فلسطین، جبری تسلط میں بھی رمضان کے تہذیبی رنگ۔۔منصور ندیم

قبلہ اول مسجد اقصی کی بے حرمتی، اس کے دروازے بند کرنے، نہتے نمازیوں پر تشدد کرنے کی اسرائیلی جارحیت کی روایت ہر سال ماہ رمضان میں فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھی جاتی ہے، اسرائیل باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے ہر سال رمضان المبارک میں مسجد اقصی کے تقدس کو پامال کرتا ہے۔ اور جبر و تسلط سے فلسطینیوں کو اس ماہ مبارک میں تکلیف دہ اذیت سے دو چار کرتا ہے۔ گزشتہ جمعے کی صبح مسجد اقصی میں سحری کے بعد نماز کے لیے ہزاروں افراد جمع تھے کہ اسرائیلی پولیس سورج طلوع ہونے سے قبل زبردستی مسجد میں داخل ہوئی۔ اس وقت ہزاروں افراد عبادت کے لیے مسجد میں موجود تھے۔ انٹرنیٹ پر وائرل ویڈیوز میں فلسطینیوں کو پتھر پھینکتے ہوئے جبکہ اسرائیلی پولیس کو آنسو گیس کے شیل اور سٹن گرنیڈ کا استعمال کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اک المناک بات ہے کہ رمضان میں اسرائیل کی منصوبہ بندی جارحیت کے نتیجے میں صرف جمعے کے روز کم از کم ۱۵۲ فلسطینی زخمی اور تین سو سے زائد افراد گرفتار ہوئے ہیں۔ دو ہفتے سے جاری اس منصوبہ بندی کے تحت پچھلے ہفتے بھی تین فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔

اسرائیلی ناکہ بندی اور سیاسی بحران نے غزہ کی پٹی میں بسنے والے ۲۰ لاکھ فلسطینیوں کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو بری طرح متاثر کیا ہے، ویسے ہی ماہ رمضان کی قدیم فلسطینی روایات بھی شدید ترین معدومیت کا شکار رہی ہیں۔ خصوصا فلسطین میں بھی سحری میں جگانے کے لئے مسحراتی کا تصور ہی ہے، جس میں رمضان مبارک میں جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی ڈھول بجا کر سحری کے لیے روزہ داروں کو جگانے کا سلسلہ جارے رکھے ہوئے ہے۔ یہ رواج مسحراتی خاندانوں میں نسل در نسل رائج ہے، مقامی مسحراتی سرخ رنگ کی ٹوپی اور سفید سکارف کے ساتھ فلسطینیوں کا روایتی لباس زیب تن کرکے سحری سے قبل ڈھول بجا کر لوگوں کو جگانے کا کام کرتے ہیں۔

فلسطین کی رمضان روایات کم و بیش عرب ممالک جیسے ہی ہیں، مگر گزشتہ دہائیوں میں اسرائیل کے ناجائز تسلط و جارحیت کی وجہ سے فلسطین کے علاقہ غزہ میں بسنے والے مسلمانوں کے کئی خاندان رمضان المبارک میں افطاری کے لیے روایتی طور پر ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں۔ یہ روایت گزشتہ ۱۶ برسوں پر محیط ہے جس کی وجہ ۱۶ سال سے اسرائیل کی جانب سے ناکہ بندی اور رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں ان علاقوں میں بجلی کے تعطل کے باعث روزہ دار اپنے خاندانوں کے ہمراہ ساحل سمندر پر جمع ہونے پر مجبور ہیں ۔ اور یہی مقامی فلسطینیوں کے پاس ایک سستی تفریح اور وقت گزاری کا بہتر ذریعہ ہے۔

مجموعی طور پر زیادہ تر خاندان مغرب کی نماز سے قبل روزانہ سیکڑوں خاندان اس ساحل سمند پر افطار کی پکوانوں کے ساتھ افطار کرتے ہیں۔ جو خاندان گھر رہ جائیں وہ بجلی کی جبری بندش کے باعث موم بتیوں کی مدد سے افطار کرنے پر مجبور کرتے ہیں، کئی سالوں کی طویل ناکہ بندی اور داخلی راستوں پر پابندی کے ساتھ بجلی کی بندش کے باعث غزہ کی تقریبا ۲۰ لاکھ سے زائد آبادی میں اکثریت اب اس ماحول میں رہنے کی عادی ہوچکی ہے، جہاں کی ۸۰ فیصدی آبادی ذریعہ معاش نہ ہونے کے سبب انسانی ہمدردی اور امداد پر انحصار کر رہی ہے۔

اسرائیلی ریاست کے جبر کی ابتداء سے ہی مسلمانوں کے ساتھ مقامی مسیحیوں کا تعلق فلسطین میں بہت اچھا رہا ہے، اس کی مثال بیت للحم میں سنہء۱۹۶۰ کے عشرے سے ہی مسلمان فلسطینی خواتین کی تنظیموں میں مسیحی خواتین کی شمولیت، مقامی روایات میں مقامی عیسائیوں ان کا کردار بہت قابل تعریف رہا ہے۔ فلسطین میں مقامی مسیحی افراد مسلمانوں کے مقدس مہینے کے احترام میں کئے جانے والے بیشتر اقدامات میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ مغربی کنارے کے علاوہ بیت لحم، رام اللہ اور نابلس میں باہمی طور پر انجام دی جانیوالی خدمات میں زیادہ تر روزہ سے متعلق امدادی کاموں اور افطار کے وقت کھجوروں اور پانی کی تقسیم کی ذمہ داری لیتے ہیں۔

نابلس ایک ایسا شہر ہے، جہاں مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ اس لئے مسیحی بھی گلیوں اور بازاروں کی رمضان کے حوالے سے خصوصی سجاوٹ میں حصہ لیتے ہیں۔ مسلمانوں کے کسی بھی تہوار پر مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں اور رمضان کے بابرکت مہینے اور عید کے موقع پر شہر کو سجاتے ہیں۔نقبلس کے علاوہ رام اللہ میں باقاعدہ عیسائی تنظیمیں اس ماہ مبارک مسلمانوں کے تہوار کو ساتھ مناتے ہیں اور مغربی کنارے کے جنوب میں واقع مسیحی اکثریتی شہر بیت لحم میں بھی سکاؤٹس اور گائیڈز کے گروپ روزہ داروں میں کھجوریں، پانی اور افطار کا دیگر سامان تقسیم کر تے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بیت المقدس میں رہنے والے مسلمان اور عیسائی، نسل در نسل محبت اور بقائے باہمی کے وارث ہیں مقامی مسیحی اپنے آپ کو فلسطینی اور خاص طور پر بیت المقدس سے تعلق رکھنے پر فخر محسوس کرتے ہیںیہاں مسیحی ہر سطح پر رضاکارانہ کاموں میں حصہ لیتے ہیں، خصوصا جس میں ماہ رمضان کے آغاز میں مساجد میں نئے قالین بچھانے کا کام بھی شامل ہے۔ فلسطینی بازاروں میں بہرحال ماہ رمضان کی آمد پر مٹھائیوں کی تیاریاں ہوتی ہیں، وہی روایتی کھانے بنائے جاتے ہیں مگر عموما معاشی بحران کی وجہ سے زیادہ تر انتہائی سادگی سے افطار کیا جاتا ہے، گھریلو مشروب و گھریلو روایتی کھانے زیادہ تر خاندان کے ساتھ جمع ہوکر افطار کرنا، مساجد میں نماز تراویح اور اس ماہ مبارک میں کسی قدر بازاروں میں بھی گہما گہمی بڑھ جاتی ہے۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply