طلبہ تنظیموں کا مستقبل۔۔مائرہ علی

پچھلے دنوں فیض میلے کے موقع پر بائیں بازو کی ایک تحریک کے کچھ نوجوانوں کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں ایک خاص انداز میں طلبہ کے حقوق کےلیے نعرے لگائے گئے اور انقلاب کی آمد کی نوید سنائی گئی۔۔ اس کے ایک ہفتے بعد ملکی سطح پر ترقی پسندوں نے شہر شہر احتجاج کیا اور طلبہ کے حقوق کی بات کی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی طلبہ تنظیموں اور طلبہ سیاست پر ایک بھرپور بحث کا آغاز ہوا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ وزیرِ اعظم پاکستان کو بھی اس موضوع پر ٹویٹ کرنا پڑا۔۔ سندھ میں یونینز کی بحالی کا بل بھی منظور کرلیا گیا جس میں ایون کی اکثریت نے سیاست میں طلبہ کی شمولیت کے حق میں بات کی۔۔ ابھی گزشتہ دن (بدمِ تحریر) اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں جمیعت کے ایک جلسے پر سرائیکی لسانیت پرست طلبہ تنظیم کے لوگوں نے حملہ کیا اور فائرنگ ہوئی جس میں جمیعت کے کئی لوگ زخمی ہوئے اور ایک طالبعلم شہید بھی ہوا جس کے بعد یہ معاملہ سنگینی اختیار کرتا دکھائی دیتا ہے اور ضروری ہوگیا ہے کہ طلبہ تنظیموں کے مستقبل کا فیصلہ کردیا جائے۔۔۔

دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں طلبہ یونینز اپنا بھرپور وجود رکھتی ہیں اور جامعات کے ڈھانچے میں ان کی کلیدی حیثیت ہوتی ہے۔۔ تمام اہم فیصلے طلبہ نمائندوں کی مشاورت سے کیے جاتے ہیں اور طلبہ کو تمام اہم معاملات میں سٹیک ہولڈر بنایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔۔۔ 1984 میں طلبہ تنظیموں پر پابندی سے لے کر آج تک کبھی طلبہ کو ان کا حق نہیں دیا گیا اور جمیعت کی شکل میں ایک ایسی طلبہ تنظیم ہماری جامعات میں موجود ہے جس کا کام اب سوائے طلبہ کو ہراساں کرنے اور لسانیت پرستی پھیلانے کے اور کچھ نہیں ہے۔۔ آئے دن کسی نہ کسی جامعہ میں طلبہ کے درمیان لڑائیوں کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جو افسوسناک ہے۔۔۔ جمیعت جیسی تنظیموں کی وجہ سے عام عوام میں بھی طلبہ سیاست کو درست نہیں سمجھا جارہا اور ہر شریف النفس انسان اپنے بچوں کو اس سے دور رکھتا ہے۔۔ اس کی واحد وجہ طلبہ تنظیموں کا کوئی واضح ڈھانچہ نہ ہونا ہے۔۔ طلبہ کو مثبت انداز میں اپنا کردار ادا کرنے سے روکا جائے گا تو ان کی توانائیاں منفی سرگرمیوں میں استعمال ہوں گی جس کے اثرات آج ہمیں نظر آرہے ہیں۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا طلبہ تنظیمیں ہونی چاہیے یا طلبہ کو سیاست کا حق ملنا چاہیے تو اس کا جواب میرے نزدیک ہاں کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔۔ مگر اس کےلیے بہت محنت کے بعد ایک ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت طلبہ تنظیمیں اپنے جائز حقوق اور فلاح و بہبود کی سیاست کریں اور یونین کا پلیٹ فارم علمی و ادبی مباحث کےلیے استعمال ہو اور اس طرح ہمیں ایسے لیڈر مل سکیں جو قومی سیاست میں آکر صحیح معنوں میں عوام کےلیے کام کریں۔۔ آکسفورڈ یونین کی مثال پوری دنیا کے سامنے ہے جس کے مباحث پوری دنیا میں مشہور ہیں اور جس سے ہر طالبعلم کندن بن کر نکلتا ہے۔۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے میں قانون سازی کریں اور آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے طلبہ یونینز کو بحال کریں اور ان میں ایسا نظام وضع کریں جس میں علم اور ادب کو فروغ ملے اور مثبت سیاست ہو۔۔ ہمیں دونوں انتہاؤں سے بچ کر ایک درمیانی راستہ نکالنا ہے جو ہم سب کےلیے قابلِ قبول ہو۔۔ اور ان تمام تنظیموں کی حوصلہ شکنی اور بیخ کنی کرنا ہمارا فرض ہے جو لسانیت پرستی کو ہوا دیتی ہیں یا جو مذہب جیسے حساس معاملے کی آڑ میں اپنی سیاست چمکاتی ہیں۔۔ ان تمام ماڈلز کی تنسیخ کرکے ہمیں طلبہ یونین کو ایک نئے, مثبت اور تعمیری انداز میں سامنے لانا ہے تاکہ نہ صرف یہ کہ جامعات میں ہونے والی گھٹیا سیاست کا خاتمہ ہوسکے بلکہ طلبہ کو صحیح معنوں میں سیاست کرنے کا حق مل سکے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply