غنی خان :ایک منفرد شاعر۔۔۔فیض اللہ خان

غنی خان کا المیہ یہ تھا کہ  انہیں عوامی نیشنل پارٹی یا پشتون مفکرین اور صحافیوں نے کبھی اردو زبان میں متعارف کرانے کی خاص کوشش نہیں کی ،مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی نئی نسل کا قابل ذکر حصہ غنی بابا کو جانتا ہی نہیں ہوگا ،علاقائی شعراء ادیبوں کی بے توقیری ویسے بھی نئی بات نہیں ۔

غنی بابا صرف ایک شاعر یا ادیب نہیں ان کا مقام اس سے کہیں بلند تر تھا، ایک عظیم فلسفی سیاست دان صوفی مصور مجسمہ ساز غرض زندگی  کے کتنے ہی پہلو ہیں اور ہر پہلو کئی رنگوں سے بھرپور ۔

ذاتی حیثیت میں مجھے ان کی ساری شاعری یا فلسفے سے اتفاق نہیں لیکن اسکا ایک بڑا حصہ اس قابل ہے، اسے سنا جائے ،اردو انگریزی زبانوں میں ترجمہ ہو اور لوگ جان پائیں کہ کیا ہی بلند قامت انسان تھا ۔ غنی خان خود کو لیونے فلسفی یعنی پاگل فلسفی کہتے تھے ، انکی زندگی بھی بھرپور و ہنگامہ خیز رہی، جیلیں کاٹیں، انتخابات میں  حصہ لیا، کامیابی سمیٹی، پشتونوں کی نمائندگی کی، امریکہ سے تعلیم مکمل کرکے وطن لوٹے تو باچا خان نے ہندوستان بھیج دیا۔ اندرا گاندھی کیساتھ رابندرناتھ ٹیگور کے قائم کردہ ادارے میں صحافت کی تعلیم حاصل کرنے لگے ،دماغ کے تیز تھے ،اپنا کام نمٹا کر دوسری‌ کلاسوں کی طرف نکل جاتے ،وہاں مجسمہ سازی کے شعبے  میں پہنچے اور طلبہ کیساتھ کام شروع کردیا ،صلاحیت فطری تھی ،تو دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سکھائے جانے والے آرٹ میں طاق ہوگئے ایک بار باچا خان آئے تو یہ سب دیکھ کر بدمزہ ہوئے، واپس چار سدہ لے گئے، گو کہ ادارہ کے سربراہ نے گاندھی جی تک سے سفارش کرائی کہ باچا خان سے کہیں کہ اسے ہمارے پاس چھوڑ دیں ،ایسا ہیرا لاکھوں میں ایک ہوتا ہے لیکن وہ نہ مانے ۔

ایک دن باچا خان، ولی خان اور غنی خان ساتھ بیٹھے تھے کہ غنی خان نے فرمائش کی کہ مجھے نئی گاڑی درکار ہے ،باچا خان بولے جتنی زمین ولی کو دی ہے اتنی ہی تمہارے پاس بھی ہے ،ولی گاڑی رکھ سکتا ہے تو تم کیوں نہیں ؟

غنی خان

غنی خان بولے پھر اسکا نام غنی میرا ولی رکھنا تھا، تاکہ کچھ بچا کر بھی رکھتا۔ اب اگر آپ گاڑی نہیں دلاتے تو آپ ہی کی کچھ زمین بیچ کر گاڑی خرید لوں گا ۔

اسفندیار ولی خان کہتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد غنی خان نئی نویلی گاڑی کے ہمراہ گھر آئے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وعدے کے مطابق غنی خان، باچا خان کی زمین ٹھکانے لگاچکے تھے، گھر پہنچ کر باچا خان کو باہر لیکر آئے، گاڑی میں ساتھ بٹھایا اور لمبا چکر کاٹ کر واپس آئے ،باچا خان مسکرا کر کہنے لگے شین ٹغ (مطلب کنچی آنکھوں والا ) نے بہت اچھی گاڑی نہیں خرید لی ؟ اسفند یار نے کہا مجھے اپنی زمین بیچنے دیں ،اس سے بھی بہترین گاڑی خرید کر دکھاؤں گا ۔

افراسیاب خٹک کہتے ہیں کہ جوانی کے دنوں میں غنی خان سے تسلسل سے ملاقات رہتی ، جب ملنے جاتے تو رات رکنا ضروری ہوتا ،کیونکہ غنی خان کہا کرتے کہ یہ کوئی ریسٹورنٹ نہیں کہ آدھا ایک گھنٹہ بیٹھ کر واپس چلے جاؤ گے ،ایسے ہی ایک بار افرسیاب خٹک انکے ساتھ چار سدہ سے واپس جارہے تھے کہ مہمند کے مزارعوں کو دیکھا جو وہاں کام کر رہے تھے ، غنی خان بولے میں سمجھ گیا تم کیا کہنا چاہتےہو ، یہی کہ یہ زمینیں انہی کسانوں کو کیوں نہیں دے دی  جاتیں ۔ بات یہ ہے کہ زمین کی ملکیت کا بھی اپنا ہی ایک نشہ ہے جب انسان کہتا ہے کہ یہ اتنے رقبے میرے ہیں تو اس میں الگ طرح کا سرور پیدا ہوتا ہے ۔ پھر مسکرا کر کہنے لگے خدا نے لینن کو اتنا بڑا دماغ دیا تھا تھوڑی سی زمین بھی دے دیتا تو وہ یہ سب باتیں نہ لکھتا ۔ افراسیاب خٹک کے مطابق غنی خان بدھا سے بھی متاثر تھے اس حوالے سے مصوری و مجسمہ  سازی کرتے رہتے ،وه یہ  بھی کہا کرتے تھے  کہ  گندھارا تہذیب کے آثار بتلاتے ہیں کہ  پشتون مجسمہ  سازی میں بہت  آگے تھے لیکن بیرون سے حملہ  آوروں نے سب تباه کردیا اور پشتون اپنی روایات سے دور ہوگئے۔

ایک بار گھر میں سجی محفل میں باچا خان نے غنی خان سے کہا کہ یہ تم نے کیا قوم کے بچوں کو شاعری کے پیچھے لگا دیا ہے ؟ تمہیں چاہیے کہ کوئی سنجیده کتاب لکھو ۔ روایات کے مطابق غنی خان احترام‌ میں ہاں جی ہاں جی کہتے رہے، اور والد کے جاتے ہی ولی خان سے کہا جو باتیں باچا خان جلسوں اور محافل میں کرتے ہیں ایسی تو میں گھنٹوں میں درجنوں کتابیں لکھ ڈالوں لیکن میری شاعری خون جگر سے لکھی گئی ہے، یہ میرا درد اور سوز ہے، جو الفاظ کی صورت میں باہر آتا ہے اور کتنے ہی شعر جلا چکا ہوں کہ میرے معیار پہ پورے نہ تھے۔ غنی خان کی کلیات کے شائع ہونے کی بھی دلچسپ کہانی ہے ۔ان کی بیگم جو کہ حیدرآباد دکن کی نواب فیملی سے تھیں ، انہوں نے شاعری جو کہ مختلف کاغذوں سگریٹ کے ڈبوں وغیرہ پہ لکھی تھی ،کویکجا کرکے ولی خان کو دیدی۔ ولی خان جس کاتب سے کتابت کراتے وہ بیچارہ ہر تھوڑی دیر بعد نفل پڑھتا اور خدا سے کہتا اے اللہ یہ کفر غنی خان کا ہے میرا نہیں ،میں تو صرف کاتب ہو  ں،کتابت مکمل ہونے کے بعد ایک شخص ان سے سارا مواد لے گیا پھر اسکا اتا پتہ نہ ملا، یہاں تک کہ کابل سے کلیات شائع ہوئی  اور غلطیوں سے بھرپور تھی، کیونکہ تصحیح نہ ہوسکی تھی ، ولی خان کہتے ہیں کہ  اٹھارویں صدی میں ایک فرانسیسی مستشترق اس خطے میں آیا اور پشتونوں پہ  طویل‌تحقیق کی، مثلاً ان کی زبان رسوم و رواج اور شاعری کے حوالے سے اور پھر وطن واپس جاکر کتاب لکھی جس سے ہمیں پتہ چلا کہ بڑے ناموں کے علاوه بھی کئی شاعر گزرے لیکن انہیں نمایاں کرنے کی‌کوشش بھی پشتونوں کے بجائے اس فرانسیسی نے کی ۔

ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کہتے ہیں کہ پشتو شاعری کے چار بڑے ستون ہیں رحمان بابا ،خوشحال خان خٹک ،حمزہ شینواری (یہ کراچی آکر شنواری ہوچکا ہے جسکی کڑاہی بہت مشہور ہے ) اور غنی بابا ۔

ان سب کی شاعری یا فلسفے کا الگ الگ رنگ ہے جیسا کہ خوشحال خان خٹک پشتون قوم کی بیداری اور نوجوانوں کو مزاحمت پہ آمادہ کرتے ہیں ۔رحمان بابا عشق مصطفی میں ڈوبے ہوئے ہیں، نبی علیہ السلام کی مدحت گویا انکا اوڑھنا بچھونا تھا۔ حمزہ شینواری کی شاعری میں اہلبیت سے محبت جھلکتی ہے، جبکہ غنی خان اصلا ًایک صوفی ہیں جو عشق حقیقی کی آگ اور اسکی تپش سے سلگ رہے ہیں اور یہی کچھ انکی شاعری میں نظر آتا ہے ۔ غنی خان کی شاعری کا بڑا حصہ بظاہر مُلا کیخلاف ہے وہ مُلا کو خدا سے ڈرانے والا سمجھتے ہیں اور انکا فلسفہ خدا سے محبت کا ہے یہ وہ جنگ ہے جو انکے اور مُلا کے درمیان ہوتی رہتی ہے۔ خود کو لیونے یعنی پاگل کہنے والے غنی خان اسی لیونے کو لیکر اکثر مُلا سے مکالمہ کرتے ہیں وہ علمائے ظاہر کے خلاف ہیں اور ابن عربی و منصور کی پیروی کے قائل ہیں (ذاتی طور پہ مجھے اس نکتے سے اختلاف ہے ) غنی خان نے عالمی سطح پہ قبولیت کا درجہ پانے والی کتاب ” دی پٹھانز” لکھی، غالباً اسلامیہ کالج کے شعبہ انگریزی ادب کی استاد خاتون کہتی تھیں کہ کاش میں غنی جیسی انگریزی لکھ سکتی ۔
روس کی ایک جامعہ میں آج بھی غنی خان کا مجسمہ ایستادہ ہے ۔

آخری دنوں میں بیٹے اور اہلیہ کی وفات نے انہیں توڑ کر رکھ دیا تھا، انکے پوتے/ نواسے مشعال خان جو کہ ان دنوں مردان کے فضل حق کالج میں زیر تعلیم تھے ، فیل ہوگئے جس پہ پرنسپل نے گھر والوں کو بلوایا تو غنی خان وہیل چیئر پہ مشکل سے آئے م،شعال کہتے ہیں میرے لئے بڑا ہی تکلیف دہ لمحہ تھا دوست بھی لعن طعن کر رہے تھے تمہاری وجہ سے، اتنی بڑی شخصیت کو بیماری کی حالت میں آنا پڑا ۔مشعال ملنے سے کترا رہے تھے ،جب ہی چھپ گئے، لیکن کہاں تک ؟ پرنسپل نے بلایا کہ بابا ملنا چاہتے ہیں مشعال ڈرتے شرمندہ ہوتے پہنچے تو غنی بابا بولے بیٹا کبھی کبھی فیل ہوا کرو مجھے تم سے ملنے کا بہانہ ہی مل جایا کرے گا ۔

غنی خان کی شاعری کو پشتو کے معروف گائیک سردار علی ٹکر نے گویا زندہ کیا ہے جس مہارت اور خوبصورتی سے غنی خان کا کلام ٹکر نے پیش کیا وہ لاجواب ہے، عجب فلسفہ  نظم بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ محبت سے لبریز دل لیکر غنی خان پہلے مولوی کے پاس پہنچتا ہے وہ غنی کو ٹوکتا ہے کہ تم کیا محبت محبت کرتے رہتے ہو خدا قہار ہے اس سے ڈرو پھر غنی خدا سے محبت کا فلسفہ لیکر قاضی کے پاس جاتا ہے تو وہ کہتا ہے میں صرف سیاہ یا سفید دیکھنے کا عادی ہوں اسکے بیچ میں مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا، پھر غنی فلسفی یا اہل عقل کے پاس جاتا ہے اور وہاں ہونے والے  مکالمے میں پتہ چلتا ہے کہ لیونے یعنی غنی بظاہر گھاٹے کا سودا کرکے بھی فائدے میں رہا اور خود کو فائدے میں سمجھنے والے خسارے کا شکار ہوئے ۔

غنی خان ہی نہیں کہ بلکہ پاکستان میں بولی جانے والی ہر زبان کے شاعر فلسفی اور ادیب کی تحریروں کا اردو انگریزی میں ترجمہ سرکار کی ترجیح ہونا چاہیے کیونکہ یہ سب زمین کے بیٹے ہیں علاقائی زبانوں کا تحفظ انکی ترویج نہ صرف انکا حوصلہ بڑھائے گی بلکہ پاکستانی ایسی  کئی نادر شخصیات کو جان سکیں گے جنہیں ناقدری کی دھول نے بہت دور کردیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:اس مختصر تحریر کے لیے خان عبدالولی خان ، اسفندیار ولی ، افراسیاب خٹک ، میاں افتخار حسین ، ڈاکٹر اباسین یوسفزئی ، سردار علی ٹکر ، مشعال اور لائبہ یوسفزئی کے انٹرویز سے مدد لی‌ گئی ہے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply