سیکس اور اُداس نسلیں /رضوان ظفر گورمانی

سِگمنڈ فرائیڈ نے کہا تھا ’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘ آپ غالِب، میر، داغ، جِگر، جُون، پروین، وصی، اور دیگر اردو کے شُعرا کی کتابیں پڑھ لیں،اِنکا کثیر حِصہ وصل و ہجر و فراق، اَن کہے جذبات، محبوب کی صراحی دار گردن ، بل کھاتی کمر ، ہیرے جیسا شفاف بدن ، نشیلی آنکھیں ، گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹ ، حسرتوں، اور پچھتاوے  کے موضوعات پر مُشتمل ہو گا۔

آپ گُوگل کے اعداد و شُمار کا تجزیہ بھی کر لیں، پاکستان کا شُمار اُن مُمالک میں ہوگا، جہاں فحش ویبسائیٹس دیکھنے کا رِواج سب سے زیادہ ہے۔ آپ خیبر سے کراچی تک کا سفر بھی کر لیں، عورت بھلے 16 سال کی ہو کہ 61 سال کی ہو ،چاہے شٹل کاک بُرقعے میں ہی ملبوس کیوں نہ گزر رہی ہو، آس پاس موجود مَرد حضرات اُسے تب تک الٹرا ساؤنڈ کرتی نظروں سے گُھورتے رہیں گے جب تک وہ گلی کا موڑ مُڑ کر نظروں سے اوجھل نہ ہو جائے۔

آپ کِسی سے بھی گُفتگو کر کے دیکھ لیں، ہر دو فقروں کے بعد ماں بہن کے جِنسی اعضا پر مُشتمل گالیاں شامِل ہوں گی۔

آپ مذہبی مُبلغین و عُلما کے بیانات بھی سُن لیں، اِن میں 72  حُوروں کے جسم کے ہیجان انگیز نشیب و فراز کے سائز پر سیر حاصِل روشنی ڈالی گئی ہوگی۔ آپ پاکستان کے ڈرامے، ناول، ڈائجسٹ، فلمیں بھی دیکھ لیں، یہ عِشق معشوقی، اور لو افئیرز کے اِرد گِرد گھوم رہے ہوں گے۔ آپ ہر روز اخبار بھی پڑھ کر دیکھ لیں، کِسی ن نے م بی بی کے ساتھ یا کِسی ف نے کِسی ش بی بی کے ساتھ زیادتی بھی کی ہوئی ہوگی ، ننھے بچے حتیٰ کہ قبر میں لاشوں کی عزت بھی محفوظ نہیں مِلے گی۔

آپ کو کہیں سائینسی ڈاکیومنٹری، مریخ پر زندگی، یا روبوٹس کا تذکرہ نہیں مِلے گا، کوئی نِطشے، رسل، آئین سٹائین ، یا فلسفہ پر گفتگو کرتا نہیں مِلے گا۔

آپ اندازہ کریں کہ قائداعظم پر بننے والی فِلم جِناح ایک برطانیہ کے پروڈکشن ہاوس نے بنائی، اور صلاح الدین ایوبی پر کِنگڈم آف ہیون نامی فِلم ہالی وُڈ نے بنائی۔ ہمیں توفیق نہ ہوئی کہ کبھی قائداعظم، علامہ اقبال، یا  اپنی تاریخ پر کوئی ایسی فِلم یا ڈاکیومنٹری ہی بنا لیں جو ہم فخر سے باہر کی دُنیا کو دیکھنے کیلئے پیش کر سکیں۔

ہم ہالی وُڈ کی فلموں پر تو بین لگا دیتے ہیں، مگر سٹیج ڈراموں کے نام پر مجرے اور کیا کُچھ نہ دِکھایا جاتا رہا۔

آپ اندازہ کریں کہ ہم نے صدیوں کے غوروفکر کے بعد اپنی ذرّیں روایات و اقدار کی بنیاد پر ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل دیا ہے جہاں شادی کرنے کیلئے  ایک مرد سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہلے تعلیمی ڈگریوں کے انبار، نوکری، گھر، گاڑی، بینک بیلنس بنائے، تاکہ جب جوانی اختتام پذیر ہو، تب شادی کا سوچے، یعنی اپنی آدھی سے زیادہ عُمر کنوارا گھومتا رہے۔ لڑکیوں پر جہیز کا بوجھ الگ۔ اگر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جنسی تسکین ایک بُنیادی اِنسانی ضرورت ہے، اور جب تک انسان کی یہ بنیادی ضروت پوری نہ ہو، انسان دیگر تخلیقی کاموں پر بھرپور توجہ نہیں دے پاتا، ذہنی خلفشار کا شکار رہتا ہے، تو ہم یہ حقیقت ماننے سے انکاری کیوں ہیں؟

ہم کب تک نیوٹن، آئین سٹائین، بِل گیٹس کے بجائے شاعر، مجنوں، رانجھا، اور غمزدہ نسلیں پیدا کرتے رہیں گے؟ ہم کب تک زندگی کے چار میں سے دو دن آرزو اور باقی کے دو دن انتظار میں گزارنے پر نوجوانوں کو مجبور کرتے رہیں گے؟ دُنیا کی کون سی سائنس، دُنیا کی کون سی نفسیات، اِس معاشرت کو درست کہے گی؟

ہم کِس کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں؟ ہم کِس سے جھوٹ بولنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ یہ کیسا نظامِ زندگی ہے جہاں بُنیادی اِنسانی ضروریات کے اظہار، اور تکمیل پر پابندی ہے، گھٹن ہی گھٹن ہے؟

جب سچائی اور حقیقتوں کے اظہار کے تمام دروازے بند کر دیے جائیں، تو ہوتا تو تب بھی سب کچھ ہے، مگر منافقت کے پردہ میں، ہر شخص فرشتہ صفت ہونے کا دعویدار بن جاتا ہے، اور ڈھونڈنے سے بھی کہیں کوئی اِنسان دِکھائی نہیں دیتا۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ منافقت پر مبنی مُعاشرے کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے ساتھ جھوٹ بولنے کا بیوپار کرتے ہیں، اور خمیازہ بھی پھر خود ہی بھُگتتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

منٹو بتا گیا تھا ہم ایسے معاشرے کا حصّہ ہیں جہاں اپنی خواہشات کے دبانے کو بڑا ثواب تصور کیا جاتا ہے۔ فرائیڈ نے کہا تھا ’’وہ جذبات جِن کا اِظہار نہ ہو پائے، کبھی بھی مرتے نہیں ہیں، وہ زِندہ دفن ہو جاتے ہیں، اور بعد ازاں بدصورت طریقوں سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔‘‘

Facebook Comments

رضوان گورمانی
رضوان ظفر گورمانی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں روزنامہ خبریں سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں روزنامہ جہان پاکستان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply