عسکری ادارے اور میڈیا کا کردار/سہیل احمد لون

دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی تباہ حال تو ہو گیا مگر ایک مثبت چیز جو انہیں ملی وہ ہٹلر کے آمرانہ دور کا خاتمہ تھا۔ اس کے بعد بابائے جرمنی کونراڈ آڈے ناؤر نے حقیقی جمہوریت کی ایسی بنیاد رکھی جس پر جرمن قوم جمہوریت کی ایسی عظیم الشان عمارت کھڑی کردی جس میں آمریت کی ایک اینٹ کی گنجائش نہ رکھی۔کونراڈ آڈے ناؤر نے 1956  میں جرمن نوجوانوں کے لیے جرمن فوج کی تربیت لازمی قرار دے دی اور یہ قانون 2011ء میں انجیلا میرکل نے ختم کیا۔

 

 

 

جرمنی کی جمہوریت کے مستحکم ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں کے سیاستدانوں،عوام اور میڈیا نے کبھی ایسا رویہ نہیں اپنا یا جس سے کسی آمر کی راہ ہموار ہوسکے۔  اڈولف ہٹلر نے آسٹریا سے آکر جرمن پر آمرانہ تسلط قائم کیا تو اس سے جرمن قوم نے یہ سبق سیکھا کہ آئندہ کسی ایسے شخص کو حساس ادارے میں کوئی کلیدی عہدہ نہیں سونپنا جس شخص کے ماں باپ میں سے کوئی ایک بھی خالص جرمن نہ ہو۔کا م کے حصول کے لیے جرمنی میں بھی تمام شہریوں کے لیے بلا امتیاز یکساں مواقع کا قانون تو موجود ہے مگر اس معاملے میں جرمن غیر محسوس طریقے سے امتیازی سلوک برتتے ہیں۔

یہی فارمولہ وہ چیف جسٹس کے عہدے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں ، شاید یہی وجہ ہے کہ وہاں قانون و انصاف کی بالا دستی ہے اور فوری اور سستا انصاف ہوتا دکھائی بھی دیتا ہے۔

اس وقت جرمنی میں تقریباً 459 رجسٹرڈ ٹی وی چینلز ہیں اور تقریباً 382ڈیلی نیوز پیپرز ہیں ۔مگر حیرت انگیز طور پر کسی ٹی وی چینل یا اخبار میں آرمی چیف یا چیف  جسٹس کو مو ضوع خبر نہیں بنایا جاتا ، شاید یہی وجہ ہے کہ جرمن قوم کی اکثریت کو اپنے آرمی چیف یا چیف جسٹس کے نام کا بھی علم نہیں ہوتا۔

یہی حال مادر جمہوریت برطانیہ کا بھی ہے اگر یہاں پر کوئی صحافی آرمی چیف یا چیف جسٹس کے متعلق Voxpopکرے تو دس فیصد سے کم لوگ ان کے ناموں سے واقف ہونگے۔ کیونکہ یہاں بھی آرمی چیف یا چیف جسٹس کو خبروں کا موضوع بنانا نیوز ایجنڈے کا حصہ نہیں ہوتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے آج تک حقیقی جمہوریت دیکھی ہی نہیں ،کاش بابائے قوم قائد اعظم قیام پاکستان کے بعد چند برس زندہ رہ جاتے تو ہمیں بھی اصل جمہوریت نصیب ہو جاتی۔

ہمارے ہاں سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی کی کہانی قیام پاکستان کے فوری بعد ہی شروع ہو گئی تھی جو آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے سیاسی اکابرین نے بھی آمروں کے لیے راستے ہموار کیے ۔عسکری اداروں سے بلا شبہ لنگڑی لولی جمہوری حکومتوں کو ڈی ریل کرنے کی غلطیاں بھی ہوئیں ہیں اپنی ان غلطیوں کا اعتراف سابقہ آرمی چیف جنرل)ر( قمر جاویدباجوہ 2019ء میں کر بھی چکے ہیں اور اس بات کا اعادہ بھی کیا تھا کہ آئندہ فوج سیاسی معاملات سے دور ہی رہے گیِ یہ الگ بحث ہے کہ ملٹی اسٹیبلشمنٹ آج بھی سیاست کا محور کیوں ہے؟

تعجب کی بات یہ ہے کہ ایسا اعتراف یا معافی کبھی کسی جمہوری سیاستدان سے سننے میں نہ آیا۔ جنرل جیلانی اور جنرل ضیاع کے آشیر باد سے جو لوگ اقتدار میں آئے اقتدار نہ ملنے پر وہ اسی ادارے کو خلائی مخلوق کا طعنہ دے رہے تھے اور ‘‘انقلابی’’ ہونے کا دعویٰ  بھی کررہے تھے۔اب یہی حال تحریک انصاف کا ہے وہ بھی اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو الزام دے رہے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ معاملہ سیاسی ہو یا انتظامی، ثالثی کردار یا مدد کے لیے ہمیں خاکی وردی کی طرف دیکھنا پڑتا ہے ؟اگر وہ معاملات حل کرنے کی کوشس کرتے ہیں تو ایک مخصوص طبقہ خاکی وردی کے وقار کو خاک میں ملانے کی کوشش کرتا  ہے۔ انتخابات کب ہونے ہیں اور نگران سیٹ اپ کیسا ہوگا؟ یہ بات سویلین کو سلجھانا چاہیے مگر اب حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ آپ کمبل کو چھوڑنا چاہتے ہیں مگر کمبل ہی جان نہیں چھوڑتا۔اس کام کے لیے بھی سب سیاسی جماعتیں ہاتھ باندھ کر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی  ہیں۔

عوام کے بنیادی مسائل تعلیم ، صحت ، روزگار، تحفظ اور سستا انصاف ہیں جن کا حل ہنگامی بنیادوں پر ہونا چاہیے ۔ مگر ہم اپنے ذرائع ابلاغ پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ ہماری ترجیحات عوامی مسائل نہیں بلکہ آرمی چیف اور عدلیہ کے چیف کی تقرری یا انکی مدت ملازمت میں توسیع ہے۔امریکہ، برطانیہ ، کینیڈا سمیت یورپین ممالک جہاں جمہوری حکومتیں ہیں کہیں بھی آرمی چیف یا چیف جسٹس کو میڈیا کی زینت نہیں بنایا جاتا۔ یہاں پر بسنے والی عوام جو کتابوں کے علاوہ روزانہ کی بنیادوں پر اخبارات کا مطالعہ بھی کرتی  ہیں مگر ان میں سے شاید ہی کسی کو اپنے آرمی چیف یا چیف جسٹس کا نام آتا ہو۔ کیونکہ عدلیہ اور فوج ایسے ادارے ہیں جن کو میڈیا میں تشہیر کرنے سے پرہیز ہی کیا جاتا ہے۔

ہمارے میڈیا نے آرمی چیف اور چیف جسٹس کو معتبر ادارے کے  سربراہ کی بجائے (Celebrity) کے درجے پر فائز کر دیا ہے۔ چیف صاحبان کی مدت ملازمت جیسے ختم ہونے کو آرہی تھی ہمارے میڈیا میں ہلچل بڑھتی جا رہی تھی۔ نئے چیف صاحبان کے سلسلے میں قیاس آرائیاں ، سیاسی استخارے اورتجرباتی پیش گوئیاں دیکھ کر سٹے باز بھی متحرک ہو گئے ۔ آرمی چیف کے اعلان سے قبل کرکٹ میچ کی طرح ریٹنگ جاری ہوئی تھی۔ جن صاحبان کوہارٹ فیورٹ قرار دیا گیا تھا ان کا ریٹ بھی ہائی تھا مگر زیرک جواری ہمیشہ ماضی ، حال اور حالات دیکھ کر ہی شرط لگاتا ہے۔آرمی چیف کی تقرری کے بعد ہمارا میڈیا ان کو ایسی ہی کوریج دے رہا تھا جیسے برطانیہ میں شاہی خاندان کو دی جاتی ہے۔فوج کا سپہ سالار ہونا اعزاز کی بات ہوتی ہے اور بہت بڑی ذمہ داری بھی ۔عام تاثر یہ ہوتا ہے کہ فوج میں موج نہیں ہوتی بلکہ ملک و قوم کے دفاع کی خاطر سخت ترین زندگی گزارنا پڑتی ہے۔مگر ہمارے میڈیا میں ان کی اس انداز سے تشہیر کی جاتی ہے جس سے گمان ہوتا ہے کہ ان کا تعلق کسی شاہی خاندان سے ہے۔ آمرانہ دور میں ہوسکتا ہے میڈیا کی مجبوری ہو مگر جمہوری دور میں فوجی سپہ سالار کو خبروں کی زینت بنانا سمجھ سے بالا تر ہے۔ میڈیا عوامی رائے کو تبدیل کرنے کا سب سے موثر ہتھیار ہوتا ہے ، موجودہ حالات میں عوام کا ایشو یہ نہیں کہ کون چیف آف آرمی سٹاف بنا؟ کون سینئر تھا کون جو نیئر ؟ کس کو کیوں بنایا گیا؟مدت ملازمت میں توسیع کیوں کی گئی؟ کس سیاسی جماعت نے اس کی حمایت کی یا مخالفت؟

یہ حساس ادارے ہیں ان پر جتنی کم بحث کی جائے اتنا ہی بہتر ہے۔

کاش! چیف صاحبان ہی اس بات کی طرف توجہ کریں۔ کاش! کوئی اس بات پر بھی ازخود نوٹس لے کہ آئندہ کوئی ان اداروں کے سربراہان کو شوبز کی طرح زیر بحث نہ لائے۔ اگر یہ رجحان مزید بڑھتا گیا تو جلد ہی ٹی وی کے‘‘ مارننگ شوز’’ میں چیف صاحبان کو مدعو کیا جانے لگے گا۔‘‘ایک دن چیف کے ساتھ’’ کرنے کا بھی سوچا جا سکے گا۔ اگر مقبولیت کا گراف مزیدایسے ہی بڑھا تو کوئی انہیں ‘‘بگ برادر ’’میں آنے کی دعوت بھی دے سکتا ہے۔عوام کو اس سے غرض نہیں کہ کون چیف جسٹس ہے ، انہیں سستا اور یقینی انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔ عوام کو اس کی پروا نہیں کہ کون چیف آف آرمی سٹاف منتخب کیا جاتاہے عوام کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ کسی بھی اندرنی یا بیرونی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ میڈیا کا فوج کو زیر بحث لائے بغیر گزرا نہیں ہوتا تو اپنی عادت پوری کرنے کے لیے میجر عزیز بھٹی شہید، اسکوارڈن لیڈرایم ایم عالم ، پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید، میجر شبیر شریف شہید، میجر محمد طفیل شہید، لانس نائک محفوظ شہید، اسکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی شہید، جیسے قومی ہیروز کے کارناموں کا عوام کو بتائے۔ اس وقت تو میڈیا نے چیف صاحبان کی اتنی قصیدہ گوئی کی جاتی ہے کہ ڈر ہے کہیں ان کو اس کی عادت ہی نہ ہوجائے اور عادت اگر زیادہ پکی ہوجائے تو وہ فطرت میں تبدیل ہو جاتی ہے جسے بدلنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جرمنی نے آڈولف ہٹلر کے بعد یہ سبق سیکھا کہ کبھی کسی آمر کے لیے اقتدار کا راستہ ہموار نہ کیا اور ناہی عسکری اداروں کو سیاسی بنایا۔فوج میں موج نہیں ،عوام کو یہ سبق سکھانے کے لیے تقریباً 55برس ہر جرمن نوجوان شہری کے لیے فوجی تربیت بھی لازمی رکھی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد آج تک کوئی ایک انچ بھی جرمن سر زمین فتح نہ کرسکا ،بلکہ روس سے اپنے ہزاروں جنگی قیدی واپس لیے اور 1990ء میں دیوار برلن گرا کر مشرقی جرمنی کو بھی ساتھ ملا لیا۔نیٹو فورس کا حصہ ہونے کی وجہ سے جرمن فوج بھی عراق، افغانستان ،وغیرہ میں جنگ کا حصہ بنے مگر وہاں کے میڈیا نے کبھی ان کو قصیدہ گوئی کے انداز میں خبروں کی زینت نہیں بنایا ۔پاکستان میڈیا کو بھی اب اپنا انداز بدلنا ہو گا ، قصیدہ گوئی میں شدت پسندی بھی ڈان لیکس کی طرح نقصان دہ ہی ہوتی ہے۔ پاکستان کی عوام کے لیے یا بین الاقوامی طور پر اگرکوئی خبر یا اطلاع ناگزیر ہو تو اس کے لیے ISPRآئی ایس پی آر اپنے فرائض ادا کرنے کے لیے موجود ہے۔فوج ایک ‘ ‘ نیو ٹرل ٗ ٗ ادارہ ہے اسے میڈیا میں بہت زیادہ ڈسکس کرکے متنازعہ نہ بنایا جائے ۔حالیہ آرمی ایکٹ کے ترمیمی بل میں اگر اس بات کا اضافہ کرلیا جاتا کہ ادارے کو میڈیا پر بھی زیر بحث نہیں لایا جائے گا تو ہوسکتا ہے میڈیا کچھ توجہ عوامی مسائل پر بھی دے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply