شاہ عنایت شہید دنیا کے پہلے سوشلسٹ صوفی۔۔اختر بلوچ

صوفی شاہ عنایت شہید المعروف جھوک شریف والے کو بجا طور پر دنیا کا پہلا کمیونسٹ یا سوشلسٹ صوفی قرار دیا جاسکتا ہے۔ شاہ عنایت نے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے حکمران طبقوں سے کسی قسم کی بھی مفاہمتی پالیسی اختیار نہیں کی اور اس وقت کے حکمرانوں کے معاشی استحصال کے خلاف نہ صرف آواز بلند کی بلکہ عملی جدوجہد بھی کی۔ان کا مقابلہ صرف حکمرانوں سے نہ تھا بلکہ ان کے حواری جاگیرداروں، پیروں اور مولویوں سے بھی تھا ۔ بعد ازاں یہی  ناپاک اتحاد شاہ عنایت اور ان کے حامیوں کے قتل کا سبب بنا۔یہ تحریک سندھ میں ایک ایسی تحریک تھی جو گوکہ بہت تھوڑے عرصے میں انجام کو پہنچی لیکن اس کی صدا آج بھی سندھ میں گونجتی ہے کیوں کہ ان کا نعرہ تھا ’جو بوئے، سو کھائے‘ وہ غیر حاضر زمیں داری کے سخت خلاف تھے۔

شاہ عنایت سابق مغل بادشاہ فرخ سیر کے دور میں 1128ء میں حیدرآباد دکن سے اپنا علمی سفر مکمل کرنے کے بعد 1128 میں ٹھٹھہ میں وارد ہوئے اور 1131 تک یہاں قیام کیا۔ میر علی شیر قانع اپنی کتاب میں اُن کے حوالے سے لکھتے ہیں ’’شیخ حق شناس، شریعت اساس، صحرا گرد طریقت ،خمخانہ وحدت، جوشِ حقیقت، ساقیِ سرمست، بزمِ ارشاد، ساگر سرشار، بادہِ جواد، آئینہ معرفت، مجردی، رہنمائے ملک بے خودی، ازکثرت یکتا گزیں، بہ محفل خلوت نشیں صوفیہ راہ شاہ عنایت اللہ‘‘۔

سندھ کے معروف دانشور اور محقق پیر حُسام الدین راشدی پنی کتاب ’’دیہاتوں کی داستان‘‘ (گالھیوں گوٹھ وٹن جون) میں لکھتے ہیں کہ شاہ عنایت شہید جب دکن سے لوٹے اور اپنے بزرگوں کی جگہ مسندنشین ہوئے اور حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی بحالی کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اس دور میں زمیندار اور ہاری کے درمیان کوئی قاعدہ قانون نہیں تھا، جو زمیں دار جتنا زیادہ طاقتور ہوتا تھا وہ فصل کا اتنا ہی حصہ لے جاتا تھا، غریب ہاری رومال جھاڑ کر ان کے دربار سے نکلتا تھا۔ اسی طرح دیگر معاملات اور لین دین کے باعث بمشکل ہاری کو روح کا رشتہ جسم سے برقرار رکھنے کے لیے کچھ مِل پاتاتھا۔ یہی سبب تھا کہ سندھ کے کسان کسی ایک جگہ مستقل طور پر قیام نہیں کرتے تھے۔ وہ آوارہ گرد پرندوں کی طرح بھوک و افلاس دور کرنے کے لیے ایک سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے تھے۔

صوفی شاہ عنایت وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اس صورتحال کوشدت سے محسوس کیا اور اپنی آبائی زرعی اراضی کو مشترکہ ملکیت قرار دے کر پیداوار پر سب کا مساوی حق اور حصہ تسلیم کرنے کی منصوبہ بندی کی اور اپنے مریدوں، گاؤں والوں اور پڑوسیوں کو ساتھ ملاکر اس پر عملی قدم بھی اٹھایا۔ اس کے تحت ان کے پیروکاروں کو یہ حق ملا کہ جو جتنی محنت کرے اتنا حصہ حاصل کرے۔ یہ بات اس وقت کے حکمرانوں اور ان کے حواریوں کو کسی صورت میں قابلِ قبول نہ تھی۔ شاہ عنایت کے خلاف مہم کا آغاز کردیا گیا اور حکمرانوں کی جانب سے ایک لشکر ترتیب دیا گیا جسے اس وقت کے مذہبی پیشواؤں کی حمایت حاصل تھی، نہ صرف یہ بلکہ شاہ عنایت کے خلاف کفر کے فتوے بھی حاصل کیے گئے اور اُن سمیت ان کی پوری جماعت کو بے دین قرار دے دیا گیا۔

صوفی شاہ عنایت کے خلاف سب سے بڑا مذہبی گروہ بلڑی کے سادات کا تھا، جس کا بنیادی سبب یہ تھا کہ اُن کے مرید اور پیروکار ان کے دائرہ کار سے آزاد ہو کر جھوک شریف کی جانب امیدیں لگا رہے تھے۔ اسی طرح آس پاس کے دیگر لوگ بھی صوفی شاہ عنایت کے حلقہ ارادت میں شامل ہو رہے تھے۔ جہاں تک زمیں داروں کی ناراضگی کا سبب تھا وہ بلکل واضح تھا کہ وہ ایسا نظام کیسے قبول کرتے کہ جو کمائے وہ کھائے۔ شاہ عنایت کی تحریک اب ایک ایسے مرحلے پر پہنچ گئی تھی کہ نہ صرف سندھ کے حکمران بلکہ مغل بادشاہ فرخ سیر کو بھی اس بات سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ فرخ سیر نے محسوس کیا کہ ٹھٹھہ کا صوبیدار میر لطف علی خان شاہ عنایت کے ساتھ نرمی سے پیش آرہا ہے، اس لیے اس نے نواب اعظم خان کو ٹھٹھہ کا نیا صوبیدار مقرر کردیا۔ نواب اعظم کے حوالے سے روایت ہے کہ اسے صوفی شاہ عنایت سے ذاتی پرکاش تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ایک بار اعظم خان شاہ عنایت سے ملنے گئے تو ان کے فقراء نے انھیں دروازے پر روک لیا اور کہا کہ حضرت صاحب اس وقت وظائف میں مصروف ہیں۔ بعد ازاں جب صوفی شاہ عنایت سے ان کی ملاقات ہوئی تو اعظم خان نے کہا ’’در درویش را، درباں نہ شاید‘‘ (درویشوں کے دروازوں پر دربان اچھے نہیں لگتے) شاہ عنایت نے فوراً جواب دیا ’’باشاید تاسگِ دنیا نہ آید‘‘ ( تاکہ دنیا کا کتا اندر نہ آپائے)۔

سبط حسن اپنی کتاب ’’نویدِ فکر‘‘ میں لکھتے ہیں کہ  یہ روایت صحیح ہو یا غلط، نواب اعظم نے بہرحال اجتماعی زراعت کی تحریک کو کچلنے کا فیصلہ کرلیا اور چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ اس نے صوفی شاہ عنایت سے وہ واجبات طلب کیے جو ’’ممنوعہ سلطانی‘‘ تھے۔ صوفی نے جواب دیا کہ جب یہ واجبات بادشاہ کی طرف سے معاف ہوچکے ہیں تو آپ کو ان کی وصولی کا کیا حق ہے۔ اس جواب سے نواب تلملا اٹھا۔ اس نے پیش کاروں اور متقد یوں سے مشورہ کرکے بادشاہ کے پاس شکایت لکھ بھیجی کہ صوفی شاہ عنایت اور ان کے فقیر دعوائے سلطنت کررہے ہیں اور خلیفہ  کا حکم ماننے سے انکاری ہیں۔ اس دور کے مغل بادشاہ فرخ سیر نے امرِ واقعہ کی تحقیقات کیے بغیر حکم صادر کردیا کہ باغیوں کو بزور شمشیر اطاعت پر مجبور کیا جائے۔

فرخ سیر کے حوالے سے ایک اور واقعہ بھی مشہور ہے کہ ان کے دور میں اردو زبان کے پہلے انسان دوست شاعر جعفر زٹلی کو بھی قتل کرایا گیا تھا۔ جعفر زٹلی حکمرانوں پر ہجونگاری بڑی شد و مد کے ساتھ رکھتے تھے۔ اس کے دور میں انھوں نے فرخ سیر کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’’سکہّ زد بر گندم و موٹھ و مٹر بادشاہ تسمہ کش فرخ سیر‘‘ معروف محقق رشید حسن خاں کی مرتبہ کتاب زٹل نامہ کلیات جعفر میں لکھتے ہیں ’’تسمہ، بند چرمیکہ بداں زیے رابندند،دوال چرمی‘‘ (فرہنگ فارسی)۔ “تسمہ، چمڑے کی پتلی ڈور جو دو ڈیڑھ انچ تک چوڑی ہوتی ہے، لمبائی مقرر نہیں۔ چابک، کوڑا” (اردو لغت)۔ ” تسمہ کش، کھال کھینچنے والا، کوڑے مارنے والا، جلاّد” (ایضاً)۔ مغل بادشاہ فرّخ سیر کے لیے مشہور ہے کہ اُس نے کئی امرا کو تسمے سے گلا گھونٹ کر مروا دیا تھا۔ نواب ذوالفقار خان کے سلسلے میں بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ اُن کو اِ سی طرح گلا گھونٹ کر مروادیا تھا (تاریخِ محمدی ص31)۔ اُن کے والد اسد خان کو بھی اسی طرح مروا دیا تھا۔

صوفی شاہ عنایت وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے اپنی آبائی زرعی اراضی کو مشترکہ ملکیت قرار دے کر پیداوار پر سب کا مساوی حق اور حصہ تسلیم کرنے کی منصوبہ بندی کی اور اپنے مریدوں، گاؤں والوں اور پڑوسیوں کو ساتھ ملاکر اس پر عملی قدم بھی اٹھایا

پیر حسام الدین اپنی کتاب ’’دیہاتوں کی داستان‘‘ (گالھیوں گوٹھ وٹن جون) میں مزید لکھتے ہیں کہ صوفی شاہ عنایت شہید نے جب جامِ شہادت نوش کیا، یہ وہ دور تھا ہند و سندھ میں مغل سلطنت زوال پذیر تھی۔ اورنگزیب عالمگیر 1118 ہجری میں فوت ہوئے۔ انھوں نے پسماندگان میں بیٹوں اور پوتوں کی ایک فوج چھوڑی تھی۔ انھوں نے وہی روایت برقرار رکھی جس کا آغاز اورنگزیب نے کیا تھا۔ اپنے باپ کو قید کیا، برادر کُشی کا دستور بھی عام کیا، جہان فانی سے کوچ کرنے کے بعد ان کی اولاد نے بھی اُن کی یہ روایت جاری رکھی، تخت و تاج کے حصول کے لیے ہندوستان بھر میں خونریزی ہوئی اور ہنگاموں سے بھرپور اس دور میں برادر کُشی کے واقعات کو دہرایا گیا۔ 1118سے 1124تک چار شہزادے تخت نشیں ہوئے۔ شاہ عالم بہادر شاہ اول دو برسوں کی خونریزی کے بعد جب لاہور میں مرے تو خانہ جنگی کی وجہ سے کسی کو بھی ان کی تدفین کا خیال نہیں آیا، ایک ماہ تک بادشاہ سلامت کی لاش لاوارث پڑی رہی۔ ان ہی کے دور میں یہ ضرب المثل مشہور ہوئی ’’شاہ عالم از دلی تا پالم‘‘ یعنی ان کی حکومت صرف دلی سے پالم تک تھی۔ باقی سب خیر۔

ان کے بعد معزالدین جہاندار شاہ تخت نشیں ہوئے۔ وہ ایک بے انتہا فضول، بیکار اور عیاش تھے۔ ان کا کاروبارِ مملکت لال کنور نام کی ایک خوش شکل چلاتی تھی۔ اس کے بعد فرخ سیر بن العظیم الشان بن شاہ عالم بن اورنگزیب عالمگیر نے انتہائی سفاکی اور بے رحمی سے اسے قتل کرواکر تخت پر قبضہ کیا۔ یہ سب کچھ 1118سے لے کر 1124 تک 6 سے سات برسوں تک ہوا۔ فرخ سیر 1124سے لے کر 1131 تک حکمران رہے۔ اس کا دور حکومت بدامنی، خونریزی، قتل، سازشوں، بے عملی، قید اور بھوک و افلاس کا دور تھا۔ 1118سے 1131تک نو صوبیدار دہلی سے سندھ میں مقرر کیے گئے۔ ان میں سے کوئی بھی چند مہینوں سے زیادہ برقرار نہیں رہ سکا۔ فرخ سیرکے زمانے میں چار صوبیدار آئے جن میں سے ایک عطر خان ٹھٹھہ کے دوسرے صوبیدار میر لطف علی خان رضوی سے جنگ کے دوران قتل ہوئے، یہ جنگ دو سال تک جاری رہی، جس کے سبب ٹھٹھہ تقریباً تباہ و برباد ہوگیا۔
سبط حسن اپنی کتاب ’’نویدِ فکر‘‘ میں شاہ عنایت شہید پر حملے کی داستان یوں لکھتے ہیں۔ مرکز سے اجازت ملتے ہی نواب اعظم خان جھوک پر حملے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔ اس نے سندھ کے سب  رئیسوں کے نام پروانے جاری کیے کہ اپنے اپنے سپاہی لے کر مدد کو آؤ۔

اعظم خان نے میاں یار محمد کلہوڑو اور تمام زمین داروں اور اس خطے کے ان تمام لوگوں کے نام معاونت کے احکام حاصل کرلیے تھے جو فقیروں سے پرانی دشمنی رکھتے تھے۔ یوں ایک ایسی فوج تیار کرکے فقیروں پر حملہ کیا جو شمار نہیں کی جاسکتی تھی۔ یہ چیونٹیوں اور ٹڈیوں سے بھی زیادہ تھی اور سبی و ڈھاڈر سے سمندر تک کے علاقے سے جمع کی گئی تھی۔

صوفی شاہ عنایت صلح پسند بزرگ تھے۔ ان کو جب زمیں داروں کی مخالفت اور اعظم خان کی فوجی تیاریوں کی خبر ملی تو وہ افسوس کرنے لگے کہ ’’میں بازارِ عشق میں یہ سودا اس لیے تو نہیں لایا تھا ور نہ میں چاہتا تھا کہ اس طرح کا شور غل بپا ہو کہ داروگیر کا میدان آراستہ ہوجائے۔‘‘ جب دشمن کی فوجوں نے جھوک کا رخ کیا تو فقیروں نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ ہم ان پر راستے میں حملہ کردیں تا کہ شاہی لشکر کو اپنی صفیں آراستہ کرنے کا موقع نہ ملے اور جھوک محاصرے سے بچ جائے مگر ’’شاہِ خدا آگاہ نے پیش دستی کی اجازت نہیں دی۔‘‘

جھوک فقیروں کی پرامن بستی تھی، فوجی چھاؤنی نہ تھی۔ فقیروں کے پاس ان کی ’کاغذی‘ تلواروں کے سوا جن کے دستے لکڑی کے تھے، اگر کوئی اسلحہ تھا تو وہ کاٹھ کا ایک زنبورچہ تھا جب کہ دشمن ’’تو پہائے پیل کش روئیں‘‘ (ہاتھیوں کو ہلاک کرنے والی لوہے کی توپیں) سے مسلح تھے۔ مگر میاں یار محمد (خدایار خان کلہوڑو، والی بھکر) اور میران سنگھ کھتری ملتانی کے خطوط سے جو میدانِ کارزار سے لکھے گئے تھے، اندازہ ہوتا ہے کہ پرانے زمانے کے دستور کے مطابق جھوک کے گرد کچی مٹی کی مضبوط چہار دیواری موجود تھی اور گہری خندق بھی کھدی ہوئی تھی جو پانی سے بھری تھی۔

شب خون کا واقعہ12/اکتوبر1717 کو اسی رات پیش آیا جس دن شاہی لشکر نے جھوک کا محاصرہ کیا۔ میاں یار محمد لکھتے ہیں کہ ’’اتوار کی رات تھی۔ ہمارا لشکر محاصرہ کیے ہوئےتھا۔ جس وقت یہ حملہ ہوا تو وہ سپاہی جو میاں یار محمد کے خیمے کے گرد پہرے پر مامور تھے، ادھر ادھر ہوگئے‘‘ (شاید جان بوجھ کر) مگر خیریت گزری کہ میاں یار محمد کے دو بیٹے میاں داؤد اور میاں غلام حسین اور بھائی میر محمد بن میاں نصیر محمد موقعہء واردات پر موجود تھے۔ چناں چہ انھوں نے ’’غبارِ فتنہ رابآبِ شمشیر فرونشاندند‘‘۔ اس چپقلش میں میاں غلام حسین زخمی ہوئے۔

محاصرے کو دو مہینے گزر گئے مگر شاہی لشکر توپ وتفنگ سے لیس ہونے کے باوصف جھوک پر قبضہ کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ اس اثنا میں صاحبزادہ سید حسین خان اور کئی زمیندار نواب اعظم کے حسبِ پروانہ کمک لے کر جھوک پہنچ گئے، لیکن شاید ان ہی دنوں سیلاب آگیا۔

صوفی شاہ عنایت صلح پسند بزرگ تھے۔ ان کو جب زمیں داروں کی مخالفت اور اعظم خان کی فوجی تیاریوں کی خبر ملی تو وہ افسوس کرنے لگے کہ میں بازارِ عشق میں یہ سودا اس لیے تو نہیں لایا تھا اور نہ میں چاہتا تھا کہ اس طرح کا شوروغل بپا ہو کہ دارو گیر کا میدان آراستہ ہو جائے۔ جب دشمن کی فوج نے جھوک کا رخ کیا تو فقیروں نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ ان پر راستے میں حملہ کر دیں تا کہ شاہی لشکر کو امنی صفیں آراستہ کرنے کا موقع نہ ملے اور جھوک محاصرے سے بچ جائے مگر شاہِ خدا آگاہ نے پیش دستی کی اجازت نہیں دی۔

میاں یار محمد نے جھوک کے محاصرے کے دوران جو خط اپنے بیٹے میاں نور محمد کو فارسی میں لکھا تھا اس سے پتہ چلتا ہے کہ شاہی لشکر 12 اکتوبر 1717 کو یا اس سے دو چار دن پیش تر دریائے اوتھل سے کوچ کرکے جھوک پہنچا اور بستی سے ایک میل کے فاصلے پر مقیم ہوا البتہ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ حملہ آوروں اور فقیروں کی تعداد کیا تھی۔ میران سنگھ کھتری ملتانی کے خط سے پتا چلتا ہے کہ نواب اعظم خان کی جمعیت قلیل تھی اور مقابلہ دراصل خدا یار خان کی کثیر فوج اور فقیروں ہی میں ہوا۔ وہ لکھتا ہے کہ قلعہ مفسد کو ایک جانب خدا یار خان نے محاصرہ کیا اور بہ آوازِ بلند و قہائے برق شرائر و جزائر رعد نوائر ہوش رہائے مقہور شد ند (برق گرانے والی بندوقوں اور رعد کی سی ہوش ربا آواز پیدا کرنے والے جزیروں سے دشمن پر قہر برسانے لگے) اور دوسری طرف نواب اعظم خان نے مورچہ لگایا اور بہ تیروتفنگ ہنگامہ آرائی معرکہ جنگ گردیدند (تیروں سے جنگ کا ہنگامہ برپا کیا) میران سنگھ نے اپنے محسن میاں خدا یار خان کی فوجی برتری اورشاہی لشکر کی کمتری  کو بڑی ہوشیاری سے واضح کیا ہے۔ فقیروں کی جمعیت کو وہ دس ہزار سوار بتاتا ہے جو سراسر غلط ہے۔ ان کے پاس گھوڑے کجا اتنے تو آدمی بھی نہ تھے۔ میاں یار محمد نے اپنے خط میں فقیروں کے شب خون مارنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کی تعداد سترہ سو پیادہ تھی کہ درحقیقت روحِ تمام مفسدان بود۔ اس سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ فقیروں کی کل تعداد دو ڈھائی ہزار سے زیادہ نہ تھی اور ان کے پاس آتشیں اسلحہ بالکل نہ تھا۔

تب شاہی انتقام کی آگ نے جھوک کا رخ کیا اور فقیروں کا قتلِ عام شروع ہوا۔ ان کے گھر جلا دیے گئے۔ ان کا اثاثہ لوٹ لیا گیا اور بستی کی چہار دیواری مسمار کر دی گئی۔ جھوک کی اجتماعی کھیتی سیلابِ خون میں ڈوب گئی۔ نہ بیچ بونے والے بچے نہ فصل کاٹنے والے۔
صوفی شاہ عنایت شہید ہو گئے۔ بے شمار فقیرتہ تیغ کر دیے گئے اور جھوک کی بستی برباد ہو گئی پھر بھی اربابِ اقتدار کے خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ وہ شاہ عنایت صوفی کے نام سے لرزتے تھے چناں چہ اعظم خان نے منادی کروادی تھی کہ اگر کسی کی زبان سے لفظ اللہ (جو فقیروں کا اسمِ تکبیر تھا) بلند آواز سے نکلے تو اس کا سر تلوار سے قلم کردیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صوفی شاہ عنایت کا ایک اور اہم کارنامہ اجتماعی کھیتی کا کامیاب تجربہ ہے۔ ان کے اس تجربے نے ثابت کیا کہ اگر زمیندار اور جاگیردار حائل نہ ہوں تو اجتماعی کھیتی کو زیادہ بہتر طریقے سے بروئے کار لایا جا سکتا ہے جو بجائے دشمنی و رقابت کے باہمی یگانگت اور بھائی چارے کو فروغ دینے میں مدد گار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس تجربے سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ ریاست کی پرزور قوت اب تک غریب و نادار افراد کی بجائے اونچے طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتی رہی ہے۔ یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے کہ تاریخ میں محمد بن قاسم، محمود غزنوی اور احمد شاہ ابدالی کا ذکر تو تواتر سے ملتا ہے لیکن نئی نسل صوفی شاہ عنایت شہید کے نام سے واقف نہیں۔بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply