کشمیری قوم مخلص وبے باک قائد سے محروم۔۔غازی سہیل

گزشتہ ماہ ۶/ مئی 2021ء کے دن یہ خبر کشمیری عوام پر قیامت بن کے آئی کہ زیر حراست مزاحمتی تحریک کے مخلص ترین قائد جناب محمد اشرف خان صحرائی صاحب جموں کے اسپتا ل میں انتقال کر گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔ اس طرح سے کشمیر کی تحریک آزادی کے ایک اور قائد کی جدوجہد کا باب اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ مرحوم صحرائی صاحب کو گزشتہ سال اپنے بیٹے شہید جنید صحرائی کی شہادت کے ٹھیک دو ماہ بعد جموں کشمیر میں نافذ کالے قانون ”پبلک سیفٹی ایکٹ“ کے تحت پس زندان کردیا گیا تھا۔ واضح رہے یہ ایک ایسا بے رحم قانون ہے جس میں دو سال تک بغیر کسی عدالتی کارروائی کے کسی بھی شخص کوپابند سلاسل رکھا جاسکتا ہے۔ صحرائی صاحب مرحوم کے اہلِ خانہ نے اسے قتل قرار دے کر کہا کہ مرحوم کو انتظامیہ کی جانب سے کوئی طبی امداد نہیں دی گئی جبکہ وہ کئی امراض میں پہلے ہی مبتلا تھے۔ میڈیا اداروں کو دیے گئے بیانات میں موصوف کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ”میرے والد نے اپنی وفات سے چند دن قبل مجھے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے لئے یہاں کسی دوائی وغیرہ کا انتظام نہیں ہے، میں چند دنوں سے شدید بیمار ہوں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ حکومت نے مجھے یہاں مارنے کے لئے ہی لایا ہے، اس لیے آپ میری رہائی کے لئے جو کوششیں کر رہے ہیں اُنہیں ترک کر دیں، مجھے یہ ایسے رہاکرنے والے نہیں ہیں،آپ اپنے معمول کے کام کاج میں مصروف ہو جائیں“۔

مرحوم صحرائی صاحب کے انتقال پر کئی ہند نواز سیاسی لیڈران نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے حکومت پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی صدر محبوبہ مفتی نے ایک فیسبک پوسٹ میں لکھا:
”اشرف صحرائی کی اچانک موت کے بارے میں جان کر بہت صدمہ ہوا۔ ان کی طرح ان گنت سیاسی قیدیوں اور جموں وکشمیرکے دیگر نظر بندوں کو بھی اپنے نظریا ت اور افکار کے لئے مکمل طور جیل میں ڈالنا جاری ہے۔ آج کے ہندوستا ن میں اختلاف رائے کی وجہ سے ایک شخص اپنی زندگی کی قیمت ادا کرتا ہے۔“

پوسٹ میں مزید انہوں نے لکھا ہے کہ:
”اس طرح کے خطر ناک حالات میں کم سے کم حکومت ِہند ان زیر حراست افراد کوفوری طور پر پیرول پر رہاکر سکتی ہے تاکہ وہ واپس اپنے گھرانوں کولوٹ سکیں“

پیپلز کانفرنس چیئرمین سجاد غنی لون نے حکومت پر سوال کھڑا کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا:
’’اسے قید میں کیوں مرنا پڑا نہ کہ اپنے پیاروں اور رشتہ داروں میں۔کیا ہم اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ علیل بزرگ شخص ریاست کے لئے خطرہ ہے؟میں تنقید نہیں کر رہا لیکن برائے کرم محاسبہ کریں۔ صحرائی صاحب ایک سیاسی رہنما تھے، دہشت گرد نہیں“

آل پارٹیزحریت کانفرنس نے اظہار تعزیت کرتے ہو ئے کہا کہ:
”جموں کشمیر کے لوگوں نے ایک مخلص، قابل اور ایمان دار لیڈرکوکھو دیا ہے“

محترم اشرف صحرائی کے فرزند راشد خان صحرائی نے  معاصر ویب سائٹ  سے بات کرتے ہوئے کہا کہ:
”ان کے طبی معائنہ اور علاج کے لئے تین درخواستیں دائر کی تھیں،جس میں انہیں مزید دیکھ بھال کے لئے جموں یا سرینگرکی جیلوں میں منتقل کر نے کی درخواست بھی کی گئی تھی اور درخواست کی گئی تھی کہ اہل خانہ کو ا ن سے ملنے دیا جائے۔ راشد صحرائی نے کہا کہ جج درخواستوں پر نظر ثانی کیلئے دیر کرتا رہا۔“

اس عظیم اور بے با ک قائد کی زندگی عزیمت اور قربانیوں کی لازوال داستانوں سے پُرہے۔ مرحوم قائد کی پیدائش شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی خوبصورت ترین وادئ  لولاب میں 1944ء کو ہوئی ہے۔وہی لولاب جہاں سے عالم اسلام کی معروف علمی شخصیت اور محدث علامہ انور شاہ کشمیری نے جنم لیا۔ جس وادی کے متعلق شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال نے ایک مشہور نظم بھی ”اے وادی لولاب“ عنوان کے تحت لکھی ہے۔ موصوف نے ابتدائی تعلیم اپنے ہی گاؤں میں حاصل کی۔ اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے گریجوشن کی ڈگری حاصل کی۔ آپ بچپن سے ہی دینی مزاج کے حامل تھے اور دینی کتابوں کے مطالعہ میں بھی شغف رکھتے تھے۔ آپ کو قرآن کا گہرا مطالعہ تھا، ایک فیس بُک ساتھی نے مطالعہ قرآن کے حوالے سے اپنی ایک پوسٹ میں کچھ اس طرح سے مرحوم کا تذکرہ کیا ہے کہ:
”ان کا قرآن کا گہرا مطالعہ تھا اور تفاسیر پر بھی نظر تھی۔ جب درس قرآن پیش کرتے تھے تو بالکل بھی روایتی انداز کا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اُن کا پہلا درس ”اسلامی جمعیت طلبہ جموں وکشمیر“ کے تربیتی پروگرام میں سُنا،اس وقت میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ درسِ قرآن آج تک میرے ذہن میں مستحضر ہے۔کیا ہی دلچسپ اندازِ بیان تھا۔ قرآنی آیات کی توضیح و تشریح ایسے کرتے تھے کہ لگتا تھا کہ قرآن آج ہی نازل ہو ا ہے۔وہ اپنے دروسِ قرآن میں زمانے کے تطابق کا خاص خیال رکھتے تھے۔ایسے درس پیش کرتے جیسے موتیوں کو بکھیر دیتے تھے۔“

موصوف کا گھرانہ ابتدا سے ہی تحریک اسلامی سے وابستہ تھا،مرحوم کے گھر سے دو بڑے بھائی جماعت اسلامی جموں کشمیرکے بنیادی ارکان میں سے تھے، جن کی وساطت سے محترم صحرائی صاحب کو بھی جماعت اسلامی سے آشنائی ہوئی۔ ان کا جماعت کے دفتر واقع کپواڑہ آنا جانا رہتا تھا، اسی اثنا میں ان کی ملاقات اُس دور میں فعال ترین کارکن سید علی گیلانی سے ہو ئی۔گیلانی صاحب کا کہنا ہے کہ میری قربت صحرائی صاحب سے قدرتی کچھ زیادہ ہی ہونے لگی، جب کبھی بھی ہمارا کپواڑہ آنا جانا ہوتا تھا تو میں محترم موصوف کے گھر جایا کرتا تھا۔ ابھی صحرائی صاحب دسویں جماعت میں ہی تھے کہ اُن کی والدہ نے مجھ سے کہا کہ ”یہ ہاز چھی حوالہ“ یعنی اب یہ (صحرائی صاحب) آپ کے حوالے ہیں۔ اور اس کے بعد یہ دونوں تحریک اسلامی کے سرفروش تا عمر حالات کے سرد و گرم کا مقابلہ جاں فشانی سے کرتے رہے۔ صحرائی صاحب کو تحریک اسلامی کا مخلص ترین اور بے باک قائد تسلیم کیا جاتا ہے۔ موصوف نے اپنی ساری زندگی کو تحریک اسلامی کے لئے وقف کر دیا۔ جموں وکشمیر کی سب سے بڑی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کو وجود بخشنے میں صحرائی صاحب کا خاصا رول رہا ہے۔ کشمیر کے ایک رسالے کو اپنے ایک انٹرویو میں اسلامی جمعیت طلبہ کے وجود میں آنے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ”انہی دنوں زالورہ بارہمولہ میں جماعت اسلامی جموں کشمیر نے مولانا شیخ سلیمان مرحوم( شیخ محمد سلیمان مرحوم تحریک اسلامی کے فعال کارکن رہے ہیں، ضلع سطح سے لے کر مرکزی سطح تک جماعت کے تئیں اپنے فرائض انجام دیے ہیں، خاص کر ارکان وذمہ داران کی تربیت کے حوالے سے انہوں نے کافی کام کیا ہے)کے گھر پر جولائی ۷۷۹۱ء/میں شوریٰ بلائی۔ یہ شوریٰ چار دن تک جاری رہی، جہاں میں (صحرائی صاحب) بھی شامل تھااور گیلانی صاحب بھی۔ جماعت کو جو سیاسی طور پر وادی میں نقصان اٹھانا پڑا اس پر زبردست بحث و مبا حثہ ہوا، یہاں تک کہ امیر جماعت کو بھی تبدیل کرنے پر بات ہوئی۔ شوریٰ میں محترم سید علی گیلانی صاحب سے کہا گیا کہ آپ امیر جماعت کی حیثیت سے کام کریں لیکن جونہی انہوں نے یہ بات سُنی، انہوں نے اپنی قمیض پھاڑ ڈالی اور انتہائی غصے کی حالت میں کہا کہ:
”کیا میں امیر جماعت بننے کے لائق ہوں۔“

بہر حال ایک دور وہ بھی تھا۔ اس شوریٰ میں یوتھ فیڈریشن کا رول بھی زیر بحث آیا اور اس پر بھی سیر حاصل بحث ہوئی کہ جماعت کو نوجوانوں کے لئے ایک تنظیم قائم کرنی چاہے، اس کے لئے وہاں موجود کسی نے میرا نام پیش کیا اور بتایا کہ نوجوانوں کے ساتھ محمد اشرف صحرائی مل جل کر کام کرتے رہتے ہیں۔ تب میں کارروائی لکھ رہا تھا جب یہ فیصلہ ہوا کہ صحرائی صاحب نوجوانوں کو منظم کریں گے۔ اس کے بعد اس بات پر بھی بحث ہوئی کہ اس نوجوان تنظیم کا کیا نام رکھا جائے؟ وہاں پر موجودا رکانِ شوریٰ نے مختلف نام تجویز کیے،میں نے اپنی رائے یہ پیش کی جب سید مودودیؒ نے پاکستان میں ۸۴۹۱ء میں طلبہ تنظیم قائم کی تو انہوں نے اس کانام ”اسلامی جمعیت طلبہ“ رکھا کیوں نہ ہم بھی اسی مناسبت سے اس کا نام ”اسلامی جمعیت طلبہ“ ہی رکھیں۔شوریٰ میں امیر جماعت سمیت تمام لوگ اس نام پر متفق ہوئے اور نوجوانوں کو منظم کرنے کے لئے جماعت نے مجھے فارغ کیا۔اس کے بعد میں نے ۷۷۹۱ء میں جمعیت کے لئے کام کا آغاز کیا، اس وقت میری عمر تقریباً ۲۳ /یا ۳۳/سال کے قریب تھی اور ساتھ ہی اس کے لئے ایک دفتر کا بھی انتظام کیا“۔(یہ انٹرویو2014 ء میں ضبط تحریر میں لایا گیا ہے)

بہر کیف اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے پہلے ناظم اعلیٰ محترم مرحوم صحرائی صاحب مقرر ہوئے۔اس کے بعد موصوف نے جموں کشمیر میں طلبہ کے اندر دعوت کا کام شروع کر دیا۔ انفرادی ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ فولڈرس اور لٹریچر کو یہاں کے تعلیمی اداروں تک پہنچایا۔ اسی طرح سے عوامی اجتماعات بھی منعقد کرائے گئے جن میں سے15/اور16 /جولائی1978ء کو جمعیت کا دو روزہ اجتماع انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔اس اجتماع میں محترم شیخ تجمل الاسلام جو کہ اُس وقت معتمد عام (سیکرٹری جنرل) تھے نے مذکورہ اجتماع میں ڈائس انچارچ کے فرائض انجام دیے۔یہ دو روزہ کانفرنس سرینگر کے گول مارکیٹ میں منعقد ہوئی۔ اس طرح سے محترم صحرائی صاحب نے اپنی جوانی کے دنوں کو بھی تحریکی کام کے لئے وقف کر دیا۔ محترم صحرائی صاحب مرحوم پہلی بار 1965ء میں گرفتار ہوئے، تب آپ کی عمر محض16 /سال تھی۔ گرفتاری کی وجہ کو بیان کرتے ہوئے صحرائی صاحب فرماتے ہیں کہ:
”1963ء میں کشمیر میں موئے مقدس کی گمشدگی کے متعلق کشمیر میں زوردار احتجاجی تحریک شروع ہو گئی تھی، احتجاجیوں کا مطالبہ تھا کہ موئے مقدس کو بازیاب کیا جائے۔ اسی سلسلے میں حکومت کی طرف سے حسب معمول گرفتاریوں کا طویل سلسلہ چل پڑا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو قید کیا گیا جس کے ردعمل میں1965 ء میں محترم صحرائی صاحب نے بارہمولہ پٹن کی ایک مسجد میں جمعہ کے موقع پر ولولہ انگیز تقریر کرتے ہوئے حکومتِ وقت کو للکارا اور اُن کی جمہوریت کے کھوکھلے دعوؤں کی پول کھول کے رکھ دی اورساتھ ہی حکومت سے بے گناہ قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کر دیا۔ پھر کیا تھا اس بیان کے اگلے دن 21سال کی عمر میں انہیں جیل بھیج دیا گیا جہاں قیدِ تنہائی کے ایام موصوف نے ایک کتاب کو پڑھنے میں گزارے۔ کتاب ایک پاکستانی مصنف کونثر نیازی کی لکھی ہوئی ”راز گُل“اتنی بار پڑھی کہ وہ ذہن میں محفوظ ہو گئی۔ تقریر کے ساتھ ساتھ موصوف تحریر کے جوہر بھی دکھاتے رہے جس کی ایک کڑی کے طور پر1969ء میں طلوع کے نام سے جماعت کی مدد سے ایک رسالہ شائع کیا جس میں بڑی ہی بے باکی سے کفر اور سامراجی طاقتوں کو آئینہ دکھاتے رہے اور ساتھ ہی جمہوریت کے حقیقی معنی سے بھی عوام الناس کو آشنا کرتے رہے۔ لیکن اس کا انجام اور بدلہ اس رسالہ پر حکومت کی طرف سے پابندی کی صورت میں ملا۔ اُن کی زندگی میں نشیب و فرازآتے رہے لیکن راہ عزیمت سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کا کبھی سوچا بھی نہیں۔ ان کی تحریک اسلامی کے تئیں لگن اور اسلام کی اقامت کے لئے جدوجہد کے لئے مرمٹنے کے جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے صحرائی صاحب کو جماعت میں سب سے پہلے بانڈی پورہ،کپواڑہ اور بارہمولہ (اُس دور میں یہ تینوں اضلاع ایک ضلع تھا اور آج الگ الگ ہیں) کے امیر ضلع کے عہدے پر فائز رہے۔اس کے بعد مرکز جماعت میں شعبہ سیاسیات کا سربراہ اور نائب امیر جماعت اسلامی جموں کشمیر کی ذمہ داریاں بھی انجام دینے میں کسی سُستی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ غرض صحرائی صاحب اپنے آپ میں ایک تحریک تھے، صحرائی ایک نظریہ اور فکر کا نام ہے۔ جس نے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے گھر کو بھی مزاحمتی تحریک کے نام وقف کر دیا تھا۔ وقت اور دن گزرنے کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی جموں کشمیر کو محسوس ہوا کہ مزاحمتی تحریک کے لئے الگ اسے ایک جماعت جو کہ جماعت کی زیر سرپرستی ہی رہے کا وجود عمل میں لایا جائے جس کے لئے صحرائی صاحب اور گیلانی صاحب کا رول انتہائی اہم تھا،جس کی وجہ سے 2004 میں جماعت کے شوریٰ نے یہ فیصلہ لیاکہ تحریک حُریت کا وجود عمل میں لایا گیا۔جہاں سے گیلانی صاحب اور صحرائی صاحب نے مزاحمتی تحریک کا از سر نو کام کا آغاز کیا۔اس مزاحمت کے دوران محترم صحرائی صاحب نے مسئلہ کشمیر کے متعلق وہی موقف اختیار کیاجو عام کشمیریوں کا ہے۔وہ کشمیر کو اقوم متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت پر زور دیتے تھے۔ حکومت کو بھی بار بار وہ کہتے آ رہے تھے کہ فوجی طاقت کے ذریعے آپ کشمیریوں کے نہ ہی دل جیت پاؤ گے اور نہ ہی کشمیر کو، لہٰذا بھارت کو چاہیے کہ وہ تنازعہ کشمیر کو پُر امن طریقے سے حل کرنے میں پہل کرے تا کہ دونوں اطراف سے انسانی جانوں کازیاں نہ ہو اور عوام پُر امن زندگی گُزار سکیں۔لیکن ہم سب یہ دیکھ چُکے ہیں کہ بھارتی حکومتوں کا اس مسئلہ کو طول دینے کے نتائج کتنے خطرناک نکل کر سامنے آ رہے ہیں۔ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد بندوق کی طرف راغب ہو رہی ہے اور گھروں کے گھر اُجڑ رہے ہیں۔ ہزاروں بچے یتیم اور بزرگ والدین اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو کھو رہے ہیں۔بستیوں کی بستیاں ویراں اور قبرستان آباد ہو رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں ۸۱۰۲ء میں محترم صحرائی صاحب کے فرزند جنید صحرائی نے بھی کشمیری عوام کی مظلومیت کے حق میں بندوق اُٹھائی۔ جنید کے بندوق اُٹھانے کے بعد ایک مقامی صحافی نے محترم موصوف سے سوال کیا کہ ”کیا آپ اپنے بیٹے کو بندوق چھوڑ کے گھر آنے کی اپیل نہیں کر سکتے“؟ جواباً ان کا کہنا تھا کہ ”میں کیوں اپیل کروں گا، کیامیں بے ضمیر ہوں؟ شیخ محمد عبداللہ ہوں؟ میں بخشی ہوں؟ میں قاسم ہوں؟میں غلام رسول کار بھی تو نہیں ہوں، میں خدا کا وہ بندہ ہوں جس کی رگ رگ میں آزادی کی تڑپ موجود ہے۔“ اس سے آپ محترم موصوف کی اپنے مقصدکے ساتھ کمٹمنٹ کا ہم اندازہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سے اُن کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے مجاہد صحرائی نے میڈیا کے ایک نمائندے کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ”ہمارے والد صاحب نے ہمیں ایک نصیحت کی تھی کہ آپ سودی کاروبار یا سود کھانے سے وابستہ نہیں ہوں گے او ر آپ کو سرکاری نوکری نہیں کرنی۔ اس لئے کہ آگر آپ سرکارکے ملازم ہوں گے تو مجھے آپ کے بدلے ہر جگہ سر جھکانا پڑے گا۔“ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنید صحرائی 19 مئی2019 کے دن سرینگر میں ایک خونین معرکہ آرائی میں جاں بحق ہوئے۔جاں بحق ہونے کے بعد جنید صحرائی کی نعش کو بھی دیگر عسکریت پسندوں کی لاشوں کی طرح اُن کے لواحقین کو نہیں دی گئی بلکہ جنیدشہید کو اپنے گھر سے دور پہلگام میں دفنا دیا گیا۔ تعزیت پر آنے والوں کی ایک بھیڑ میں فون پر کسی عزیز کے ساتھ محترم صحرائی صاحب مرحوم کچھ اس طرح سے اپنے بیٹے کی شہادت کو علامہ شبلی نعمانیؒ کے ان اشعار کے ساتھ سیلیبریٹ کر رہے تھے کہ،
عجم کی مدح کی،عباسیوں کی داستاں لکھی
مجھے یوں چندے مقیم آستانِ غیر ہونا تھا
مگر اب لکھ رہا ہوں سیرت پیغمبر خاتم ﷺ
خدا کا شکر ہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا

یہ الفاظ کسی عظیم انسان کی زبان سے ہی نکل سکتے ہیں۔ابھی لوگ محترم صحرائی صاحب کے بیٹے کی تعزیت پر ہی آرہے تھے کہ انتظامیہ نے امن و قانون کا مسئلہ بتاتے ہوئے ۸۷ سالہ بزرگ جو کہ مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے کو جموں کی ایک جیل میں ”پبلک سیفٹی ایکٹ“ کے تحت پابند سلاسل کر دیا گیا۔محترم موصوف کو 19 مارچ 2018ء کو تحریک حُریت کا چیرمین بھی مقرر کیا گیا تھا۔ چونکہ صحرائی صاحب پہلے سے ہی کافی علیل تھے اس کے باوجود اُنھیں جموں کی جیل میں رکھا گیا۔ ایک نیوز پورٹل کے ساتھ موصوف کے فرزند نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ”وہ ہمیں ہر ہفتے دو مرتبہ فون کیا کرتے تھے لیکن گزشتہ دس دنوں سے کوئی فون نہیں آیا۔ آخری مرتبہ جب بات ہوئی تو اس نے کہا کہ اس کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔پھر وہی ہوا جس کا محترم موصوف نے کہا تھا کہ ”انہوں نے مجھے یہاں مارنے کے لئے لایا ہے۔“اخباری رپورٹوں کے مطابق محترم صحرائی صاحب کی صحت اچانک بگڑ گئی جس کے سبب اُنہیں جموں کے گورنمنٹ میڈیکل کالج میں علاج کے لئے بھرتی کیا گیا جہاں وہ اپنے اہل خانہ سے دور داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ انتظامیہ نے انہیں سرینگر کے مزار شہداء میں دفنانے کی اجازت نہ دی۔جس کی وجہ سے اُن کو اپنے آبائی گاؤں ٹکی پورہ لولاب کپواڑہ میں اپنے مختصر اہل خانہ کی موجودگی میں میں سُپرد لحد کیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی صحرائی صاحب کی جدائی کے غم میں ہی اہل خانہ نڈھال تھے کہ موصوف مرحوم کے دو بیٹوں کو غیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ(UAPA)قانون کے تحت یہ کہتے ہوئے گرفتار کیا کہ انہوں نے صحرائی صاحب کے جنازے کے دوران غیر قانونی اور ملک دشمن نعرہ بازی کی ہے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق ”۵ /مئی2021ء کو محمد اشرف صحرائی کے دونوں بیٹوں،مجاہد صحرائی اور راشد صحرائی کو اپنے گھر واقعہ برزلہ سرینگر سے گرفتار کر کے کپواڑہ منتقل کر کے درزنداں کیا گیا اس کے ساتھ ہی وہاں جنازے میں موجود بیس افراد کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کئے گئے ہیں۔غرض صحرائی صاحب کی وفات کے بعد بھی اُن کے گھر سے قربانیوں اور عظیمت کی لازوال داستانیں رقم ہو رہی ہیں،نہیں معلوم کہ جھکنے اور نہ بکنے والے اس مرد مجاہد کے اہل خانہ کو اور ابھی کن کن مراحل سے گُزرنا پڑے گا۔ اللہ تعالی مرحوم صحرائی صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما ئے اور اُن کے اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply