• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • “شہداء بابڑہ چارسدہ”- ایک جھوٹی تاریخ، تاریخ کے آئینے میں/عارف خٹک

“شہداء بابڑہ چارسدہ”- ایک جھوٹی تاریخ، تاریخ کے آئینے میں/عارف خٹک

تاریخ سازی ، جھوٹی تاریخ گھڑنا یا اس تاریخ پر اصرار کرنا ,انسانی احساسات و جذبات کا وہ مشکل ترین عمل ہے جو کسی کسی کا خاصہ ہے۔ جھوٹی تاریخ کے دو بڑے مقاصد ہوتے ہیں یا تو آنیوالے لوگوں کی اجتماعی سوچ کو اس طرح کھرچ دیا جائے کہ سچائی کا نام و نشان باقی نہ رہے یا جزوقتی غلطیوں کو سدھارنے کے بجائے ڈھٹائی  سے آنیوالی نسلوں کیلئے خود کو ہیرو ثابت کروا لیا جائے کہ بزرگوں کی اصل تاریخ یہی ہے۔

بدقسمتی سے ہماری اپنی اسلامی تاریخ اس حوالے سے نہایت مشکوک ہے کجا ہم مغرب پر انگلیاں اٹھائیں یا یہودیوں کے ہولوکاسٹ پر شکوک کا اظہار کریں۔ پشتون تاریخ میں یہ افسانہ نگاری اس سے بھی زیادہ ہے” نیشنلسٹوں نے تو اپنے ہی تخیلات سے ایک پوری کائنات آباد کی ہے جسے پشتون تاریخ کا نام دیا جاتا ہے”۔

پچھلے چار سالوں سے شہداء بابڑہ چارسدہ کا تذکرہ سوشل میڈیا پر بڑے زور وشور جاری و ساری ہے۔ پشتون قوم پرستوں کی تاریخ پہلے  بھی مشکوک رہی ہے، اے این پی کے نام نہاد انٹلیکچوئل اسٹبلشمنٹ نے اس کو مکمل ہی اپنا افسانہ بنا دیا۔ پشتون قوم پرست نظریات و تاریخ کو عوامی نیشنل پارٹی نے جو زک پہنچائی ہے اس کے بعد اب کوئی بندہ بھی پشتون قوم پرست کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ جب سے نوجوان منظور پشتین نے اٹھ کر قبائل میں جاری پاک فوج کی زیادتیوں کے خلاف سینہ تان کر میدان میں کھڑا ہوگیا اور بنا کسی خوف و خطر کے پاکستانی تاریخ میں پہلی بار فوج کو للکارا تو باقی ماندہ روایت پرست پشتون بھی اپنی کمین گاہوں سے باہر نکل کر سامنے آگئے۔ خیبر پختونخوا  اور جنوبی پختونخوا کے روایتی قوم پرست مختلف ترجیحات کیساتھ میدان عمل میں آگئے۔ نوجوان نسل جن کا زیادہ جھکاؤ  منظور کی طرف ہے، روایتی قوم پرستوں نے ان کے جذبات کو غلط رخ دینے کی پوری سعی کی۔ منظور کیساتھ کھڑے نوجوان طبقے کو بھی ان قوم پرستوں نے “سانحہ بابڑہ” کا جھنڈا تھما دیا۔ جس سے ایک کنفیوزڈ بیانئے نے جنم لیا۔

آئیں بات کرتے ہیں کہ “سانحہ بابڑہ” کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے۔
12 اگست 1948 کو صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ  عبدالقیوم کشمیری کی ایما پر بابڑہ میدان میں جمع باچا خان کے خدائی خدمتگار کارکنان پر اندھا دھند گولیاں چلائی  گئیں۔ جس سے کافی لوگ زخمی ہوئے اور کچھ کارکنان شہید ہوگئے۔ باچا خان کا موقف تھا کہ کل ایک سو پچاس کارکنان شہید ہوئے ہیں اور چار سو کارکنان بری طرح سے زخمی ہوئے ہیں جبکہ حکومتی موقف تھا کہ پندرہ کارکنان شہید ہوئے ہیں اور پچاس زخمی ہوئے ہیں۔ بلاشبہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا غیر انسانی المیہ تھا جو نوزائیدہ پاکستان کے ماتھے کا پہلا بدنما داغ بنا۔

لیکن بعد از تاریخ، اے این پی کی افسانوی تاریخ سازی کا کمال دیکھیں کہ یہ تعداد چھ سو شہداء تک پہنچ گئی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے ہاتھ جب سال 2007  میں صوبہ سرحد کی حکومت آئی تو وزیراعلیٰ  حیدر ہوتی اور اس کے والد اعظم خان ہوتی نے ریاستی مشینری اور پیسے کا بے دریغ استعمال کرکے پشتون قوم پرست تاریخ کو ازسر نو مرتب کرنے کی کوششیں کیں۔ پشتون تاریخ اور قوم پرست نظریات پروپیگنڈا کیلئے مختلف لکھنے والوں کو باقاعدہ پیسے دیکر لکھوایا جانے لگا۔ جس میں صوبہ خیبر پختونخوا  کے بڑے نامی گرامی صحافی حضرات بھی شامل تھے۔ وزیراعلیٰ  خیبر پختونخوا  حیدر ہوتی اور اس کے والد اعظم خان نے باقاعدہ پشتون قوم پرست نظریات کی ترویج کیلئے ان سب کا خوب استعمال کیا۔ اعظم ہوتی نے درجنوں صحافی نما لکھاریوں جیسے فرہاد علی خاور وغیرہ کو ٹاسک دیا کہ سانحہ بابڑہ کی تاریخ کو ازسر نو مرتب کیا جائے تاکہ پشتون قوم پرست نظریات کی ترویج میں کوئی مشکل نہ ہو۔

حکومتی مشینری اور پیسوں سے لیس یہ صحافی کارندے دنوں بلکہ مہینوں سانحہ بابڑہ کے دیومالائی کہانی کو حقیقی بنیاد فراہم کرنے کیلئے بابڑہ میں مصروف عمل رہے مگر ان کو خاطر خواہ کامیابی تو دور مکمل خفت آمیز ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ شہید ملا، نہ تاریخ ، نہ شہداء کے ورثا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سچ مچ بابڑہ میں اتنی بڑی خونریزی ہوئی تو منطقی طور پر تین سوال اٹھتے ہیں۔

اوّل: ان سینکڑوں شہدا کی قبریں کہاں ہیں؟
دوم: متعلقہ واقعہ کی فوجداری و قانونی شواہد کہاں ہیں؟ ایف ائی آر ، تھانہ و مجسٹریٹ ریکارڈ میں وہ تعداد کہاں ہے جو آج نیشنل پارٹی اپنے سیاسی مرثیوں میں بتا رہی ہے؟
سوم: ان چھ سو شہدا کے ورثا و لواحقین اور رشتہ دار کہاں ہیں؟

ان تینوں سوالوں کے جوابات نہ آج تک ملے ہیں نہ کبھی ملیں گے۔

صحافی نوکروں کے ساری ٹیم کو نہ شہدائے بابڑہ کا   قبرستان ملا ، نہ ان کے ورثا۔ کُل ملا کر پانچ شہداء کے نام ایک حکومتی ریکارڈ میں مل گئے ۔ سو کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق، سب نے واپس آکر اعظم ہوتی کو بتایا کہ جناب شہدائے بابڑہ کے  قبرستان کا کوئی وجود نہیں ملا، بس اس واقعہ کو افسانوی روایات کا نام دیکر ترویج کی  جائے۔
سیاست کو زندہ رہنے کیلئے ایک بیانیہ چاہیے ہوتا ہے اور یہ بیانیہ جتنی دور از حقائق ہو اور جتنا زیادہ رٹایا، دہرایا اور پھیلایا جائے اتنی زیادہ حقیقت کی روپ دھار لیتی ہے۔ یہی کچھ ہٹلر کے پروپیگنڈہ وزیر گوئبلز نے کیا تھا۔ اسی کو پروپیگنڈہ تکنیک اور پولیٹیکل ڈائنامکس کہتے ہیں۔

سو ائے این پی نے چھ کے ہندسے کیساتھ دو صفر اور ملا دئیے۔ اور یوں قربانیوں کی داستان ، شہدائے بابڑہ اور کربلائے بابڑہ کا نیا بیانیہ وجود میں آگیا۔
تاہم آپ سے پھر بھی درخواست ہے کہ آپ کو اگر کبھی کسی جگہ بابڑہ کا قبرستان، قانونی ریکارڈ یا دس پندرہ شہدا کے لواحقین کا اتا  پتا  ملے تو ہم سے لازمی شیئر کریں۔ میرا وعدہ ہے کہ میں آپ کی دی ہوئی تمام تفصیلات و مندرجات کے ساتھ اپنی وال اور مکالمہ ویب سائٹ سے چھاپوں گا اور آپ سے سر ِ عام معافی بھی مانگوں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وگر نہیں تو خدا را یہ تاریخ سازی کے کارخانے بند کریں کیونکہ پشتونوں کو اب آپ کا گھسا پٹا بیانیہ نہیں امن، معاش اور بہترین علم و تربیت کی ضرورت ہے نا  کہ آپ  کے خودساختہ جذباتی نعروں کی۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply