طلبا سیاست پر پابندی کے نقصانات۔۔۔۔جلیل بلوچ

گزشتہ دنوں حکومت بلوچستان کی جانب سے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں صوبہ بھر میں تمام تعلیمی اداروں میں طلبا سیاست پر پابندی عائد کرنے کےاحکامات جاری کیے گئے۔ یہ نوٹیفکیشن اس لحاظ سے بھی حیران کن نہیں ہے کہ پاکستان میں پہلے بھی کئی حکومتوں نے طلبا سیاست پر پابندی عائد کی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں بھی اس طرح کے احکامات پہلے بھی جاری کیے گئے۔ اس بار اب نام نہاد جمہوری حکومت نے ‏تعلیمی اداروں میں طلبا تنظیموں پر پابندی عائد کر کے جمہوری رویوں اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔

واضح رہے کہ طلبا تنظیمیں اور ادارے کسی بھی قوم کی نرسری ہوتے ہیں، ‏جہاں مستقبل کے معماروں کی تربیت کی جاتی ہے۔ ‏سیاسی تنظیمیں انہیں شعور و آگہی سے لیس کر کے انہیں بہترین سماجی انسان بناتی ہیں۔ ‏قوم کو شعوری طور پر بانجھ کرنے کے لیے سیاست کو ممنوع قرار دیا جاتا ہے۔ اگر اسی طرح حکومت بلوچستان کی جانب سے اس پر پابندی نہیں اٹھائی گئی تو ملکی سیاست پر اس کے برےاثرات مرتب ہوں گے اور صوبائی اسمبلی و قومی اسمبلی میں گلابی اردو بولنے والے ہی موجود ہوں گے۔ پرچی دیکھ کر تقرر کرنے والوں کی پہلے بھی کمی نہیں۔ سوائے چند ایک ممبران کے، باقی اسمبلی میں موجود ارکان کی سیاسی ناپختگی اور شعوری کی کمی واضح ہے۔

اس لیے ‏⁦‪حکومت بلوچستان سے درخواست ہے کہ فوری طور پر اس آمرانہ حکم کو واپس لے تاکہ طلبا کو تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کیریئر کونسلنگ کے مواقع میسر ہوں اور وہ بحث مباحثہ کر سکیں تاکہ ملکی سیاست میں لیڈرشپ کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔ ورنہ آئندہ پاکستان ایسی نہج پر پہنچنے والا ہے جہاں اسے لیڈ کرنے والے نہیں ملیں گے۔ نتیجتا چھوٹے موٹے گروہی لوگ مذہب، قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر ملک کے وقار کو تار تار کر کے دیکھیں گے۔ کیوں کہ طلبا تنظیموں کی ابتدائی پیداکردہ سیاست اب بوڑھی ہو چکی ہے یا وہ اس دنیا سے جا چکے ہیں جہنوں نے پاکستانی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔

اگر یہ پابندی ہٹائی نہ گئی تو بلوچستان کی موجودہ سیاست میں حصہ لینے والے سیاست دان جو انتہائی معتبرحوالہ بن چکے ہیں، جہنوں نے بی ایس او سے سیاست شروع کی، ان کے بعد بلوچستان میں بھی لیڈرشپ کی کمی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے، یہ کمی مزید گہری ہو جائے گی۔ جس سے معاشرے میں منشیات فروش اور مذہبی انتہاپسندوں کے لیے طاقت کے دروازے کھلے ہوئے ہیں جو طلبا تنظیموں کے ہونے کی وجہ سے اس خلا کو بھر رہے ہیں جو طلبا سیاست پر پابندی کے بعد ہنوز جاری ہے (یہاں ضیاالحق کی طلبا یونین پر پابندی کی بات کی جا رہی ہے)، اب اس پابندی کے بعد نہ جانے کیا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاید بلوچستان کا مستقبل اب منشیات فروشوں، لینڈ مافیا اور جاگیرداروں کے ہاتھوں میں ہوگا جو ڈگڈگی بجانے والوں کے آگے سربسجود ہونے کوشرف سمجھیں گے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply