عبادت اور خدمت۔۔ڈاکٹر اظہر وحید

اس مضمون کا مقصد عبادت کو خدمت پر، یا خدمت کو عبادت پر فائق قرار دینا ہر گز نہیں، بلکہ عبادت اور خدمت کے درمیان نادیدہ اور غیر محسوس رشتوں کی تفہیم پر گفتگو ہے۔

بندگانِ خدا کی خدمت بندگانِ خدا ہی کرتے ہیں۔ کوئی نفس کا بندہ، حرص و ہوا کا اَسیر مخلوقِ خدا کی خدمت پر قادر نہیں ہوتا۔ خدمت ِ خلق ایک شرف ہے، اور یہ شرف انہیں ہی دیا جاتا ہے جو اپنی ذات میں اشرف المخلوقات ہونا ثابت کرتے ہیں۔ اشرف المخلوقات ہونا کوئی پیدائشی وصف نہیں۔۔۔ یہ نسب نہیںٗ کسب ہے، بلکہ کسبِ کمال ہے۔

اِسی طرح ایمان بھی موروثی نہیں ہوتا بلکہ یہ عین شعوری حالت میں اقرار بالّسان و تصدیق بالقلب کے ساتھ اپنے رب کے حضور تسلیم و رضا کے باب میں داخل ہونے کا نام ہے۔ اِسلام موروثی ہو سکتا ہے، ایمان سراسر ذاتی نوعیت کی ایک قلبی واردات ہے۔ احادیث میں ایمان کی تفصیلات میں اسے ذائقہ چکھنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔۔۔ اور ظاہر ہے، ذائقہ چکھنا ایک انفرادی تجربہ ہے۔

مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ سے ایک مرتبہ کسی نے سوال کرتے ہوئے ایک تمیدی جملہ باندھا ،سر! یہ انسان خلیفۃ اللہ ہے، تو۔۔ یہ سنتے ہی آپؒ نے یکلخت اسے ٹوکتے ہوئے کہا ،کون سا انسان؟ بھئی !سب انسان نہیں، بس وہی انسان جو خلیفۃ اللہ ہے، مراد یہ ہے کہ انسان ہونا بھی ایک شرف ہے، اور یہ شرف صرف کسی انسان کے گھر پیدا ہونے سے حاصل نہیں ہو جاتا۔ اسی انسانی صورت میں جس میں انبیا و رُسل مبعوث ہوئے ٗ اللہ کے محبوب اولیاء ظاہر ہوئے ٗ اِسی انسانی شکل و صورت میں پائے جانے والی مخلوق کو شرالدواب اور کالاانعام بھی کہا گیا۔ در حقیقت انسان ایک مجموعۂ صفات ہے۔۔۔۔اُن جملہ اخلاق و صفات کاحسین امتزاج ،جو خالق ِاحسن ِ تقویم انسان کے اندر دیکھناچاہتا ہے۔

اِنسان کے لیے کامل انسانی صفات کے حصول کا راستہ انسانِ کامل ؐ ہی کی اطاعت و محبت سے وابستہ ہے۔ اتباعِ رسولؐ ہی کسی انسان کے اندر وہ اِخلاق وصفات پیدا کرنے کا ایک مستند راستہ ہے، جو اِخلاق و صفات اللہ کو محبوب ہیں، چنانچہ فرمایا گیا ،آپؐ کہہ دیجئے ،اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ خود تم سے محبت کرے گا،گویا خدائے اَحد نے اپنے واحد محبوبؐ کی اطاعت ہی کو اپنے قرب کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اب اگر کوئی شخص اللہ کے رسولؐ کے بتائے ہوئے طریقے کو ترک کر کے کسی خود ساختہ راستے پر چل نکلتا ہے ، اور اپنے سوشل ورک کو خدمت ِ خلق اور قرب ِ خداوندی کا ذریعہ جانتا ہے تو جان لینا چاہے کہ وہ گمراہی کی وادی میں بھٹک رہا ہے۔

اللہ کی مخلوق کی خدمت اللہ ہی کے بتائے ہوئے طریق پر ہو گی اور یہ طریقت اللہ نے اپنے رسولﷺ کی معرفت مخلوق کو بتلا دی ہے۔ رسولِؐ خدا نے بتلا دیا ہے کہ مخلوق خدا کا کنبہ ہے۔ کنبہ عیال اور خاندان کو کہتے ہیں۔ اگر کوئی اور کہے تو اپنے محدود فہم کی بنیاد پر یہ شرک ہوگا، لیکن جب رسولِؐ خدا اِرشاد فرمائیں تو یہ عین معرفت ِ خداوندی ہے اور حق ہے۔۔۔ بلکہ عین حق ہے۔توحید کی ہر بات ہمیں رسالتؐ سے ملی ہے، توحید ہماری عقلی تحقیق نہیں۔ یہاں تخصیصِ نبویؐ کا نکتہ بھی وا ہوتا ہے کہ ذاتِ رسولؐ کے علاوہ جو انسان بھی توحید کی بابت کوئی کلام کرے گا تو وہ قابل ِ تشکیک اور تحقیق ہوگا، جب تک وہ کلام معیارِ دین ِ محمدیؐ پر پورا نہ اُترے، جب تک اُسے شہر ِ علمؐ اور درِ علم ؑ سے کوئی سند میسر نہ آئے ، ہرگزقابلِ قبول نہ ہوگا۔ توحید سب سے بڑا غیب ہے۔ یومنون بالغیب کا مطلب دراصل یومنون باالرسولﷺ ہے، کیونکہ غیب کی تمام خبریں ہمیں رسولؐ اللہ ہی کی معرفت میسر آتی ہیں۔ خدا پر وہی ایمان لاتا ہے، جو رسولِ خدا پر ایمان لاتا ہے۔ اللہ نے اپنی اطاعت کو اپنے رسول ؐ کی ا طاعت سے مشروط کر دیا ہے۔ من یّطع الرّسول فقد اطاع اللہ،۔۔۔۔”جس نے رسولؐ کی اطاعت کی، پس اُسی نے اللہ کی اطاعت کی”۔

کتاب ِ ہدایت قرآن مجید فرقانِ حمید رسولؐ اللہ پر نازل ہوئی۔ کتاب ِ ہدایت ہادیؐ کے بغیر ہدایت نہیں دیتی ۔۔۔ یعنی رسولؐ اللہ کے حوالے کے بغیر کتاب اللہ سے ہدایت نہیں مل سکتی۔فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ کتاب ِ ہدایت سے ہدایت صرف متقین کے لیے ہے۔ متقی وہی ہیں جو اُسوۂ رسولؐ پر کاربند ہیں۔ قرآن کریم میں سورۃ الحجرات میں تقویٰ کا ایک مفہوم تکریمِ ذات ِ نبیؐ ہے۔ کتاب اللہ کو قرآنِ صامت کہا گیا ہے اور رسول ؐاللہ کو قرآن ناطق! کتاب اللہ کو رسولؐ اللہ کی سیرت سے جدا کرنے والے راہِ ہدایت سے دُور ہیں۔

یہی کلیہ خدمت کے باب میں ہے۔ دینی حوالے کے بغیر خدمت عام طور پر سیاست کا شعبہ ہے ، یا شہرت اور تجارت کا۔۔۔ یا پھر اپنے مزاج کی تکمیل کا کوئی راستہ ہے ! جس طرح سیاست کچھ لوگوں کا ایک اسپیشل کپ آف ٹی ہوتا ہے اس طرح خدمت کے لیے گلی کوچوں میں تنظیم سازی بھی کچھ مزاجوں کی گھٹی میں ہوتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ خدمت ِ خلق اپنے مزاج اور مفاد کی تکمیل کے لیے کی گئی ہے یا پھر اللہ اور اُس کے رسولؐ کی خوشنودی کا ذریعہ جان کرخدمت کا راستہ اختیار کیا گیا ہے۔ پہلی صورت میں انجمنِ خدام کاسرپرست ِ اعلیٰ اپنی تنظیم کا خود ذمہ دار ہے، اُس کی خدمت مقدار کی دنیا میں بلند و بالا عمارتوں اور نشریاتی رابطوں کے پیمانوں سے ماپی جائے گی۔ صرف اللہ اور رسولؐ کی خوشنودی چاہنے والے کی خدمت سائل اور مسئول دونوں کی روح کی سرشاری کا ذریعہ بنے گی۔ صرف دینی حوالے سے کی گئی خدمت مقدار کے پیمانوں سے آزاد ہے۔ دین ایک معیار ہے ، اخلاقی اور روحانی معیار ۔۔۔ اور دینی حوالے سے کی جانے والی خدمت کا تعلق بھی مقدار کی دنیا سے نہیں بلکہ معیار کے عالم سے ہوگا۔ فلاحی کام فلاح کا ذریعہ نہ بنے تو قابل ِغورہے۔ مرشدی واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے ،، جب تک انسان اپنی روح کو بیدار نہیں کر لیتا ،وہ کوئی فلاحی کام نہیں کر سکتا،، رُوح کی بیداری کا تعلق ایمان بااللہ اور حُب ّ ِ رسولؐ سے ہے۔

بسا اوقات لوگ اِس خلطِ مبحث کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اگر مسجدیں بنانے کی بجائے یتیم خانے بنا لیے جائیں تو شاید معاشرے میں زیادہ بہتری آجا ئے گی، مزاروں پر چادر چڑھانے سے بہتر ہے کسی یتیم کے سر پر چادر ڈال دی جائے ، حج اور عمرے پر رقم خرچ کرنے سے بہتر ہے ، کسی سوشل ایکٹیوٹی پر خرچ کر دی جائے۔۔۔ بنظر ِ غائر دیکھا جائے ، ایک تحقیقی سروے بھی کروالیا جائے تو نتیجہ یہی برآمد ہوگا کہ عبادات کی طرف راغب لوگ ہی خدمتِ خلق کی طرف زیادہ رغبت رکھتے ہوئے پائے گئے۔ جسے خوف ِ خدا نہ ہو،یا پھر شوقِ رسولِ ؐخدا نہ ہو، وہ خدمت ِ خلقِ خدا میں کیونکر دل چسپی لے سکتا ہے؟ قرآن کریم میں درج ہے: وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا ۔۔۔ “اور وہ اللہ کی محبت میں مسکینوں ، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں”

خدمت ہماری عبادت کو سند دیتی ہے اور عبادت ہمارے جذبہ خدمت کو مہمیز دیتی ہے۔ طعام المسکین سے لے کر زکوٰۃ ، عشر، خمس اور اِنفاق فی سبیل اللہ تک ساری مالی عبادات دراصل ہماری بدنی عبادات کی زینت ہیں۔ اوائل میں مساجد کی حیثیت محض جائے عبادت ہی نہ تھی بلکہ مساجد سے ایک مقامی سوشل ویلفیئر کا کام بھی لیا جاتا تھا۔ دین اور دنیا کو الگ الگ خانوں میں بانٹ دینے کے بعد عبادت خدمت سے دُور ہوتی چلی گئی اور خدمت محض ایک سیکولر سوشل ایکٹیوٹی کے طور پر رواج پا گئی۔

خدمت کی آڑ میں عبادت سے فرار اختیار کرنے والے، اورزعمِ عبادت میں خدمت سے انکار کرنے والے دونوں گروہِ غافلین میں شامل ہیں۔ مخلصین خدمت کی مصروفیت کے باوصف عبادت و گریہ زاری کے لیے رات کا دامن ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ مخلصین کی عبادت انہیں مخلوق کی خدمت سے غافل نہیں کرتی!! عبادت سے منہ موڑنے والے رویے کو قرآن میں استکبارو تکبر سے تعبیر کیا ہے۔ وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ عِندَهُ لا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلا يَسْتَحْسِرُونَ ۔۔۔۔”اور اسی کے ہیں جتنے آسمانوں اور زمین میں ہیں اور اُس کے پاس والے اُس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے اور نہ تھکیں” یعنی اگر عبادت کا مدعا قربِ حق ہے تو قولِ حق ہے کہ اُس کا قرب رکھنے والے اُس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے۔ یہاں یہ فلسفہ بھی زمین بوس ہوا کہ عبادت کا مدعا قرب ہے اور جب مدعا حاصل ہو جاتا ہے تو اِنسان عبادت کی ضرورت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جس طرح سارے اچھے نام اُسی ایک ذات کے ہیں، اِس طرح ساری اچھی صفات بھی اُسی سے منسوب ہیں۔ صفات ِ انسانی میں خدمت ِ انسانی ایک نہایت اعلیٰ صفت ہے۔ کوئی صفت صفاتِ خداوندی سے جدا ہو کر خوب نہیں ہو سکتی ، خوب نہیں رہ سکتی۔ مخلوق کی ربوبیت کرنے والا اُسے محبوب ہے ، رزق تقسیم کرنے والا رازق کے ہاں خوب ہے۔۔۔اور ان تمام ستودہ صفات کی سند محبوبِؐ رب العالمین سے پانے والا تو اُس کے ہاں خوب تر ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply