براسطہ جہادِ کشمیر سب سے پہلے ہم( دوسرا،آخری حصّہ )۔۔عاطف ملک

ارشد لون ایک سنجیدہ طالبعلم تھا۔ اُس کےزندگی کے تجربے اپنے ہم جماعتوں سے فرق تھے۔ اُس نے اپنی توجہ پڑھائی پر مرکوز رکھی۔ ایف ایس سی بورڈ میں پوزیشن لی اور پھر غلام اسحاق خان انسٹیٹوٹ میں الیکٹرونکس انجینرنگ میں اسکا داخلہ ہو گیا۔ یہ انسٹیٹوٹ بھی ایک کم آباد علاقے میں قائم شدہ ہے، کوئی قابلِ ذکر شہر پاس نہیں ہے۔ کلاسوں کے بعد ہوسٹل واپسی، میس، انٹرنیٹ، نمازیں، تبلیغی جماعت، کھیل، مباحثے، سیاسی اور مذہبی بحثیں، توانائی سے بھرپور جواں لوگوں نے اپنے اپنے شوق ڈھونڈ لیے تھے۔ مختلف طالب علم اپنے اپنے رجحان کے مطابق کام کرتے، بعض انٹرنیٹ پر فری لانس کام کرتے، بعض یونیورسٹی میں بنائے گئے مختلف کلبوں کا حصہ بن جاتے۔ ارشد لون روبوٹکس اور الیکٹرونکس کلب میں شامل ہوگیا۔ چھوٹے چھوٹے ہابی پروجیکٹ کرتا؛ موٹر کنٹرول، دھواں محسوس کرتا الارم سسٹم، سفید لائن پر چلتا چھوٹا روبوٹ وغیرہ وغیرہ۔
ڈاکٹر اقبال کی کوشش تھی کہ ارشد کو تنظیموں سے دور رکھیں مگر یہ دور تنظیموں کی ترویج کا دور تھا۔ افغانستان میں روس کی شکست کے بعد سے پیسہ، اسلحہ، جذبہ سب کی بہتات تھی۔ گلی گلی بینرز لگے تھے اور دکان دکان چندے کے ڈبے پڑے تھے۔ نعرے تھے کہ کشمیر کی آزادی اگلی منزل ہے، بس آیا ہی چاہتی ہے۔ امریکہ اپنا کام کر واکے جا چکا تھا، افغانستان میں خانہ جنگی تھی۔ جہاد کا نعرہ اور پیسے کا کھیل سب ساتھ چل رہا تھا۔ مذہبی جوش، غربت، پروپگینڈہ، سکول کالجوں اور مدرسوں میں پھیلی فرسٹیشن، درپردہ سر پرستی، سب عوامل تھے۔ ایسے میں ارشد لون جیسا سوچتا شخص کیسے الگ رہ پاتا مگر ڈاکٹر اقبال گہری نظر رکھے تھے، جیسے ہی ارشد کی ڈگری مکمل ہوئی، انہوں نے اُسے باہر کسی یونیورسٹی میں مزید تعلیم کی ترغیب دی ۔
ارشد لون کا داخلہ لنشوپنگ یونیورسٹی سویڈن میں ہوا۔ پڑھائی مقصد نہ تھا بلکہ مقصد اُسے تمام معاملات سے دور رکھنا تھا، مگر قسمت کا لکھا ہو کر رہتا ہے۔ وطن واپس آنے کے بعد اُسے اسلامک یونیورسٹی میں لیکچر شپ مل گئی۔ ایک دھیمے لہجے میں پڑھاتا استاد، جس کی زندگی کے تجربات اُس کی آواز میں کہیں دور چھلکتے تھے، نہ محسوس انداز میں، حضرت بل کی درگاہ پر سینہ کوبی کرتا ہجوم ، بارہ مولا کی کسی کھائی میں دبی ایک گمنام لاش، لنشوپنگ یونیورسٹی کے ہوسٹل میں اس کے ساتھ کےکمرے میں رہتی گھنگھرالےبالوں والی میڈیلینا جسے وہ برآمدے میں آتے جاتے ہیلو کہتا تھا اور جب وہ پڑھائی مکمل کرکے وطن واپس جا رہا تھا تو اُس نے بھری آنکھوں سے اُس اجنبی طالبعلم کو کہا تھا کہ واپس نہ جا، کون کہتا ہے کہ مغربی عورت محبت نہیں کرتی۔ جب وہ ڈیجیٹل الیکٹرونکس کے لیکچر کے لیے کھڑا ہوتا تو سرکٹ بورڈ پڑھاتے کیپسٹرز، رجسڑز کو آپس میں سولڈر ہوا دیکھتا اور سوچتا کہ یادیں بھی ان اجزاء کی طرح جڑی ہیں، باہمی چپکی ہوئیں، علیحدہ نہ ہوپائیں، چند یادیں منتخب کرکے ہم انہیں مٹا نہ پائیں۔ سرکٹ بورڈ جلے گا تو ہی اجزاء علیحدہ ہونگے، جلے ہوئے، سیاہ رنگ، مستقل نشان چھوڑتے۔
حالات بدل چکے تھے۔ جہاد کا نعرہ مٹا کر “سب سے پہلے ہم” کا نعرہ لکھنے کی کوشش کی گئی تھی مگر مسلہ یہ تھا کہ پہلے لکھے گئے نعرے کی روشنائی اتنی گہری تھی کہ کوئی بھی ربڑ اسے مٹا نہ سکتا تھا۔ اس روشنائی میں متعدد اجزاء تھے؛ کئی سالوں کی سر پرستی، مذہبی جذباتیت، روح تک اترتے نعرے، حق و ناحق خون کی قربانی، پیسے کی سرمایہ کاری۔ تیزاب لایا گیا، الفاظ جل گئے مگر مٹ نہ پائے۔ اب کل کے دوست آج کے دشمن تھے۔ داڑھی اورعمامہ دشمن ٹھہرا، پگڑی اور شلوار دشمن تھی، ٹوپی اور پرنا دشمن تھا، حلق سے آواز نکال کر کلام کرتا دشمن تھا، آنکھیں بند کرکے لحن سے پڑھتا دشمن تھا، دنیا پور کے چک تیرہ کا خیرات پر چلتا مدرسہ دشمن تھا، مظفر آباد کا خود بنایا ٹریننگ کیمپ دشمن تھا۔ کل کے دوست آج کے دشمن تھے۔
وہ فصل جس کی دہائیوں تک آبیاری کی تھی، اُس کے پھل کی تاثیر بدلنے کا حکم ہوا، یک دم، اک جنبشِ قلم کے ذریعے سے جو اب تک سیاہ تھا وہ سفید قرار پایا اور اب تک جو دن تھا وہ رات قرار پائی۔ یہ نری خام خیالی ظاہر ہوئی۔ تناور درختوں کی جڑیں گہری تھیں اور زیرِ زمیں دوسری جڑوں سے ملی تھیں۔ ایک گنجلق تھا اور کند ذہنوں کی سمجھ کی استعداد سے کہیں آگے کا معاملہ تھا۔ وہ حشر بپا ہوا کہ کسی کو بھی جائے اماں نہ ملی۔ خون ارزاں تھا، بلا تفریق؛ بلا تفریقِ جنس، بلا تخصیص مرد و عورت، بلا تفریق عمر، بلا تفریق شیر خوار و ضعیف، بلا تفریق گناہگار و نیک، بلا تفریق مزدور وسرکار، بلا تفریق سپاہی و افسر، بس خون ارزاں تھا۔
خون تو سستا ہوا سچ بھی سستا ہوگیا، سانس لیتا آدم بھی سستا ہوا۔ جس پر شک ہوا، وہ اٹھایا گیا، بیچا گیا، گم شدہ، لاپتہ ایک طرف، لکھ پتی، ارب پتی بنتے دوسری طرف تھے۔ گندم کے ساتھ گھن بھی پسنے لگا۔ وہ جنہیں خود پالا تھا، بالمقابل تھے۔ دوست دوست نہ رہا، بدگمانی اور بے یقینی چہار سو تھی، خوف تھا کہ ذہنوں میں در آیا تھا۔ جس پر بھی شک نے سر اٹھایا، خوف نے کہا کہ اٹھالے۔ وہ جو ایک اکٹھی کمین گاہ تھی اب کمینگی کی گاہ تھی۔ خوف نے تفریق ایسی مٹائی کہ گناہگار اور بے گناہ ایک ہی قطار میں تھے۔ بھائی بھائی کو ڈھونڈتے تھے، بیویاں جانتی نہ تھیں کہ سہاگن ہیں کہ بیوائیں، مائیں نم ناک تھیں اور مسلسل حالتِ دعا میں تھیں۔ منصف آنکھیں چُراتے تھے۔ ایسا حبس کا عالم تھا کہ چرند پرند تو اک جانب انسان بھی امان مانگتا تھا، سانس لینے کا امان مانگتا تھا،غرض کہ خوف کا عذاب تھا۔
ارشد لون کو کئی دنوں سے محسوس ہورہا تھا کہ کچھ افراد اسکا پیچھا کررہے ہیں، کوئی گاڑی اسکے تعاقب میں رہتی ہے۔ ایک رات اسکی ماں نے صحن میں چند لوگوں کو چلتا محسوس کیا۔ ارشد کو کتابوں کی الماری میں کتابیں اپنی ترتیب سے نکلی نظر آئیں۔ کدھر جاتا، وہ اپنے بھائی کے پرانے ساتھیوں کو جانتا تھا اور ان سے تعلق رکھے تھا۔ اس کا باپ ڈاکٹر اقبال اپنے ایک بیٹے کے بعد دوسرے کو ان تمام حالات سے دور رکھنے کی کوشش میں تھا۔ مگر وقت بھی بوم رِنگ کی طرح ہوتا ہے، وہ لکڑی کا ٹیڑھا ٹکڑا جو دور پھینکو تو ہوا میں گھوم کر واپس آتا ہے، جتنی قوت سے پھینکو، اتنی تیزی سے واپس آتا ہے۔ ماضی حال سے ایسا جڑا ہوتا ہے کہ مستقبل پر بھی پرچھائیاں ڈال جاتا ہے۔
ارشد کو دو تین گمنام فون آئے، ہم آپ کے نظریات سے متفق ہیں، آئیے ملتے ہیں۔ میں آپ کا بھائی کا دوست ہوں، اس جدوجہد کا حصہ رہا ہوں، آئیے ملتے ہیں۔ وہ ان سے ملنے نہ گیا۔ ارشد کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اُس شام وہ یونیورسٹی سے گھر جانے کے لیے نکلا تو اُٹھا لیا گیا۔ گاڑی کھول کر اس میں بیٹھا ہی تھا کہ تین لوگ تیزی سے دروازے کھول کر اندر بیٹھ گئے۔ ایک نے پستول کی جھلک دکھائی اور ساتھ ہی اسکا نام لے کر کہا کہ ہم دوست ہیں، گاڑی چلاو۔ دوست، دوستوں کی تعریف پچھلے چند سالوں میں ایسی بدلی تھی کہ اُسے ایک خوف محسوس ہوا۔
چند کلومیٹر کے بعد گاڑی بدل گئی اور ارشد کی آنکھوں پر پٹی بند گئی۔ راہیں بدلتی محسوس ہوتی تھیں اور ارشد کے ذہن میں خیالات بھی گڈمڈ آرہے تھے۔ گاڑی رکی تو اس کی گھڑی، بٹوہ اور دوسر ی اشیاء لے لی گئیں۔ پٹی اتاری گئی تو وہ ایک کمرے میں تھا۔ عام کمروں سے الگ کمرہ، ایک چوکور کمرہ، خالی، بالکل خالی، کسی کھڑکی کے بغیر، کسی روشندان کے بغیر، کسی پنکھےکے بغیر، کسی بڑی قبر کی مانند وہ کمرہ تھا۔ چاروں دیواریں اور چھت ایک سی سفید رنگ تھیں۔ کمرے کے چاروں جانب سے روشنی کا انتظام ایسے کیا گیا تھا کہ وقت تھم سا گیا تھا، روشنی کی ایک مقدار رہتی تھی۔ دن رات کے گذرے پہروں سے قطع نظر روشنی ایک سی رہتی تھی۔ وہ کمرے کے ایک کونے میں زمین پر بیٹھ گیا ۔اس کے ذہن میں پریشانی، خوف، ہنسی، غیر یقینی سب کچھ اکٹھا تھا۔
ارشد جلد ہی وقت کے احساس سے نکل چکا تھا۔ کب رات ہوئی، وہ کتنا سویا تھا، کیا تاریخ تھی، اسے کچھ علم نہ تھا۔ مسلسل جلتی روشنی، خالی کمرہ اور سخت زمین کا کونہ وقت کو روکے کھڑے تھے۔ پھر اسے کمرے سے نکال کر ایک اور کمرے میں لے جایا گیا ۔ کمرہ جس میں دیواروں پر اذیت دینے کے آلات لٹکے تھے؛ بڑے بڑے چھتر، ہتھکڑیاں، مختلف بھیانک شکلوں کے اوزار دیواروں پر آویزاں تھے۔ کمرے کا دورہ کروانے کے بعد اُسے واپس پچھلے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ وہ بیوقوف نہ تھا، وہ اس دورے کا مطلب سمجھتا تھا۔
وقت کا حساب نہیں مگر گمان ہے کہ اگلے دن دو کرسیاں کمرے میں لگائی گئیں اور ارشد ایک شخص کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ شخص جس نے اپنا تعارف نام کے ساتھ ایک عہدہ جوڑ کر کرایا تھا۔ ارشد نے سوچا کہ ان افراد کی بدلتی دنیا بدلتے ناموں کے ساتھ ہے۔ جاوید نے سالہا سال قبل فخریہ انداز میں اُسے ایسے کئی عہدیداروں کےٹریننگ کیمپ میں وزٹ کا بتایا تھا۔ اُس نے سوچا، کیا یہ سامنے بیٹھا شخص بھی جاوید کو جانتا ہوگا۔ جاوید لون شہید، پیدائش سرینگر، مدفن نامعلوم، علاقہ بارہ مولا، مقبوضہ کشمیر۔ غائبانہ نمازِ جنازہ میں ہر ایک یہی بتاتا تھا کہ شہید زندہ ہیں۔ ارشد نے سوچا کیا بھائی بھی اس کمرے میں کہیں موجود ہوگا۔ اُس بے نام کمرے کے ساقت وقت میں ارشد کے ذہن میں تمام یادیں گڈمڈ ہورہی تھیں۔
“آئیے مل کر پڑھتے ہیں درودِ پاک، اللھم صلی اللہ”، اُس کے سامنے بیٹھے شخص نے کہا۔ وہ ہنس پڑا، یہ سوچتا کہ سامنے بیٹھا مجھے کتنا بڑا بیوقوف سمجھتا ہے۔ وہ ہنس پڑا یہ خیال کیے بغیر کہ وہ کس صورتحال میں ہے۔ یہ ایک چھپی مسکراہٹ تھی، اُس کی کوشش تھی کہ یہ مسکراہٹ سامنے والے کو نظر نہ آئے، مگر صورتحال اتنی عجیب تھی کہ وہ مسکراہٹ چھپا نہ سکا۔ یہ مسکراہٹ اکیلی نہ ابھری تھی، بلکہ اُس کے دل میں اس سامنے بیٹھےشخص کے لیے گالی بھی ابھر کر آئی تھی، بے ساختہ، منہ بھر آتی، بے غیرت، کنجر، دلا بلکہ اس سے بھی آگے کی گالی بلکہ گالیاں، شدید نفرت کے ساتھ بھری گالیاں، جو اُس کا دل چاہتا تھا کہ سامنے والے کے منہ پر دے مارے، متواتر، سٹین گن کے برسٹ کی مانند، مگر وہ چپ رہا۔
اس نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئےشخص کے چہرے پر کچھ عجیب سے تاثرات محسوس کیے۔ سامنے والا مختلف سوالات پوچھنے لگا۔ سوالات جن کا تعلق اُس سے تھا، اس کے خاندان سے، سری نگر سے ایبٹ آباد تک، کیڈٹ کالج سے لنشوپنگ یونیورسٹی تک مختلف سوالات پوچھے گئے۔ وہ جان گیا تھا کہ تمام معلومات اکٹھی کی گئی تھیں۔ مقصد یہ احساس دینا بھی تھا کہ ہم سب جانتے ہیں۔ ارشد سوچ رہا تھا کہ وہ یہاں کیوں ہے، کیوں؟
کیا تم الیکٹرونکس کاونٹر بنانا جانتے ہو؟ جی، بنیادی ڈیجیٹل الیکٹرونکس کے کورس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ کیا ڈیٹونیٹر میں یہ استعمال ہوسکتے ہیں؟ جی ہوسکتے ہیں۔ تم ڈیٹونیٹر بناتے ہو، نہیں۔ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ ارشد لون کوپتہ چل گیا کہ وہ وہاں کیوں ہے۔ چند دن قبل ایک پل اڑایا گیا تھا، اور وہ ایک مشتبہ شخص تھا۔ ایک مشتبہ ماضی اس کے ساتھ تھا۔ گیا وقت جو کبھی قابل تعریف تھا مگر اب دور ایسا آیا کہ ماضی بھی تبدیل ہو کر سیاہ رنگ ہوگیا تھا۔ یہی تبدیل شدہ ماضی اُسے اس کمرے تک لایا تھا۔
سالہا سال گذر گئے۔ ڈاکٹر اقبال ایک در سے دوسرے در تک بھاگ بھاگ کر تھک چکے ہیں، بس ایک امید انہیں بھگائے پھرتی ہے کہ شاید ارشد لون واپس آجائے۔ سات سمندر پار ایک گھنگریالے بالوں والی عورت بھی کبھی کبھی سوچتی ہے، ایک عجیب لڑکا تھا عورت کے جسم کے پیچھے بھاگتے ہجوم سے فرق، جانے وہ کس حال میں ہوگا۔
اور ایک ماں، جس کے سامنےدو بورڈ سرخ روشنائی میں لکھے ہیں۔
جاوید لون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیدائش سرینگر، مدفن نامعلوم، علاقہ بارہ مولا، مقبوضہ کشمیر۔
انجینیر ارشد لون۔۔۔۔۔۔۔ پیدائش سرینگر، حال مقیم : محلہ نامعلوم، شہر نامعلوم، سانس نامعلوم-
ختم شد۔

Facebook Comments