• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • “صوبہ جنوبی پنجاب” تاریخی / جغرافیائی لحاظ سے غلط صوبائی تشکیل/نام/ اصطلاح اور سابقہ ریاست بھاول پور ۔ راؤ عتیق الرحمٰن

“صوبہ جنوبی پنجاب” تاریخی / جغرافیائی لحاظ سے غلط صوبائی تشکیل/نام/ اصطلاح اور سابقہ ریاست بھاول پور ۔ راؤ عتیق الرحمٰن

پاکستان میں عام الیکشن کے موقع پر حکومت سازی کے لئے سابقہ ریاست موجودہ ڈویژن بھاولپور اور ملتان ڈویژن میں پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور اب تحریک انصاف صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کا شوشہ چھوڑتے ہیں اور ووٹ لیکر ان ڈویژنز سے اسمبلیوں کی نشستیں جیت کر اگلے الیکشن تک پوائنٹس سکورنگ کرتے ہیں جبکہ یہاں کی سیاسی اشرافیہ کو نمائشی آ ئینی عہدے دیکر رام کرلیا جاتا ہے جو کہ نوازنے پر لاہوری اشرافیہ کے گُن گاتے ہیں اور یوں یہ کھیل اگلے الیکشن تک چلتا ہے ۔گزشتہ دورِ حکومت میں “صوبہ جنوبی پنجاب” کی ڈرامائی تشکیل کرتے ہوئے صوبے کے لئے دو دارلخلافے ملتان اور بھاولپور ڈویژنل ہیڈ کواٹرز میں صوبائی چیف سیکرٹری سمیت کچھ دفاتر قائم کئے ۔جوکہ عملی لحاظ سے ز یروہیں کیونکہ طاقت اور وسائل کا منبع آ ج بھی لاہور ہے ۔اس مضمون میں بھاولپور اور ملتان معہ ڈیرہ غازی خاں کے لئے تجویز کردہ نام “صوبہ جنوبی پنجاب” اورڈویژن بھاول پور کی تاریخی ،جغرافیائی  اور سیاسی حالات کا صوبہ پنجاب سے موازنہ کرتے ہیں۔

مجوزہ تجویز کردہ” صوبہ جنوبی پنجاب” نام اور اصطلاح ہر لحاظ سے غلط اور غیر مناسب ہے۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور نالائق سیاسی اشرافیہ انتظامی لحاظ سے صوبے بنانے کی اہلیت نہیں رکھتی ہے اور بیرونی  قوتوں کےزیر اثر پاکستان کے صوبائی مسائل کا درست سمت میں تعین نہیں کرتی ہے پاکستان میں دیگر نئے انتظامی صوبوں کی انتہائی ضرورت ہے۔ بالخصوص ملتان کو علیحدہ صوبہ بنانا جبکہ بھاولپور کو علیحدہ صوبہ بحال کرنا وقت کی ضروت ہے

“صوبہ جنوبی پنجاب” یہ نام ایسے ہی ہے جیسے انگریز سرکار نے آ ج کے صوبہ خیبرپختونخوا کو “شمالی مغربی سرحدی صوبہ”(NWFP) کا نام دیا اور پھر پاکستان کی” جملہ اشرافیہ” کو صوبے کا نام خیبرپختونخوا رکھنے میں 70 سال لگے ۔ برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو مغلیہ دور سے پہلے بھی ملتان پنجاب سے علیحدہ صوبے کی حیثیت رکھتا تھا۔جبکہ ملتان تاریخی اعتبار سے لاہور سے زیادہ قدیم شہر ہے ۔ فارسی کا ایک محاورہ ہے کہ” لاہور یکے از مضافات ملتان” انگریز سرکار نے رنجیت سنگھ کے زیر قبضہ ملتان کو صوبہ پنجاب میں شامل رکھا ۔(رنجیت سنگھ کی سپاہ کے ہاتھوں گرفتار ملتانی قیدیوں کو جب بیڑیاں ڈال کر لاہور بھجوایا گیا تھا تو ایک قید ی کے منہ سے نکلا ہوا جملہ ضرب المثل بن گیا “اساں قیدی تخت لاہور دے” اس جملے پر نظمیں بھی لکھی گئیں،بہرحال ملتان کی تفصیل کسی اور وقت) ہمیں بھاولپور بارے بتانا ہے کہ بہاول پور کا خطہ جغرافیائی لحاظ سے کبھی صوبہ پنجاب کا حصہ نہیں رہا ہے پھر اسے” صوبہ جنوبی پنجاب” کا نام کیوں اور کون لوگ تجویز کر رہے ہیں ۔ ؟کیا لاہور کے جنوب میں واقع ہونے کی وجہ سے یہ جنوبی پنجاب بن جائیگا ۔؟ اگر یہی معیار ہے تو انتظامی لحاظ سے راول پنڈی کو صوبہ بنائیں اور لاہور کے شمال میں ہونے کی وجہ سے “صوبہ شمالی پنجاب” قرار دیں ۔دیکھتے ہیں کہ خطہ پوٹھوہار والے کیسے اس نام کو مانتے ہیں ۔

پاکستان میں اصل پنجاب وسطی پنجاب اور لاہور سے ملحقہ ڈویژن ہیں۔ ریاست بھاولپور کے باقاعدہ قیام1747 سے پہلے یہ خطہ جغرافیائی طور پر راجھستان ( راجپوتانہ) کا حصہ تھا نہ کہ پنجاب کا۔ریاست بھاولپور کا شمار راجپوتانہ گروپ آ ف سٹیٹس میں ہوتا تھا۔عباسی حکمرانوں کی قائم کردہ ریاست بھاولپور کا علاقہ جودھپور، جیسلمیر اوربیکا نیرکی ریاستوں کی ملکیت تھا۔ دِلی حکومت کے نیم زیرِ انتظام دریائے ستلج کے کنارے کچھ مخصوص آ بادیاں تھیں ۔جبکہ تمام علاقہ جو کہ زیادہ تر صحرا پر مشتمل تھا مختلف ادوار میں راجھستان، سندھ، دیبل جونا گڑھ اور ملتان کے زیر انتظام رہااور یہ قدیم ہند تہذیب نہیں، سندھ تہذیب کا حصہ تھا، بقول کرنل سیسی منچن “بھاولپور کی اپنی الگ تھلگ پوزیشن تھی “۔

قیام پاکستان سے قبل جغرافیائی محل وقوع خطہ بھاولپور متحدہ پنجاب کے شمال مغرب میں واقع ہے جبکہ ریاست کی نظامت منچن آباد کے شمال مشرق میں ہندستان کا ضلع فیروز پور ہے جبکہ جنوب میں بیکانیر ، جیسلمیر اور صوبہ سندھ ہے ۔دریائے ستلج اس ریاست کی طبعی سرحد اور پنجاب کے سابقہ ضلع منٹگمری اب ساہیوال جبکہ موجودہ اضلاع اوکاڑہ اور پاکپتن سے جدا کرتا ہے ۔جبکہ ستلج اور چناب کا مشترکہ بہاؤ اسے ضلع مظفرگڑھ اور دریائے سندھ اسے ڈیرہ غازی خان اور جیکب آباد سے جدا کرتا ہے ۔ یہ پنجاب اور ریاست بھاولپور کی حقیقی جغرافیائی پوزیشن ہے ۔

حیرت کی بات ہے کہ “صوبہ جنوبی پنجاب ” کا نام کہاں سے آ گیا 1955 میں ون یونٹ کے نام پر ڈاکہ مارنے والوں کو بھاولپور کی علحیدہ حیثیت اور عوام کو حقوق دینا پسند نہ تھے۔ سابقہ ریاست اورموجودہ ڈویژن بھاولپور 45588 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل ہے یہ شرقاً غرباً 480کلو میٹر طویل جبکہ شمالاً جنوباً 80کلومیٹرتا 175کلومیٹر چوڑائی پر محیط رحیم یار خان، بھاول پور اور بھاول نگر کے اضلاع پر مشتمل ہے۔ نقشے میں ملاحظہ کریں تو یہ پنجاب ، سندھ اور راجھستان کے درمیان مشکیزہ کی سی مماثلت رکھتی ہے ۔قیام پاکستان سے قبل 1946میں جواہر لال نہرو نے لندن اور انکی بہن وجے لکشمی نے بھاولپور میں نواب محمد صادق خان عباسی امیر آ ف بھاولپور سے ملاقاتیں کر کے  ریاست کو ہندوستان میں شامل کرنے کے لئے بے پناہ مراعات کی پیشکش کیں جو نواب صاحب نے ٹھکرا دیں ۔اگر خدانخواستہ ریاست جونا گڑھ اور حیدرآباد دکن جیسے حالات کے تابع ریاست بھاولپور ہندوستان میں شامل ہو جاتی تو پاکستان کی سرحدیں دریائے ستلج کا شمالی کنارہ ہوتیں ۔

ریاست بھاولپور نے 7اکتوبر 1947کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا، با ضابطہ طور پر 15اکتوبر 1948 کو ریاست کی جانب سے امیر آ ف بھاولپور محمد صادق خان عباسی خامس جبکہ پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے الحاق کی توثیق کی۔ حکومت پاکستان اور ریاست بھاولپور کے درمیان مختلف معاہدوں کے تحت حکومت پاکستان نے اختیارات حاصل کئے اور یوں ریاست سے صوبے کا مرحلہ طے ہوا ۔

1951 کے ایک ضمنی معاہدے کے تحت مرکزی امور حکومت پاکستان جبکہ صوبائی امور کا اختیار بھاول پور کو ملا ۔1955تک ریاست کی اپنی صوبائی حیثیت اور صوبائی اسمبلی تھی اور مخدوم زادہ حسن محمود وزیر اعلیٰ تھے۔ جبکہ تمام صوبائی دفا تر چیف سیکرٹری کے ماتحت کام کرتے تھے۔ سالانہ بجٹ صوبہ سرحد کے مساوی تھا 1954میں پاکستان کے چند سابقہ کرتا دھرتا غلام محمد، سکندر مرزا ،چوہدری محمد علی، ایوب خان اور ممتاز دولتانہ وغیرہ نے قرارداد پاکستان اور کنفیڈریشن کے تحت صوبائی خودمختاری دینے کی بجائے مرکزی آئینی اور مالی اختیارات کا ارتقاز اپنے پاس رکھ کرمرکز کو مضبوط کرنے کی آ ڑ  میں Power of game اپنے کنٹرول میں لانے کے لئے 2نومبر 1954کو ون یونٹ سکیم کا اعلان کیا۔

30 ستمبر 1955کو قومی اسمبلی سے بل پاس کروایا گیا اور یوں 14اکتوبر 1955کو لاگو کردیا گیا ۔ون یونٹ سکیم کے تحت موجودہ پاکستان کے تمام صوبوں اور ریاستوں پر مشتمل ایک اکائی مغربی پاکستان کا قیام عمل میں آیا جبکہ دوسری اکائی مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش قرار پائی ۔

یہ سکیم مشرقی پاکستان کو کاؤنٹر کرنے کے لئے1955میں عمل میں لائی گئی تھی۔ یکم جولائی 1970کو ون یونٹ سکیم کی تنسیخ کر دی گئی ۔

1970 کے عام انتخاب میں عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمٰن نے صوبہ بھاول پور کی بحالی کا وعدہ کیا ۔ بھاو ل پور میں 1970 کا انتخاب صوبے کی بحالی کی بنیاد پر لڑا گیا، پیپلز پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل متحدہ محاذ نے قومی اسمبلی کی 8میں سے 6 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 18 میں سے 16 نشستیں حاصل کیں۔ انتخاب جیتنے کے بعد متحدہ محاذ کے منتخب اراکین نے ڈھاکہ میں اکثریتی پارٹی کے لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن سے ملاقات کی تو اس نے وعدہ کیا کہ میں وزیراعظم بن کر بھاولپور کا علیحدہ صوبہ بحال کرونگا ۔ اسوقت کی مخلوط اسٹیبلشمنٹ نے بھاولپور صوبہ کی بحالی تو درکنار اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو حکومت نہ دیکر مشرقی پاکستان کو علحیدہ ملک بنگلہ دیش بنوا دیا۔

ریاست بھاول پورسے کئے گئے معاہدے کے برعکس اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی اشرافیہ نے ریاست بھاول پورکو بطور صوبہ بحال کرنے کی بجائے پنجاب میں ایک ڈویژن کے طور پر ضم کر دیا گیا ۔ بھاولپور کے سیاسی عمائدین کو اس وقت کے مخصوص حالات کے پیش نظر اس بات کا خدشہ تھا، لہذا اپریل 1970 میں بھاولپور میں “بھاولپور متحدہ محاذ” نے صوبائی بحالی کی تحریک شروع کی، 24 اپریل 1970کو اس تحریک کو طاقت سے ختم کرنے کے لئے قیدو بند کے علاوہ فائرنگ کی گئی، جس میں کئی افراد شہید ہوئے ۔ بھاولپور میں آ ج بھی تحریک بحالی صوبہ بھاولپور جاری ہے ۔

بھاولپور کو بطور صوبہ بحال کیا جائے اور ملتان کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے جبکہ یہ” صوبہ جنوبی پنجاب” کا دو دارلحکومتوں والا مضحکہ خیز کھیل ختم کیا جائے۔نیز پاکستان میں انتظامی لحاظ سے جہاں بھی صوبوں کی ضروت ہے وہاں صوبے بنانا بے حد ضروری ہیں تاکہ اختیارات (centerlazatio ) کےعدم ارتقاز ( De -centerlazatio) سے مقامی میونسپلٹی، تعلیم ، صحت، اوردیگر تمام انفرا سٹرکچرز بہتر ہو سکیں ۔ یہ کام کوئی حقیقی جمہوری حکومت ہی سرانجام دے سکتی ہے جو اس وطن پاکستان سے مخلص ہو۔ فوجی ا دوار حکومت میں جرنیلوں نے اپنی حکومت کو جاری رکھنے کے لئے ہر غیر آ ئینی، عوام دشمن کام طاقت سے کئےلیکن پاکستان کے صوبوں میں انتظامی یونٹ نہ بنائےکیونکہ یہ ملک کے مفاد میں توتھے مگر انکے مفاد میں نہیں، پاکستان کی مخلوط اشرافیہ کا ٹریک ایسا ہے کہ انہوں نے مجیب الرحمٰن کے 6 نکات ماننے سے انکا ر کرکے ملک کو دو لخت تو کروادیا ،پھر اپنی ضرورت کےتحت 18 ویں ترمیم کے ذریعے اس سے کہیں زیادہ صوبائی اختیارات حاصل کر لئے ۔

پیپلز پارٹی انتظامی لحاظ سے کراچی کو اختیار نہیں دے گی اور یہی گردان جاری رہیگی ” مرسوں مرسوں کراچی نہ ڈیسوں ” ۔

اسی طرح مسلم لیگ ن حکمرانی کرنے کے لئے پنجاب میں نئے انتظامی صوبے نہ بنائیگی۔ پی ٹی آئی اپنے دوسرے دور حکومت میں ہزارہ صوبہ بارے کوئی پیشرفت نہ کر سکی  ۔ پاکستان میں صوبے نسلی ،لسانی ، مسلکی یا عصبیت کی بنیاد پر نہیں انتظامی بنیا د پر بنا نےاز حد ضروری ہیں۔ ہندوستان نے اپنے صوبہ پنجاب کے تین صوبے ہماچل پردیش، ہریانہ اور پنجاب بنا کر انتظامی طور پر سیاسی معاملات بھی درست کر لئے۔ ہمارے سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو نئے دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور ان سے عہدہ برآں ہونے کے لئے حکمت ، حوصلہ اور قوت ارادی کی ضروت ہے ملک اور جمہورکی آسانی اور بہتر ی اس میں ہے کہ تعصب اور اپنے مفاد سے بالاتر ہو کر پاکستان میں انتظامی لحاظ سے نئے صوبے بنائیں جبکہ ملتان اور بھاولپورالگ صوبہ بننے کے معیار پر ہر لحاظ سے پورا اترتے ہیں لہذا مزید کسی تاخیر کے ملتان کو علیحدہ صوبہ بنایا جائے جبکہ بھاولپور کا (status) بطور صوبہ بحال کیا جائے-

Advertisements
julia rana solicitors london

راؤ عتیق الرحمن بہاولنگر کی تاریخ پر تحقیقی کتاب کے مصنف ہیں

Facebook Comments

راؤ عتیق الرحمٰن
مصنف راؤ عتیق الرحمن نے گریجویشن گورنمنٹ ڈگری کالج بہاولنگر سے کی ۔ 1984میں کالج سٹوڈنٹ یونین کے جنرل سیکرٹری رہے۔ لکھنے کا شوق سکول ہی سے تھا ۔کالج کے میگزین "لالہ صحرا "میں مضامین لکھے ۔ 2016 میں بھاولنگر شہر سے متعلق کتاب "تاریخ شہر بہاول نگر"لکھی ۔۔تاریخ اور سماجیات پر لکھتے ہیں اور سماج پر لکھتے ہوئے تاریخ کو ساتھ لیکر چلتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply