غربت، بڈھی اشرافیہ اور نوجوان/حفیظ الحسن

غربت، بڈھی اشرافیہ اور نوجوان!!ورلڈ بینک کے 2020-2021 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی تقریباً 40 فیصد آبادی غرہب ہے۔ جس کے مطابق آبادی کے بڑے حصے کی یومیہ آمدن 3.2 ڈالر سے لیکر 5.5 ڈالر فی کس ہے۔ یہ آمدن عالمی سطح پر غربت کی لکیر تصور کی جاتی ہے۔ البتہ پاکستانی حکومت کا غربت کی لکیر کی تعریف کچھ الگ ہے۔ اسے پیسوں سے نہیں بلکہ خوراک یعنی فی کس دن میں کتنی کیلریز استعمال کرتا ہے۔ پاکستانی حکومت کے مطابق ہر وہ شخص غربت کی لکیر سے اوپر ہے جو دن میں تمام 2350 کلیلریز سے زائد استعمال کرتا ہے۔
گویا اُسے دو وقت کی روٹی میسر ہے۔ اس تعریف کے مطابق پاکستانی حکومت کے اعداد و شمار یہ کہتے ہیں کہ ملک میں اس وقت غربت محض 22 فیصد ہے۔ حکومت کو لگتا ہے کہ ایک ماہانہ 13 ڈالر سے زیادہ کمانے والا غریب نہیں ہے۔
صوبوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بلوچستان اور فاٹا میں 71 فیصد سے زائد لوگ غربت کا شکار ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں 49 فیصد، سندھ اور گلگت بلتستان میں 43 فیصد، پنجاب میں 31 فیصد اور آزاد جموں کشمیر میں 25 فیصد لوگ غریب ہیں۔
ملک میں غربت کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک جاگیردارانہ نظام ، اراضی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اسکے علاوہ قدرتی آفات جیسے کہ سیلاب اور زلزلے بھی غربت کی ایک بڑی وجہ تصور کیے جاتے ہیں۔
پاکستان کی کل سالانہ آمدن کا 27.6 فیصد محض 10 فیصد لوگوں کے پاس ہے جبکہ نچلہ طبقے کا 10 فیصد اس میں محض 4.1 فیصد کا حصہ دار ہے۔ ایک ایسا ملک جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ نوجوان ہے وہاں بنیادی غربت مٹانے کی پالیسیاں بنانے والی بڈھی اشرافیہ کی کرتا دھرتا بزرگ ہستیاں نوجوانوں کو قومی دھارے اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم اہنگ کرنے میں ناکام نظر آتی ہیں۔ اعدادو شمار دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پالیسی ساز سی ایس ایس پاس اور تمغوں کے تمغے سجائے نجات دہندہ نوجوانوں کے مستقبل کے حوالے سے کیا دور اندیشی اور وژن رکھتے ہیں۔
ایسے میں نوجوانوں کو بوڑھوں کی باتوں میں آنے کی بجائے خود کو جدید دنیا اور جدید تعلیم سے آراستہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ یاد رکھیں غربت مجبوری ہے مگر جہالت پرسنل چوائس ہے۔ جہالت ختم کر کے ہی غربت کو مٹایا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply