سیاسی آگہی کا سفر/عرفان شہزاد

مجھے یاد ہے جب ن لیگ حکومت آئی تھی، تو خواجہ سعد رفیق نے جاوید چودھری کے پروگرام میں ٹیلی فون پر رندھے ہوئے لہجے میں کہا تھا کہ اسے ریل ویز بہت بُری حالت میں ملا ہے لیکن وہ وعدہ کرتا ہے کہ اسے ٹھیک کر کے دکھائے گا۔ میں اس وقت تک پروپیگنڈے کے اس اثر سے نہیں نکلا تھا جو بچپن سے سیاست دانوں کے خلاف اور پھر خاص طور پر عمران خان کی زہر آلود تقریروں سے میرے متخیلہ کا حصّہ بن چکی تھیں۔ پھر جب ادھر اُدھر سے معلوم ہونے لگا کہ ریل ویز کا حال بہت اچھا ہوگیا ہے تو تب بھی یقین کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کیونکہ مجھے مشاہدہ سے زیادہ اپنے تخیل پر یقین تھا۔ خیر پھر جب ایک سفر ریل ویز کا کرنا پڑا تو حیرت کا جھٹکا لگا۔ میرے والد صاحب ریل ویز میں تھے۔ ریل ویز کا بُرا حال بچپن سے دیکھ رکھا تھا۔ لیکن تبدیلی کا یہ مرحلہ جب گزرا تو میں اس سے انجان رہا تھا۔ اب جو حالات دیکھے تو پہلی بار احساس ہوا کہ ایک سیاست دان نے کیا چمتکار کر دیا تھا۔

ن لیگ کی حکومت میں دوسرا تجربہ سرکاری ہسپتالوں کا ہُوا۔ اسی پراپیگنڈے  کا اثر تھا کہ سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرنے سے میں ہمیشہ گریزاں رہا۔ مگر والد صاحب کی بیماری کے دوران میں جب انھیں لے کر ایک پرائیویٹ ہسپتال گیا تو انھوں نے کہا کہ کیس ہمارے بس کا نہیں آپ سرکاری ہسپتال لے جائیے۔ اس وقت بھی مجھے حیرت ہوئی۔ تاہم بادل نخواستہ والد صاحب کو ریل ویز کے سرکاری ہسپتال لے گئے کیونکہ والد صاحب ریل ویز کے ملازم تھے۔ اسی دوران میں مجھے سول ہسپتال کے چکر بھی لگانے پڑے تو میرے تخیل کو ایک بار پھر شرمندہ ہونا پڑا جب میں نے سرکاری ہسپتالوں کا معیار دیکھا۔ یہاں ہر سہولت تھی اور ڈاکٹرز اور عملہ اپنا کام تندہی سے انجام دیتے نظر آئے۔ مسئلہ مریضوں کے رش آور ہسپتال کی گنجایش کا البتہ تھا۔ مگر طبی سہولتیں پوری تھیں اور عملہ مستعد۔

اس کے بعد تیسرا تجربہ تحصیل آفس کا ہوا جہاں سسٹم حسب وعدہ کمپیوٹرائزڈ ہو چکا تھا۔ باری آنے پر دو منٹ میں کام ہو گیا۔ رش کا مسئلہ تھا لیکن سسٹم عمدہ کام کر رہا تھا۔

ابھی لیکن میرا تخیل میرا ایمان بالغیب و بِلا دلیل یہ مانتا تھا کہ چلو اچھے کام تو انھوں نے کیے مگر کرپشن بھی کی ہوگی۔ کون ہے جو دودھ کا دُھلا ہے۔ لیکن بھلا ہو عمران خان کے اندھے انتقامی جذبے کا۔ ملک کی نمبر ون ایجنسیوں، متعصب ججوں کے ساتھ ساری ریاستی مشینری کے استعمال کے باوجود جب کرپشن ثابت نہ ہو سکی تو یہ ایک اور حیرت کا جھٹکا تھا جس نے میرے تخیل کو پارہ پارہ کر دیا۔

اس کے بعد جب   حکومتی تفتیشی ٹیم جو 2008 سے 2018 کے ملکی قرضوں کا آڈٹ کر رہی تھی، نے یہ رپورٹ دی کہ قرضوں میں کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ملا تو مجھے شدید افسوس ہوا کہ مجھ سمیت اس ملک کے لوگوں کو محض پراپیگنڈے کے زیر اثر کس قدر جہالت اور حماقت میں مبتلا کر کے رکھا گیا ہے۔

ایک طرف یہ دعویٰ کہ گزشتہ حکومتیں اربوں روپے کھا گئیں، بیرون ملک پیسہ منتقل کر دیا، جس کا ڈھنڈورا ہمارے وزیر اعظم دنیا بھر میں پیٹتے پھرتے ہیں، اس کے باوجود ملک میں میگا پراجیکٹس لگے، بہت سی چیزوں پر سبسڈی ملتی تھی، تعلیمی وظائف ملتے تھے، معیشت بہتر ہوئی اور دوسری طرف یہ بیان کہ  عوام ٹیکس نہیں دیتے، خزانے میں پیسے نہیں، پچھلی حکومتیں قرضے لے کر کام چلاتی تھیں۔ تو پھر وہ عوام کا پیسہ کھاتے کب تھے جب کہ وہ لگا بھی رہے تھے؟

عمران حکومت کا حال یہ رہا  کہ قرضے بھی لیے، ٹیکس بھی بڑھا دیے، میگا پراجیکٹس بھی کوئی نہیں، سبسیڈیز بھی ختم کر دیں، تعلیمی وظائف بھی ختم کر دیے، صحت تک کا بجٹ کاٹ ڈالا، مگر خزانہ پھر بھی خالی ہے۔ کوئی پوچھے کہ تم کھانا بھی چاہو تو کیا کھا سکتے ہو اس میں سے؟ پچھلی حکومتوں کے ریوینیو میں ایسی کون سی برکت تھی کہ وہ لگاتی بھی تھیں اور کھاتی بھی تھیں؟

ارسطو نے کہہ دیا تھا کہ عورت کے دانت مرد سے کم ہوتے ہیں۔ صدیوں تک اس پر یقین کیا جاتا رہا تاں آں کہ کسی عقل مند نے عورت کے دانت گننے کی زحمت کر ڈالی۔ عمران خان نے بھی کرپشن کے دانت گننے کی غلطی کر ڈالی اور ہمیں ہمارے دامِ  خیال سے نجات ملی۔ اس کے لیے میں اس کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہتا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ملک کی بربادی کے اصل ذمہ دار عوام کی توجہ اپنی طرف سے ہٹانے کے لیے چور مچائے شور کا پراپیگنڈا کرتے ہیں، بچوں کے ذہنوں میں اس کی آبیاری کرتے ہیں، غیر تنقیدی تعلیم کے زیر اثر پروان چڑھنے والے سادہ ذہن نوجوانوں کو اس کا شکار بناتے ہیں۔ میری طرح ایک عام آدمی کو یہ سارے جال توڑنے میں لیکن کتنا وقت لگ  جاتا ہے جب کہ بہت سے اسی قفس کی اسیری میں عمر گزار دیتے ہیں۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply