• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سلطان محمود غزنوی، چور اور کپتان نیازی۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

سلطان محمود غزنوی، چور اور کپتان نیازی۔۔ملک گوہر اقبال خان رما خیل

سلطان محمود غزنوی کی یہ عادت تھی کہ کبھی کبھی رات کو لباس تبدیل کرکے شہر میں پھرا کرتے تھے۔ ایک شب ایسا اتفاق ہوا کہ ایک ویرانہمیں چار آدمی کھڑے نظر آئے۔ سلطان نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم چور ہیں۔سلطان نے کہامیں بھی تو چور ہو چلو آ ج مل کر چوری کرتے ہیں لیکن پہلے آپ اپنے اپنے اوصاف بیان کریں۔ ایک چور بولا میں جانوروں کی بولی سمجھتا ہوں، دوسرے نے کہا میں قوت شامہ سے خزانہ کی جگہ معلوم کرلیتا ہوں، تیسرے نےبغیر چابی کے تالا کھول دینے کو اپنا ہنر بتایا، چوتھے نے رات کی تاریکی میں کسی بھی شخص کو صبح ہزاروں کے مجمع میں پہچاننے کا دعویٰ کیا۔

اب سلطان کی باری آئی تو وہ بولے مجھ میں تو یہ کمال ہے کہ اگر کسی مجرم کو پھانسی ملنی ہو اور میں ذرا سر ہلا دوں تو فوراً اسے رہائی مل جاتی ہے۔

چور یہ بات سن کر نہایت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ بھائی تیرا کمال سب سے بڑھ کر ہے جب تو ہمارے ساتھ ہے تو پھر کیا خوف کیوں نا آج شاہی خزانے پر ہاتھ صاف کرلیں۔ سلطان نے کہا کیوں نہیں، چلیں۔۔اب پانچوں آدمی شاہی محل کی طرف چل پڑے، راستے میں ایک کتا بھونکا، سلطان نے پوچھا کہ یہ کیا کہتا ہے؟ پہلا شخص بولا کہ کتا یوں کہتا ہے کہ تم میں ایک بادشاہ ہے۔سلطان نے پوچھا کہ بھلا ہم میں سےکس کو بادشاہ بتلاتا ہےاس نے کہا کہ بس اتنا ہی کہہ کر چپ ہو گیا۔ جب محل کے اندر پہنچے تو ایک نے خزانہ پہچانا اور ایک نے بغیر چابی کے تالا کھول دیا۔ سب نے اپنا اپنا حصہ اٹھایا اور چلے گئے۔

جب صبح ہوئی تو ایک شور برپا ہوا کہ خزانے  چوری ہوئی ہے۔ سلطان نے چوں کہ نام و نشاں سب کا پوچھ لیا تھا فوراً حکم دیا کہ چوروں کو فلاں فلاں جگہ سے گرفتار کرو۔ اور یہ بھی حکم دیا کہ چوروں کو میرے سامنے پیش مت کرنا بلکہ سیدھا پھانسی گھاٹ لے جا کر میرے اگلے حکم کا انتظار کرنا۔

جب سب چور پکڑے جانے کے بعد اکھٹے ہوئے تو آپس میں پوچھنے لگے ہمارا وہ پانچواں یار کہاں ہے؟ ایک بولا کہ ہاں رات کو اس کتے نے خبر دی تھی شاید وہ ہی بادشاہ ہو۔ چوتھے نے کہا اگر وہ بادشاہ تھا تو میں ضرور اسے پہچان لوں گا۔ یہ گفتگو کرکے سب چور جیل سپرٹینڈنٹ سے فریاد کرنے لگے کہ جناب پھانسی تو ہمارے لیے تیار ہے  بس ایک دفعہ ہمیں بادشاہ کے روبرو لے چلو۔ ان کی فریاد جب سلطان کے گوش گزار کردی گئی تو حکم ملاپیش کرو ان چوروں کو۔ جب سامنے لائے گئے تو جس چور میں یہ کمال تھا وہ بولا حضور ہم چاروں کے اوصاف تو ظاہر ہو چکے اب آپکا سر کس وقت ہلے گا کہ یہ چار مجرم سزائے دار سے رہائی پائیں، یہ سن کر سلطان کو ہنسی آگئی اور سب چوروں کو رہا کردیا۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک ” عرفان سلطان” نہ تھا سب مجرم تھے جب عرفان حاصل ہوا کہ ہمارا فعل عین فعل سلطان تھا تو پھر جرم کیسا اور پھانسی کس کو؟

عزیزانِ من۔ صوفیاء کرام کی جماعت ایسی مثالوں سے بہت بڑے مطالب اخذ کرتے ہیں جس کی تشریحات سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ میں یہاں قلم و قرطاس گواہ کرکے ” عرفان سلطان” کی وہ تشریح نہیں کرسکتا جو صوفیاء کے ہاں کی جاتی ہیں۔ جو لوگ ذوق مطالعہ رکھتے ہیں وہ سمجھ چکے ہوں گے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں البتہ جو حضرات نہیں سمجھے وہ اگر یہ تکلیف نہ ہی گوارا کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہے۔

بہرحال کسی بھی قسم کی پیچیدہ گفتگو کیے بغیر اس کہانی کا مقصد سمجھا دیتا ہوں جو میں نے تمہید کے طور پر تحریر کی ہے۔ اس کہانی کا سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ ان چوروں نے تو سلطان کے ساتھ مل کر چوری کی تھی لیکن ان کو اس وقت سلطان کی پہچان نہیں تھی اسی لیے وہ چور تھے جب انہوں نے سلطان کو پہچان لیا کہ یہ تو ہمارا وہ پانچواں یار ہےاب وہ کیسے چور ہوئے کیوں ان کا فعل سلطان کافعل اور سلطان کا فعل ان کا فعل۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک کے اندر بھی یہی صورتحال ہے۔ آج ا  س جمہوری دور میں رہتے ہوئے بھی ہمارے ملک میں سلطان کی حکمرانی ہے۔ آج ہمارے ملک کے رکھوالے سلطان بنے ہوئے ہیں اگر کسی حکمران کو سلطان کی پہچان ہو جائے توٹھیک ورنہ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نواز شریف جیسے کرداروں کے انجام سے تو آپ روشناس ہوچکے ہیں۔

اس میں آج جو تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ سلطان کی جگہ کپتان تخت نشین ہوا ہے۔ آج جس کو ” عرفان کپتان” ہو جائےتو پھروہ جو بھی کرنا چاہے کرسکتا ہے وہ چور تصور نہیں کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر وہ سعد رفیق جس نے ریلوے کاادارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا تھا وہ آج چور ہے اور جیل میں ہے  ،کیوں؟ اس لیے کہ اسےعرفان کپتان نہیں تھا۔ اور دوسری طرف وہ “پنڈی بوائےشیخ رشید ” جس نے ریلوے کا بیڑا غرق کر دیا جس میں آج لاکھوں روپے کی ایک ایک نوکری بک رہی ہے وہ چور نہیں ہے کیوں؟ اس لیے کہ اسے عرفان کپتان ہوا ہے۔ وہ شاہد خاقان عباسی جو شرافت کا پیکر ہے جس نے اپنےدور میں پیٹرول اور گیس کی قیمتوں کو کنٹرول کر رکھا تھا وہ آج چور ہے اور سزابھگت رہا ہےکیوں؟ اس لیے کہ اسے عرفان کپتان نہیں تھا۔ اس کے بر خلاف وہ وزراء جن کی وجہ سے پیٹرول، گیس اور بجلی مہنگی ہورہی ہےوہ چور اس لیے نہیں ہے کہ انہیں عرفان کپتان حاصل ہے۔ وہ وزراء جن پر ” مالم جبہ اراضی ، اور پشاور بی آرٹی” میں کرپشن کے الزامات ہیں وہ وزارتوں کے مزے لے رہے ہیں اور وہ احسن اقبال جس کے خلاف ثبوت تو دور ان پر الزام بھی سیدھا سیدھانہیں ہے وہ حراست میں ہیں۔ آج عرفان کپتان رکھنے والے زلفی بخاری کےخلاف تو نیب تحقیقات بند ہو جاتی ہےاور سابق صدر اور دو سابق وزرائے اعظم کے خلاف نیب کے نئےکیسز کھولے جاتے ہیں یہ اگر عرفان کپتان نہ ہونے کی سزا نہیں ہے تو کیا ہے؟

سلطان محمود غزنوی تو جرم کا سد باب کرنے ان چوروں کے ساتھ ہو گئے تھے لیکن یہاں تو سارے چور کپتان عمران نیازی کے زیرِ کفالت آگئے ہیں۔ ایک طرف تو کپتان نیازی اپنے سیاسی مخالفین کو ازراہِ تکبر کہہ رہے ہیں کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ دوسرے طرف بے روزگاریاور مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے عوام کو ازراہِ مذاق کہتے ہیں کہ آپ نے ڈرنا نہیں ہے۔ کپتان نیازی براہِ کرم آ پ عوامی مسائل کو سنجیدگی سے دیکھے اور یہ نہیں چھوڑوں گا کا نعرہ اب چھوڑ دیں ۔ اتنا غرور اچھا نہیں ہے ۔ آپ سےپہلے ایک ایسا صدر بھی گزرا ہے جو کہتا تھا کہ میں ڈرتا ورتا کسی سےنہیں ۔ آج اسے بچانے کے لیے آپ کی حکومت عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے۔ آپ اتنا بھی سمجھ نہیں رکھتے کہ حالات گردش بھی کرتے ہیں جس کی  گردش میں اکثر تخت کے تاجدارتختہ دار پر لٹکا دیے جاتے ہیں۔ اور ہم تو عوام ہیں  ہمارا کیاہم تو دیکھیں گے۔۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن بھی ہمیں دکھایا گیا
جب بھٹو کولٹکایا گیا
پھر ضیاء کو فضاء میں اڑایا گیا
نواز کو مینڈیٹ تھمایا گیا
پھر زندان اٹک دکھایا گیا
بےنظیر کا ڈرامہ رچایا گیا
جیالوں کو ڈاکو بنایا گیا
پھر شیر کو واپس بلایا گیا
معیشت کا پہیہ گھمایا گیا
قاضی کو میداں میں اتارا گیا
اور سٹیج دوبارہ سجایا گیا
کپتان کو لاکر بٹھایا گیا
یہ سب کچھ ہم نے دیکھا ہے آئندہ بھی ہم دیکھے گے
میرارب جانے کہ  کب تک ہم اپنوں کے ہاتھوں روئیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply