جنسی تعلقات میں اعتدال۔۔۔عظیم الرحمن عثمانی

انسان اپنا ایک حیوانی وجود ضرور رکھتا ہے مگر اسے فقط ایک حیوان قیاس کرلینا دین کی رو سے درست نہیں۔ بشر یعنی خاکی حیوانی وجود اور روح یعنی نوری روحانی وجود کے مجتمع ہونے سے جو تیسری حقیقت آشکار ہوتی ہے، اس کا نام “انسان” ہے یا “انسانی نفس” ہے۔ پھر اس نفس کے جزئیات و داعیات کی اپنی ایک تفصیل ہے جو نفس لوامہ، نفس امارہ، نفس خبیثہ اور نفس مطمئنہ میں منقسم ہے۔ جب یہ حقائق سالک کے پیش نظر ہوں تو وہ انسانی فطرت کو کلی طور پر کبھی بھی حیوانی فطرت کا من و عن عکس نہیں سمجھتا۔ البتہ چونکہ انسان کا ایک پہلو حیوانی “بھی” ہے لہذا جزوی طور پر جبلت و فطرت میں انسان اور حیوان کے مابین اشتراک پایا جانا ممکن ہے۔ گو نوری پہلو کے حوالے سے انسانی فطرت میں مختلف ملکوتی داعیات بھی اس طرح مضمر ہیں کہ صاحب شعور کیلئے ان کا انکار ممکن نہیں۔

حیوان کھاتے پیتے ہیں۔ ہم انسان بھی کھاتے پیتے ہیں۔ وہ سوتے ہیں، گروہوں میں رہتے ہیں، جوڑا بناتے ہیں، مباشرت کرتے ہیں۔ ہم بھی یہ سب کچھ کرتے ہیں۔ ایسی اقدار کی ایک طویل فہرست مرتب کی جاسکتی ہے جو ہم انسانوں اور دیگر حیوانات کے مابین مشترک ہیں۔ مگر جیسے عرض کیا کہ ساتھ ہی ایسے اخلاقی داعیات بھی انسانی نفس و فطرت میں پیوست ہیں جو انسان ہی کا خاصہ ہیں۔ لہذا کسی بھی عمل کو انسانیت کیلئے محض اس لئےفطری قرار دے دینا کہ وہ کچھ حیوانات کی فطرت کیلئے قابل قبول ہے، درست انداز فکر نہیں۔ بلکہ شاید انسان کو انسانیت کے مقام سے ہٹا کر زبردستی حیوانیت کے مقام پر فائز کردینے کے مترادف ہے۔ یہی وہ فاش غلطی ہے جس کا ارتکاب بدقسمتی سے کئی انسان کر بیٹھتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ نے “نیچرسٹ” گروہ کے بارے میں غالباًًً  سنا ہوگا۔ جو ننگ دھڑنگ رہنے کو نیچر یعنی فطرت سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ جب کتے، بلی، کوے، بکری کسی جانور کو کپڑے پہننے کی شرط نہیں تو ہم کیوں اس خودساختہ پابندی کو خود پر مسلط کرلیں؟ اسی فلسفے کے تحت دنیا بھر میں “نیوڈ بیچز” ہیں جہاں مرد و زن کا ننگ دھڑنگ رہنا شرط ہے۔ لہذا ان صاحبان کو جہاں موقع ملتا ہے یہ “پی-کے” بن جاتے ہیں۔ اسی طرح ایک گروہ نے جانوروں کو دیکھتے ہوئے جنسی تعلق میں سگے رشتے نہ ہونے کی شرط لگانے کو بھی ایک اختراع مانا۔ چنانچہ کسی دوسرے جانور کی مانند ماں نے بیٹے کے ساتھ اور بھائی نے بہن کیساتھ جنسی تعلق قائم کرلیا۔ اسے دنیا بھر میں “انسیسٹ ریلیشن شپ” کہا جاتا ہے۔ جو اس حد تک نہ جاسکے انہوں نے ہم جنسی یعنی “ھومو سیکشوئلٹی” کو عین فطری مان کر اپنا لیا اور باقاعدہ شادی کرنے کو غیر ضروری قرار دیا۔ آج دنیا بھر میں آپ کو ایسے علامہ دستیاب ہیں جو ہم جنسی کو فطری قرار دیتے ہیں اور استدلال میں مختلف جانوروں میں موجود ہم جنسی کو پیش کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ اور اس طرح کے متعدد فلسفے جو اخلاقیات کا نوحہ پڑھتے ہیں تاریخ انسانی میں بدلتے خیالات کے ساتھ اپنائے جاتے رہے ہیں۔ یہ اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ اگر انسانی ذہن کو وحی الہی کا پابند نہ کیا جاتا یا نہ کیا جائے تو وہ عقل و فطرت کے نام پر کیا کیا گل کھلائے گا؟ یا کھلاتا ہے۔ ہماری فطرت کے حقیقی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر خالق کی جانب سے جو الہامی ہدایات و پابندیاں ہمیں عطا ہوئی ہیں وہ پوری نوع انسانی کیلئے ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی طرح دیگر معاملات میں بھی جہاں جہاں انسانی فہم کے ٹھوکر کھانے کا امکان تھا وہاں وہاں بذریعہ وحی حدود کا تعین کردیا گیا۔ جیسے انسان نے طعام کیلئے کبھی تو یہ انتہا اپنائی کہ درندے کھانے اور خون پینے کو بھی جائز سمجھا تو کبھی دوسری انتہا اپنائی کہ گوشت کو مطلق ناجائز مان لیا۔ جنسی تعلق میں کبھی ایسا آزاد ہوا کہ جو سامنے آئی اسے رسوا کردیا اور کبھی رہبانیت اختیار کرکے ایسا پاکباز بننا چاہا کہ شادی کرنا بھی جرم سمجھا۔ جرائم کی سزا پر بات آئی تو کبھی ایسا بے رحم ہوا کہ مجرم کو سر سے پاوں تک آرے سے کاٹ ڈالا اور زندہ انسان کی کھال اتار لی۔ پھر آج ایسارحمدل ہونا چاہتا ہے کہ قاتل یا فسادی کو بھی نفسیاتی مریض اور حالات کا مارا سمجھ کر سزا دینے سے  گریز کرتا ہے۔ ان سب معاملات میں وحی الہی نے حد فاضل کھینچ کر ایک ایسا اعتدال قائم کردیا ہے جو انتہا پسندی سے دور ہے۔ الحمدللہ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply