• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سوشل میڈیا استعال بارے چند یاد یں ، چند نکات/رشید یوسفزئی

سوشل میڈیا استعال بارے چند یاد یں ، چند نکات/رشید یوسفزئی

تیسری دنیا میں جمہوری اقدار کے فروغ کیلئے متعلقہ ممالک کے ذہن سازی کرنے والے متحرک رائٹرز کو سوشل میڈیا کے  موثر استعمال کی تربیت کیلئے امریکا نے دو ادارے بنائے ہیں، البرٹ آئن سٹائن انسٹیٹوٹ اور ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ۔

پرانی نیک نام یا بدنام آئی ڈی تھی  اور شاید پاکستان سے پہلا شخص تھا جس کو امریکیوں نے ان ورکشاپس میں شرکت کیلئے مدعو کیا، ایشیا و افریقہ سے 38 ممالک سے لوگ مدعو تھے،فب اور ٹویٹر کے ماہر اہلکار اور چیف ایگزیکٹوز اور ہر ملک کیلئے ان اداروں سے وابستہ کارشناس و ماہرین درس کیلئے آئے تھے۔

ان ماہر و ذمہ دار اہلکار لاگرتھم نے اپنی جمع شد ڈیٹا کی بنیاد پر انڈیا افغانستان پاکستان کے حوالے سے ہمیں کافی اچھی  اور پریکٹیل ہدایات دیں۔

چند ایک سادہ نکات یہ تھے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر تحریری سرگرمی رات سات بجے تا دس بجے کیا کریں۔ اردو قارئین ساؤتھ ایشیا اور گلف میں ہیں اور وہ اسی وقت فارغ ہوکے سوشل میڈیا پر مشغول اور فوکس ہوتے ہیں۔

پیر منگل بدھ جمعرات کی  رات کو جو پوسٹ کریں گے وہ موثر ہوگی۰ جمعہ ہفتہ اتوار کو عام لوگ عموماً اور کالجز و یونیورسٹیز کے طلباء خصوصاً چھٹیوں اور دوسری  نجی سرگرمیوں پر ہوتے ہیں اس لئے سوشل میڈیا پر فوکس کم ہوتا  ہے سو ذہن سازی کیلئے توجہ طلب تحاریر ضائع ہوجاتی  ہیں۔

ہر دوسری پوسٹ کے  آنے سے پہلی والی پوسٹ نیوز فیڈ میں نیچے چلی جاتی ہے، سو چوبیس گھنٹے میں ایک ہی پوسٹ کریں، ضرورت ہو تو بارہ گھنٹے بعد دوسری  پوسٹ کریں تاکہ ایک پوسٹ مکمل میچور ہو۔ منٹوں بعد پوسٹ داغنے والوں کو یہ ماہرین ڈیجٹل لوز موشن Digital loose motion
یعنی ڈیجٹل دست کہتے  ہیں۔ ڈیجٹ انگلی کو بھی کہتے ہیں سو آپ انگلیوں کا دست بھی کہہ سکتے ہیں۔آپ جتنے بھی گہرے فلسفے لکھیں ، آپ جتنے بھی بڑے سیاسی پنڈت ہو ں،تھریشر کی طرح پوسٹ نکالنے پر آپ کو سوشل میڈیا کی سنجیدہ دنیا میں ایک فارغ مسخرہ ہی سمجھا جائے گا۔

فالورز و فرینڈز کے  معیار کی اہمیت کیساتھ سب سے اہم چیز انفرادی تحاریر پر لائکس اور کمنٹس ہوتے ہیں۔ لائکس دینا اور لائکس لینا دونوں انتہائی اہم امور ہیں، آپ کی ہر لائک ریکارڈ ہوتی ہے، آپ کو دی گئی ہر لائک ہرگز ہرگز رائیگاں نہیں جاتی۔

پتہ نہیں کن وجوہات کی بناء پر ایک متعلقہ ماہر نے دوران لیکچر سوشل میڈیا سلیبرٹی کی تعریف یہ کی کہ جس کی ہر پوسٹ پر کم از کم چار سو لائکس اور سو تک کمنٹس  آئیں۰ مزید بتایا کہ جو پوسٹ اوّل چالیس منٹ میں چار سو لائکس لے وہ خود بخود 1k لائکس کراس کرے گی۔ اور وہ پوسٹ ہٹ شکار ہوگی۔

کمنٹس اور لائکس دینے اور لینے کی اہمیت کا آپ کو تب اندازہ ہوگا جب آپ کینیڈا امریکا اور یورپ کی  کسی سرکاری دعوت پر جانے کیلئے ویزہ کیلئے اپلائی کریں گے۰ آپ کو ایک فارم دیا جائے گا جس میں آپ اپنے تمام سوشل میڈیا اکاونٹس لکھیں گے اور آخر میں ان کو اپنے اکاونٹس تک رسائی کی اجازت دینے کیلئے دستخط کریں گے ۔ آپ  اجازت نہ بھی دیں تو سسٹم انکا ہے وہ خود نکال دیتے ہیں۔

آپ نے کسی کو کوئی گالی دھمکی دی ہو۰ کسی کے خلاف ذاتی حملے یا ad hominem پوسٹ لکھی ہو وہ ویزہ افسر انٹرویو پر نکال کر آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔ خواہ وہ اکاؤنٹ آپ کا کب کا بلاک ہوچکا ہو اور اس بات کو کتنے سال کیوں نہ گزرے ہوں۔تعجب بڑھے گا جب آپ نے کسی دہشت گرد تنظیم یا شخص کی  کسی پوسٹ کو لائک دیا  ہو اور وہ آپ کے سامنے رکھ کر ویزہ آفیسر آپ سے پوچھ لیں کہ Do you endorse their policies? Do you agree with his ideas and agenda? ۰

سوشل میڈیا ایک زبردست طاقت ہے۔امریکی صدارتی الیکشن کیلئے پروپیگنڈہ مہم چلانے والی سب سے بڑی  فرم کے ویب پر لکھا ہے

Social media drives conventional media۰

بڑے بڑے سیاست دان اور میڈیا سلیبرٹیز سوشل میڈیا کے ساتھ نہ چل سکنے کی بناء پر  فاسلز اور زندہ لاشیں بن گئے ۰ مگر جس طرح وکی لیکس کے جولیان اسانج نے کہا تھا “ انسانی تاریخ میں فیس بک سے بڑا جاسوس پیدا نہیں ہوا” وہی حقیقت ہے۰ یہ آپ کی  طاقت  بھی ہے مگر آپ کا سب سے بڑا اور چالاک دشمن بھی ۔

ہر لکھاری اپنے لکھنے کے  ردعمل میں ریکگنیشن اور ثمرے کی خواہش و توقع دل میں لے کر ہی پہلا حرف لکھتا ہے۰ میرا  اولین کالم 1998 میں راولپنڈی سے نکلنے والے” اساس” نامی اخبار میں شائع ہوا تھا، جب میں درگئی کالج میں ایف اے کا سٹوڈنٹ تھا۰ اس کے بعد روزنامہ مشرق، آج ، پاکستان، نوائے وقت ، فرنٹئیر پوسٹ سمیت ہر مجلے و رسالے میں کبھی نہ کبھی کچھ نہ کچھ شائع ہوا۰ مگر ان کالمز سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۰ ہاں مجھے امریکا اور امریکی اداروں کی طرف سب سے پروقار دعوت فیس بک اور انعام رانا کے “مکالمہ” پر لکھنے کی بناء پر ملی۰ جس مہینے مجھے ان کی طرف سے دعوت ملی اسی مہینے پاکستان کے سب سے بڑے مذہبی پارٹی کے سربراہ، اور کے پی کے دو حاضر وقت وزیروں کی ویزہ درخواستیں مسترد کی  گئی تھیں۰ میں بے شک مغرب زدہ یا مغرب پرست ہوں۰ میرے لئے “مغرب زدہ” اور “ اسرائیلی اور امریکی و مغربی اداروں کا اہلکار، یہودی ایجنٹ” جیسے القابات ایک طعنہ  ہیں کیونکہ میں ان القابات کو قبول کرتا ہوں۰ ہاں میں اپنی  آنکھوں سے دیکھتا ہوں کہ کس طرح آپ کے مقامی لیڈر اور علمائے دین اور رہبر ان شریعت سے لیکر سلطان سعودی و سلطان برونائی اور امام کعبہ تک مغرب کی  غلام گردشوں میں سجدہ ریز ہیں۰ مغرب علم ، سائنس، انسانیت پرستی خیر خیرات دینے  میں  اوّل ہے اور اس حقیقت کا ہر ماننے والا مغرب پرست ہوگا۔سویڈن سفیر کو نکالنے اور سویڈن سے جہاد کے نعرے لگانے والے صرف سویڈین کی  ایک خیراتی این جی او کی خیرات لینے سے اپنی اسلامی حکومت کو باز رکھنے پر مجبور کریں تو بڑی فتح ہوگی  اور جو لوگ امریکہ پرستی یا امریکی دعوت پر طنز کرتے ہیں وہ پاکستان میں امریکا کے سابق سفیر رابرٹ اوکلے کا مشہور بیان یاد رکھیں کہ “پاکستانی مولوی کی قیمت امریکی سفارت خانے میں ایک کپ چائے سے امریکی ویزہ تک ہے”۔اس درمیان یہ اپنا ایمان، اسلام ،غیرت دینی، عزت پگڑی سب کچھ آپ کے پاؤں میں رکھے گا۔ یہی حال ہر سیاست دان اور بیوروکریٹ کا ہے۔2010 میں آسٹریلیا کی طرف سے کے پی حکومت کے پاس دو پولیس حوالدار لیول بندوں کیلئے جاسوس کتوں کی تربیت کی آفر آئی تھی،اس وقت کے آئی جی پولیس کے پی ایک نوبزادہ اور میجر جنرل کا بیٹا تھا۔اس نے کہا حوالدار کیوں ، میں خود اور ایک اور ایڈیشنل آئی جی آسٹریلیا جائیں گے۔

یاد رکھیں کہ آپ کی  غیر ذمہ دارانہ پوسٹس سے ان کا کچھ نہیں بگڑتا۰۰۰۰۰ No Exit from Pakistan کے مصنف ڈینئل مرکی اوبامہ انتظامیہ کے سکریٹری دفاع رابٹرٹس گیٹس کے ایکس فاٹا کیلئے مشیر تھے۔ ایک جگہ از راہ تفنن کہا تھا کہ “ رات کی لوڈشیڈنگ میں ہمارے بنائے گئے موبائل کی لائٹ سے تاریکی میں اپنی  شلوار ڈھونڈنے والے پاکستانی اسی وقت بیوی کے سامنے امریکا کو شکست دینے کی بڑھکیں مارتے ہیں، اور احساس تک نہیں ہوتا کہ جس موبائل کی لائٹ سے اپنی شلوار ڈھونڈ رہا ہوں وہ کس کی بنائی ہوئی ہے”۔ سو جس  کو پوری رات لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اپنی شلوار پانے کیلئے امریکی موبائل کی لائٹ استعمال کرنی ہو وہ ایک غیر ذمہ دارانہ پوسٹ سے کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ مگر سوشل میڈیا جاسوسی اور talent hunting اور talent spotting کا ایک زبردست آلہ ہے جو آپ کے نہ جانتے ہوئے بھی آپ کا اور آپ کے  توسط سے آپ کے خاندان ، ملک اور ایک دنیا کے  درخشان مستقبل کی تعمیر و تخریب کرسکتاہے۔ لائکس لینے سے آپ کے خواب حقیقت بن سکتے ہیں اور ایک غیر ذمہ دارانہ لاشعوری لائک دینے سے آپ ایک شاندار مستتقبل سے محروم ہو سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوشل میڈیا پر لکھتے رہیں۔ذاتی حملوں ، چیلنجز اور گالیوں اور فتوؤں سے مکمل گریز کریں۔کم لکھیں، اوریجنل ، غیر جانبدارانہ اور ذمہ دارانہ لکھیں ۔ معیاری لوگوں کو فالو کریں اور معیاری لوگ فالورز بنائیں۔اور پھر سوشل میڈیا کی کرامات دیکھیں۔

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply