بہن کو دی جائیں گی۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply